• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جاتی واد ، اسلام اور تحریکِ پاکستان۔ ایک عمومی جائزہ۔۔۔۔اسد الرحمن

جاتی واد ، اسلام اور تحریکِ پاکستان۔ ایک عمومی جائزہ۔۔۔۔اسد الرحمن

تحریک پاکستان والوں میں اشرافیائی رویہ اتنا گہرا تھا کہ یہ حضرات آبادی (ڈیمو گرافی) کا بھی نہ تو صحیح استعمال کر سکے اور یہ ہی شاید اندازہ۔ اونچی جاتی کے ہندووں کے ساتھ بھڑتے ہوئے قیادت کے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ ہندووں کی آبادی میں قریبا ً سولہ فیصد اچھوت بھی شامل تھے ( جن کی تعداد اب بیس کروڑ ہے) اسی طرح سکھ اور پھر قبائلیوں کو ملا لیں تو پھر تعداد اگر ہندووں سے زیادہ نہیں تو قریباً  برابر پہنچ سکتی تھی۔( یہ ذہن میں رہے کہ قریبا 50ً  کروڑ مسلمان اب تین حصوں میں تقسیم ہیں) لیکن چونکہ ان میں زیادہ تر لوگ وہ تھے جو کہ نسبتاً  مسلم اشرافیہ سے نیچے تھے اس لئے انکے ساتھ ہاتھ کیسے ملایا جاتا۔ مسلمانوں میں جاتی واد کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ڈاکٹر امبیدکر ( جو کہ ہندوستان کی اس وقت کی ساری سیاسی اشرافیہ سے زیادہ پڑھا لکھا انسان تھا جس نے نہ صرف دو پی ایچ ڈی کی تھیں بلکہ قانون کی ڈگری بھی لی تھی) وہ لکھتے ہیں
’ میں اپنے دوستوں کے ساتھ حیدر آباد کے قلعے کی سیر کیلئے گیا۔ یہ رمضان کے دن تھے اور گرمی بھی بے پناہ تھا۔ وہاں ایک پبلک نلکے پہ ہم نے منہ سر دھویا اور اور پانی پیا۔ اتنے میں مجمع اکٹھا ہو گیا اور انہوں نے ہمیں مارنا شروع کر دیا ۔وہ کہتے تھے کہ ایک اچھوت کیسے ہمارے نلکے کو ہاتھ لگا سکتا ہے؟ یہ واقعہ آج بھی میرے دل پہ نقش ہے ’
اچھوتوں کے ساتھ بے اعتناعی کا یہ عالم تھا کہ ریاستِ پاکستان نے آزادی کے بعد جو چند معدودے احکام جاری کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اچھوتوں کے بنا چونکہ صفائی کے نظام کو نہیں چلایا جا سکتا اس لئے ’لازمی سروس ایکٹ‘ کے تحت یہ لوگ پاکستان سے ہجرت نہیں کر سکتے۔ انکی ہجرت بعد ازاں ڈاکٹر امبیدکر اور منڈل صاحب کی وجہ سے ہی ممکن ہو پائی۔
آج بھی نظریہ پاکستان کو مسلمانوں کے معاشی سیاسی اور ثقافتی تحفظ کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے اور قریبا لیفٹ کا بھی یہی نکتہ نظر ہے (حمزو علوی، اقبال احمد و دیگر) تاہم یہ سب نتائج تو ہندوستان میں بھی حاصل کیے جا سکتے تھے ۔ مثلاً  کوٹہ سسٹم کے ذریعے تعلیمی اداروں، نوکریوں میں نمائندگی۔ ان سب گروہوں کے ساتھ اتحاد کر کے سیاسی نظام پہ اپنی گرفت سکتے لیکن آخر وہ کیا شئے تھی کہ جس نے مسلمان سیاسی، مذہبی اور علمی اشرافیہ کو علیحدہ ریاست کے خیال کی جانب مائل کیا ۔ میرے نزدیک جاتی واد کا کردار بہت حد تک اہم تھا ۔ مسلمان اور اچھوت اقلیت ہونے کے باوجود ایک دوجے کے ساتھ نہ چل سکے کیونکہ مسئلہ شاید دو بڑی جاتیوں کے درمیان   اخوت اور طاقت کا تھا ایک طرف ہندو براہمن تھے اور دوسری طرف مسلم خانان اور دلتوں کیلئے دونوں مذاہب میں کوئی جا نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شاید مرنے سی کچھ ماہ پہلے ڈاکٹر امبیدکر اپنے کوئی پانچ لاکھ ساتھیوں کے ہمراہ ہندو مت کو چھوڑ کر بدھ مت میں داخل ہو گیا۔ کیا ان سب کو مسلمان کیا جا سکتا تھا؟ جی ہاں لیکن مسلم اشرافیہ ایسے کب کر سکتی تھی جبکہ اس کے جدید امام نے انیسویں صدی کے اخیر میں ہندو و مسلم اشرافیہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا
’’’ آپ راجپوت اور ہم مغل و افغان جن کی نسلیں تلوار اور گھوڑے سے آشنائی میں گزری ہیں یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ان بنگالیوں کو اپنے برابر آنے دیں جو کہ چھری کو دیکھ کر ہی کرسی کے نیچے جا دبکتے ہیں‘‘’
جس امام کا اپنے مسلمانوں کے بارے یہ خیال ہو اسکے معتقدین کہاں بھنگیوں، چماروں اور چوڑوں کو اپنے پاس بٹھانے پہ راضی ہو سکتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ پہ کافی کام ہو چکا ہے لیکن اس تناظر میں اگر اس تناظر میں دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اور اسی طرح شاید ہم اس عمومی تناظر کا رد کر سکیں جو کہ پاکستانی لیفٹ کی سیاست میں موجود ہے جو کہ جاتی واد کو سندھ تہذیب میں موجود نہیں دیکھتا۔

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply