آفات اور انسان کا ایک دوسرے سے تعلق اتنا ہی قدیم ہے ، جتنی قدیم انسانی تہذیب اور معاشرت، انسان نے اپنی ضروریات کے پیشِ نظر نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ کی، اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دریاؤں کے رخ موڑنے کی غرض سے ان پر بند باندھے، ایندھن کو حاصل کرنے کے لیے جنگلات کی کٹائی کی اور درختوں کا قتل عام کیا اور ایسا کیا کہ پتھر کے زمانے سے لے کر آج تک پوری شدومد سے جاری ہے، نتیجتاً قدرتی آفات کے رونماء ہونے میں بے پناہ اضافہ ہوا، اپنی ضروریات کا پیٹ بھرنے کے لیے صنعتیں لگائیں، جہاں سے اگلنے والے زہر نے بنی نوع انسان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جو زمین انسان کا پیٹ بھرنے کے لیے غلہ اُگاتی تھی،اس پر چند ٹکوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے کاشتکاری چھوڑ کر اس جگہ دیوانہ وار رہائشی کالونیوں کی تعمیر شروع کردی، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت جیسی آفت نے سر اٹھا لیا،رہی سہی کسر انسان نے اپنی تباہی میں تب پوری کی، جب اس نے اسلحے کی فیکٹریاں ڈالیں اور اسی اسلحے کا استعمال کر کے انسان نے انسان کی بیش بہا خونریزی کی، سو ہر آفت کی ذمہ دار صرف اور صرف قدرت نہیں ہے، انسان نے خود بھی اپنی تباہی کا مکمل سامان کیا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جس میں تمام تر قدرتی و غیر قدرتی آفات رونماء ہو کر بہت سی انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا چکی ہیں اور ساتھ کے ساتھ معاشی طور پر مضبوط ہونے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا جس کی وجہ سے معاشی خودمختاری کے اہداف آج تک نہ حاصل ہو پائے۔حالیہ دنوں میں موذی وباء نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے،آخر کار فرروی 2020 میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی آن پہنچی۔
عالمی ادارہ صحت نے اس وباء سے متعلق تمام ممالک کو بروقت نا صرف مؤثر اطلاعات فراہم کر دی تھیں بلکہ مکمل تکنیکی معاونت بھی کی، جو کہ آج تک جاری ہے،WHO نے اس سے متعلق تمام دنیا کے ممالک کو آگاہ کردیا تھا کہ اس کے تدارک کے لیے کوئی بھی دواء موجود نہیں ہے، اس سے بچنے اور محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ صرف اور صرف احتیاط احتیاط اور بس احتیاط ہے،پاکستان نے عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کو مد نظر رکھ کر، وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں لاک ڈاؤن کو نافذالعمل کیا، تاکہ اس وباء کے پھیلاؤ کو ممکنہ حد تک نا صرف روکا جاسکے بلکہ جو علاقے محفوظ ہیں انہیں مزید محفوظ بنایا جاسکے۔
اور ساتھ کے ساتھ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں متاثرین کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکے، مگر اس لاک ڈاؤن کے دوران کچھ شعبہ جات سے متعلق افراد کو استثناء حاصل ہے، جس میں تمام سکیورٹی فورسز و ایجنسیز، ریسکیو 1122، محکمہ صحت ،ڈاکٹرز ، پیرامیڈکس ، ضلعی انتظامیہ، میونسپل کمیٹی عملے کے ارکان، اور پولیس شامل ہیں،جہاں ہر ایک محکمہ اس آفت کے دوران اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے، عموماً پولیس میں موجود منفی عناصر کی وجہ سے یہ محکمہ اکثر و بیشتر عوام، میڈیا اور سول سوسائٹی کی جانب سے بد ترین تنقید کا شکار رہتا ہے، لیکن اس مشکل ترین وقت میں محکمہ پولیس کے افسران و جوان اپنے محدود وسائل میں رہ کر صف اول پر اپنی خدمات بہت احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔
ایک بات بہت اہم ہے کہ اس وباء کے وقت میں پولیس محکمے افسران و اہلکار بہت ہی ناکافی حفاظتی اقدامات کے باوجود اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں، بے شک یہ ان کا کام اور ان کے پیشے کا حصّہ ہے کہ انہوں نے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اپنی پروا کیے بغیر کرنی ہے مگر ہمیں بحیثیت شہری یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کا بھی گھر بار ہے بال بچے خاندان ہیں۔
حالیہ دنوں میں پولیس افسران اور اہلکاروں پر تشدد ہوا، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھنے میں آئی کہ ایک صاحب تونسہ شریف شہر میں لاک ڈاؤن ڈیوٹی پر معمور افسران سے سینہ تان کر بدتمیزی کرتے نظر آئے ، لیہ شہر میں اشرف ماکلی SHO,سٹی پر جان لیوا حملہ کیا گیا، سندھ میں ایک خاتون پولیس افسر سے بہت زیادہ بدتمیزی کی گئی، ایسے تمام واقعات قابل مذمت ہیں، اس وقت میں ہم سب کو یکجا ہونا ہے اور اس ظالم اور دشمن وباء کو مات دینی ہے، پورے ملک میں شہریوں کی حفاظت پر معمور تمام پولیس ملازمین، افسران اور جوان قابل ستائش ہیں، جب آپ پر تنقید ہو سکتی ہے تو بہتر کارکردگی پر سراہے جانا ان کا حق ہے۔
“شاباش پولیس شاباش” آپ بہترین کام کر رہے ہیںپروردگار تمام اہل وطن اور وطن عزیز کو تمام تر خطرات سے محفوظ رکھے اور ترقی و عروج عطا فرمائے، آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں