جذبۂ ہمدردی۔۔شاکرہ نندنی

اٹھارویں صدی میں انگریزی شعر و ادب پر اپنی منفرد اسلوبِ تحریر اور ندرتِ خیال کی دھاک بٹھانے والے اسکاٹ لینڈ کے معروف شاعر رابرٹ برنز(Robert burns) نے ایک مختصر مگرجامع نظم ”آزاد آدمی”(The Free Man ) کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس نظم میں یہ شاعر کہتے ہیں کہ” میرے پاس اس قدر پیسہ ہے کہ جو میرے لئے کافی ہے لہٰذا مجھے قرضہ حاصل کرنے کے لئے کسی (سرمایہ دار) کی منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور نہ ہی میرے پاس اتنا مال و اسباب ہے کہ میں کسی کو قرضہ دے سکوں۔

میں نہ کسی کا حاکم و مالک ہوں اور نہ کسی کا غلام و مملوک۔ میرے پاس طاقت و قوت تو ہے لیکن میں کسی کو زیر کرنے کی ٹوہ میں نہیں ہوں۔ میں نہایت ہی خوش و خرم ہوں کیونکہ میں کسی کے لئے غم زدہ نہیں ہوں گا۔ میں کسی کا خیال نہیں رکھتا اور نہ ہی میرا کوئی خیال رکھنے والا ہے۔”

ان چند اشعار کا بین السطور جو مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے مطابق شاعر نے ‘ آزاد آدمی ”کا انوکھا تصور پیش کیا ہے۔جس کی رو سے وہی انسان آزاد کہلائے  گا کہ جو کسی دوسرے انسان کے خوشی اور غم سے متاثر ہو ،نہ ہی اس کے درد و تکلیف اور فرحت و انبساط سے کسی کو کوئی سروکار ہو۔ سیدھے سادھے الفاظ میں رابرٹ برنز کے اس خیالی ” آزاد انسان ”کو کسی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔ یہ اپنی دنیا  میں مست و مگن ہو۔ کسی کے کام آئے نہ ہی اس کے کوئی کام آئے۔ نہ اس کا کوئی فرمان روا ہو اور نہ ہی کوئی اس کا فرمانبردار۔ نہ یہ کسی کے ناز و نخرے اٹھائے اور نہ کوئی اس کی کاسہ برداری کرے۔

بلاشبہ شاعری میں ایسے عجیب و غریب آزاد انسان کی تخلیق عینِ ممکن ہے لیکن عملی دنیا میں اس طرح کے انسان کا تصور حماقت پر مبنی ہے۔ کیونکہ بنی نوع آدم کی خلقت کے تقاضے دیگر جانداروں سے بہت حد تک مختلف ہیں ۔ اس کا تنِ تنہا اس دنیا میں زندگی گزارنا محال ہے اسے قدم قدم پر اپنے ہی ہم جنس انسان کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہ کبھی بھی دوسروں کی معاونت و امداد سے یکسر بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے میں ہی اولادِ آدم کی بقائے باہمی کا راز پوشیدہ ہے۔ جس دن ابن آدم خود غرضی کے اس درجے پر پہنچے کہ وہ اپنے سوا کسی اور کے کام آنے کو ایک لایعنی عمل قراردے۔ اور ہر فرد بشر سے اپنا دست ِتعاون کھینچ لے۔ تو سمجھ لیجئے وہ انسانیت کی نابودی کا دن ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

قدرت نے بھی جن بہترین اور نعم البدل نعمتوں سے انسان کو نوازا ہے ان میں ایک جذبۂ ہمدردی بھی ہے۔ یوں کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا کہ جذبۂ ہمدری ہی انسانیت کی اصل پہچان ہے۔ اس لحاظ سے جس فردِ بشر کا جذبۂ ہمدردی لالچ اور خود غرضی ملبے میں دب کرختم ہو جائے وہ ہرگز ہرگز انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاکرہ نندنی
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply