ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت ہوتی ہے/حافظ محمد زبیر

پتہ بھی نہیں چلا اور شادی کو اٹھارہ سال ہو گئے، ایسے معلوم پڑتا ہے کہ کل ہی کی بات ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے بہت کچھ خیر حاصل کرتے ہیں لیکن اسے تسلیم نہیں کرتے کہ شاید یہ رشتہ ہی ایسا ہے۔ مردوں کو  چاہیے کہ اللہ نے انہیں بڑا بنایا ہے تو اپنا ظرف بھی بڑا کریں اور اپنی بیویوں سے حاصل ہونے والی  خیر کو تسلیم کریں۔

قرآن مجید میں ہے کہ انسان کے  دل میں لالچ رکھ دیا  گیا ہے لہذا یہ رشتوں میں ملنے والی خیر کو نہیں دیکھتا جو بہت زیادہ ہوتی ہے البتہ شر کو گنتا رہتا ہے جو بہت کم ہوتا ہے۔ اگر میاں بیوی پندرہ بیس سالوں سے ایک چھت کے نیچے ہیں یا ایک رشتے میں بندھے ہیں تو کوئی خیر ایک دوسرے سے حاصل کر رہے ہیں، تبھی تو رشتہ چلا رہے ہیں ورنہ توڑنے میں کیا دیر لگتی ہے، مرد ہو یا عورت۔

میری شخصیت کی تعمیر میں میری والدہ اور اہلیہ محترمہ کا بہت کردار رہا ہے۔ بنیادی محنت والدہ کی تھی جبکہ اہلیہ کے ساتھ نے اسے فنشنگ دی۔ شادی کرنے کے حوالے سے میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں اور اکثر نوجوانوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ دین یعنی اخلاق کے بعد سب سے اہم چیز خاندان اور حسب نسب ہوتا ہے۔ قریش کی عورتیں بھی قریشی ہی تھیں۔ قریش کے خاندان میں ایک خاص اٹھان اور رکھ رکھاؤ تھا جو دنیاوی زندگی میں دین کی تنفیذ کے لیے بہت ضروری تھا کہ دین کی تطبیق اور تنفیذ جس دنیا میں کرنی ہے، اس کے لیے مینجمینٹ اور دیگر اسکلز وغیرہ چاہئیں جو خاندانوں میں عموماً وراثتا نقل ہوتی ہے۔

اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہن ام ہانی رضی اللہ عنہا کو نکاح کا پیغام دیا تھا تو انہوں نے اپنے بچوں کی وجہ سے معذرت کر لی۔ اس پر آپ نے تبصرہ کیا تھا کہ بہترین عورتیں قریش کی عورتیں ہیں جو اونٹ کی سواری کرتی ہیں اور بچوں کی خاطر اپنی زندگی کھپا دیتی ہیں۔ حضرت ہند رضی اللہ عنہا سے جب آپ نے بیعت لینا چاہی کہ اس پر بیعت کریں کہ کبھی بدکاری نہ کریں گی تو ان کا جواب تھا، رسول اللہ، کیا کوئی خاندانی عورت بدکاری بھی کر سکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یہ دنیا متاع ہے اور اس دنیا کی بہترین متاع اور نعمت نیک بیوی ہے۔ مجھ سے جب کوئی دوسری شادی کے بارے مشورہ طلب کرتا ہے تو یہی کہتا ہوں کہ پہلی کو  نعمت سمجھتے ہو تو یہ خیر ہے، جتنا جمع کر لو، کم ہے۔ اور اگلی پہلی کو زحمت سمجھ کر دوسری کرنا چاہتے ہو تو پھر انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کبھی زاویہ نگاہ بدل کر بھی میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھ لینا چاہیے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ اگر تمہیں ان کی کوئی بات ناپسند ہو تو عین ممکن ہے، اللہ نے اس میں بہت خیر رکھ دی ہو۔ اور یہ خیر ہوتی ہے، تبھی تو رشتہ چلا رہے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی کتاب مکالمہ کا انتساب اہلیہ محترمہ کے نام ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے اور یہی اس پوسٹ کے بھی آخری الفاظ ہیں کہ اللہ عزوجل مجھے بھی ان کے حق میں ایسی ہی خیر بنا دے جیسا کہ وہ میرے لیے خیر ثابت ہوئی ہیں۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply