میری مہرو/Sierra tango

اس نے ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔ ایک بار پھر میرے سر پر زور سے تکیہ دے مارا ہے۔ اور کیا آپ یقین کریں گے کہ میری موت اسی تکئے کی چوٹ سے واقع ہورہی ہے؟
افف۔۔۔!
ابھی،
کچھ ہی دیر پہلے،
کتنی بیچارگی سے چلایا تھا میں،
بھلا، کسی مریض کے ساتھ بھی کوئی ایسا کرتا ہے کیا؟
میں نے گھبرا کر ابھی ابھی عجلت میں آکسیجن کی نلکی ۔۔۔ دوبارہ اپنی ناک میں جمائی ہے۔
مگر اس کے تکیہ مارنے سے،
مانو۔۔۔ میری تو جان ہی نکل رہی ہے۔
سر میں درد کی ایک شدید لہر بھی اٹھی ہے۔
میرا ایک بازو تو ویسے بھی پہلے سے بالکل کام نہیں کر رہا تھا۔
اور اب، اچانک سر کی جانب اٹھانے سے دوسرے بازو کے پٹھوں میں بھی انتہا کا درد اٹھا ہے
اور ہاں، میرا ایک پیر ۔۔۔ وہ تو بری طرح کپکپانے لگا ہے۔
شاید
یہ سکرات کا عالم ہے۔
اب۔۔۔ ایسا تو ہونا ہی ہے۔
میں پچھلے دو ماہ سے آکسیجن لگائے۔۔۔۔۔ بستر پر ادھ موا جو پڑا ہوں۔
مجھے لگتا ہے، کہ واقعی میری موت کا وقت قریب آن لگا ہے۔
تو کیوں نا موت سے پہلے۔۔۔۔ اپنی زندگی کی کہانی سنادوں آپ کو،
زندگی ۔۔۔
مطلب میری مہرالنساء ۔۔۔
میری مہرو
آپ بھی سوچتے ہونگے
عجیب گھامڑ آدمی ہے سکرات کے عالم میں بھی اسے کہانی سنانے کی سوجھ رہی ہے۔
مگر کیاکروں۔۔۔ لکھاری ہوں۔۔۔ داستان سنانے کا عادی ہوں۔
تو
ہوا کچھ یوں کہ
ڈھائی ماہ قبل، جب میری دماغ کی رگ، ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے پھٹ گئی، تو میرا جسم بھی تقریباً مفلوج ہی ہو گیا۔
ابتداء میں تو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ میرے ساتھ آخر ایسا کیوں ہوگیا ہے؟
زندگی بالکل ٹھیک جارہی تھی۔۔۔ کوئی خاص مسئلہ بھی نہیں تھا۔
بس۔۔۔۔۔ ایک کمرہ ہی تو تبدیل ہوا تھا میرا،
اس میں کون سی کوئی۔۔۔ بڑی بات تھی؟
اور یوں بھی۔۔۔۔ صبوحی کا کہنا بھی بالکل ٹھیک تھا۔۔۔
مجھے واش روم کی سیلن کی وجہ سے سانس کی تکلیف بھی تو ہو جاتی تھی نا۔
اب وہ میرے بلڈپریشر کے نخرے سنبھالتی یا سانس کی تکلیف کے۔
کمبخت، دونوں نامراد بیماریاں ایک دوسرے کی الٹ ہیں۔
ایک کو سنبھالو تو دوسری سر اٹھانے لگتی ہے۔
اسلئے میں سمجھتا ہوں کہ کمرے کی تبدیلی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔
مایا نے۔۔۔۔ صبوحی سے فضول ہی بحث کی۔
کتنی مرتبہ اسے سمجھایا کہ بھابھی ہے تمہاری۔۔۔ یہ گھر اب اسی کی مرضی سے چلے گا۔۔۔۔ تم صرف اپنا گھر سنبھالو،
مگر مایا ہو۔۔۔ یا سارا۔۔۔۔ مہرو کے جانے کے بعد میری دونوں بیٹیاں۔۔۔ میری ماں بنی رہتی ہیں۔
بھئی۔۔۔ سچی بات ہے۔۔۔ مجھے تو اس کمرے کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
کیونکہ، جس کمرے میں میرا سامان شفٹ کیا گیا ہے، وہ ہمیشہ سے میرا فیورٹ کمرہ رہا تھا۔ کتنی ہی بار مہرو کو کہا کہ ہم اپنا بیڈروم اس کمرے کو بنالیتے ہیں
مگر وہ کبھی نہیں مانی
حالانکہ، اس کمرے کی کھڑکی کھلتے ہی سامنے ناریل کے لمبے درخت جھومتے نظر آتے تھے تو زندگی کا احساس جاگ اٹھتا تھا۔ البتہ اس کمرے میں ایک بات ایسی ضرور تھی جس سے مہرو کو چڑ تھی اور وہ یہ کہ اسی کمرے کے باہر۔۔۔ پڑوسی کی دیوار کے ساتھ رات کی رانی کا پیڑ لگا تھا۔ جس کی تیز خوشبو رات میں اچھے خاصے ماحول کو کچھ اسیب زدہ سا بنادیتی تھی۔
اور یہی وجہ تھی کہ مہرو نے اس کمرے میں رہنے سے ہمیشہ انکار کیا تھا۔
اسے تیز خوشبوؤں سے الرجی تھی۔
ارے واہ۔۔۔ تیز خوشبوؤں کے ذکر پر مجھے اپنی سہاگ رات یاد آگئی۔
یہ بڑا مذیدار واقعہ ہے
تو ہوا یوں کہ
جب مہرو نئی نویلی دلہن کے روپ میں میرے گھر آئی۔ تو کمرے میں آتے ہی اسے چھینکیں لگ گئیں۔
اسے گلاب کی تیز خوشبو سے بھی شدید الرجی تھی۔۔۔ جبکہ ہمارا حجلہ عروسی اصلی گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔
میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی صورتحال بھانپ کر جلدی سے اسے کپڑے تبدیل کرنے کو کہا وہ اپنا سادہ لباس لے کر کمرے سے ملحق واش روم میں چلی گئی۔ اس کے جاتے ہی میں نے جلدی جلدی مسہری کے گرد لٹکی گلاب کی لڑیاں کھینچ کر اتاریں پھر مسہری کے چاروں طرف بکھری پتیوں کو اکٹھا کیا۔ اور ان سب کو بیڈ شیٹ میں باندھ کر کمرے کی کھڑکی سے باہر لان میں پھینک دیا۔
مہرو لباس بدل کر آئی تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
شکر ہے۔۔۔ آپ نے سارے گلاب ہٹا دئے۔ وہ شکرگذار لہجے میں بولی
ہممم۔۔۔ مگر اب میں شاید دنیا کا پہلا عاشق کہلاؤں گا جس نے اپنی محبوبہ کی راہوں سے کانٹوں کی بجائے پھول سمیٹ دئے ہیں۔
سہاگ رات کا تو بیڑا غرق ہوچکا ہے۔
میں بےبسی سے ہنسا تو اس نے شرم کے مارے تکیہ اٹھا کر میرے منہ پر دے مارا۔
میں نے بھی دوسرا تکیہ اٹھالیا۔
پھر ہم پوری رات پلوفائٹ کرتے رہے۔
کبھی میں ہنس ہنس کر دہرا ہوجاتا۔۔۔۔
کبھی وہ کھلکھلا کر ہنستے لگتی اور کمرے میں جیسے نقرئی گھنٹیاں بجنے لگتیں۔
یونہی ۔۔۔ ہنستے کھیلتے دن گذرتے گئے اور حماد پیدا ہوگیا۔
اور پھر دو سال بعد سارا بھی ہوگئی۔۔۔۔۔
پھر عین اسوقت جب مایا ہونے والی تھی تب میری جاب چلی گئی۔
نقرئی گھنٹیوں کی آواز دھیمی ہونے لگی۔
میں دن رات نئی جاب تلاش کرنے لگا۔
حتی کہ مایا دو سال کی ہوگئی۔
اور اس دوران میری مسلسل بیروزگاری کی وجہ سے مہرو نے اسکول میں جاب کرلی، اور شام میں ٹیوشن بھی پڑھانی شروع کردی۔
وہ حماد اور سارا کے ساتھ دو سال کی مایا کو بھی گود میں لے جاتی۔
اور میں سارا سارا دن نوکری کیلئے جوتیاں چٹخاتا رہتا۔
شام کو ہم دونوں کرائے کے فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے مستقبل کی پلاننگ کرتے۔
میری اچھی جاب اور
بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھانے کی باتیں
اپنا ذاتی گھر خریدنے کی باتیں کرتے۔

ایک دن اس نے خوابناک آواز میں کہا۔
تمہیں پتہ ہے زوار۔۔۔ جب ہمارا اپنا گھر ہوگا ناں۔۔۔ تو میں بیڈروم کے دروازے پر ایک اچھی سی چائم ضرور لگاؤں گی۔
اور۔۔۔ ہم لوگوں سے کہیں گے کہ جوتے گھر سے باہر اتار کر آئیں۔
اور میں اس کی اس بےسروپا بات پر ہنس ہنس کر دہرا ہوگیا۔
اس نے تکیہ اٹھا کر مجھے دے مارا۔

بالآخر، مجھے ایک معقول جاب مل گئی۔
میں نے مہرو سے کہا
اب تمہیں جاب کی ضرورت نہیں، تم بس بچوں پر توجہ دو۔
وہ بولی، یار ، میں یہ سب بچوں کیلئے ہی تو کر رہی ہوں، اگر میں نے جاب چھوڑ دی تو ۔۔۔ ہم اپنا ذاتی گھر کیسے بنائیں گے؟ ۔۔۔ کیا کرائے کے گھر میں ساری زندگی رہتے رہیں گے؟
اس کا جواب سن کر میں کچھ دیر کو خاموش ہوا تو وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔
نقرئی گھنٹیوں کی آواز سن کر میں بھی مسکرا دیا۔

بالآخر، ہم نے پائی پائی جوڑ کر اپنا گھر بھی خرید لیا۔
مہرو نے نئے گھر بہت اچھی طرح سجایا۔
اور ہاں، بیڈروم کے دروازے پر لگانے کیلئے ایک عدد چائم بھی خریدی۔
پہلی بار کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے چائم کو یوں ہلایا جیسے کوئی داسی، مندر میں داخل ہوتے ہوئے گھنٹی بجارہی ہو۔ میں نے چونک کر دروازے میں اس کی جانب دیکھا تو پھر سے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

یقین مانئے، مہرو کی ہنسی اور چائم کی جھنکار، دونوں ایک جیسی ہی تھیں۔

آہ ۔۔۔ میری تکلیف پھر بڑھ رہی ہے۔
سوچتا ہوں، مجھے تو صرف برین ہیمرج ہوا ہے،
مگر میری مہرو تو بریسٹ کینسر کا شکار ہوئی تھی، اس نے کیموتھراپی جیسے آتشیں علاج کو کیسے برداشت کیا ہوگا
آہ۔۔۔ کاش میں اس کی تکلیف کم کر پاتا۔

ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کے سینے کے دائیں جانب ایک گھٹلی سی بن رہی ہے جس میں کبھی کبھی تکلیف ہوتی ہے۔

سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی
بریسٹ کینسر کی تشخیص میرے ہنستے بستے گھر کو اجاڑنے لگی۔

مگر مہرو کی شوخیوں میں کمی نہیں ائی تھی۔
ایک دن جب کیموتھراپی کے بعد، میں اس کی تکلیف دیکھ کر افسردہ تھا تو وہ اچانک بولی
اچھا بات سنو۔۔۔ میں نے اپنا سارا زیور فرج میں سبزیوں کے پیچھے ایک کپڑے کی تھیلی میں رکھا ہے، سارا اور مایا کے کام آئے گا۔
مگر میری چوڑیاں ۔۔۔ حماد کی بیوی کیلئے ہیں۔
اور تمہارے لئے
امممم، تمہارے لئے بس یہ دروازے میں لٹکی “چائم” ہے۔
وہ سیاہ حلقوں والی شرارتی آنکھوں کے ساتھ کھلکھلا کر ہنسنے لگی
اور میں، بس گردن جھکا کر رہ گیا۔
پہلی بار نقرئی گھنٹیوں کی آواز نے مجھے افسردہ کردیا تھا۔
وہ مجھ سے وعدے لیتی رہی
چائم کھنکتی رہی
اور بالآخر ، مہرو مجھے اور بچوں کو چھوڑ کر چلی گئی۔

مجھے اس سے کئے ہوئے سارے وعدے یاد تھے، میں نے سارا اور مایا کو ایک ساتھ ان کے پیا کے گھر رخصت کیا۔

آپ کو پتہ ہے اس دن کمرے کے دروازے پر لگی چائم نے بہت زیادہ شور مچایا تھا۔
جیسے مہرو کھکھلا کر ہنس رہی ہو
اور پھر اس کے بعد جیسے۔۔۔ مجھے اپنی چائم سے محبت سی ہوگئی۔

آپ کو میری باتوں پر یقین تو آرہا ہے ناں؟؟؟

یقین مانئے۔۔۔ جس دن سارا کے ہاں۔۔۔ وجدان کی ولادت ہوئی تھی ۔۔ اس دن بھی یہ چائم بہت کھنکی تھی۔ اور جس دن صبوحی ۔۔۔۔ میری بہو بن کر گھر میں آئی اس دن بھی۔
پھر حماد اور صبوحی نے مجھے دادا بننے کی خوشخبری سنائی، مگر ساتھ ہی صبوحی نے گھر چھوٹا پڑنے کا شکوہ بھی کیا۔
اس دن چائم دروازے میں گم سم انداز میں ہلکورے لیتی رہی

دیکھئے،
صبوحی کا اس میں کوئی قصور نہیں
یہ تین کمروں کا گھر جو فرسٹ فلور پر ہے۔ یہ ایک چھوٹی فیملی کیلئے ہی ہے۔ میں نے اپنے تین بچوں اور مہرو کے ساتھ اس میں زندگی گزاری۔
ایک کمرہ بچوں کیلئے مخصوص تھا، اور دوسرا کمرہ میرا اور مہرو کا بیڈروم تھا۔
تیسرا کمرہ اسٹور کا کام کرتا تھا۔
اور ہمارا لاونج ہی ہمارا سٹنگ روم بھی تھا۔
تو ظاہر ہے کہ حماد اور صبوحی کے بچوں کے ہونے کے بعد، میری جگہہ صرف اسٹور روم میں ہی بنتی تھی۔
لہذہ, اس کمرے میں شفٹ ہوکر بھی مجھے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
ہاں، البتہ میرے سر میں درد رہنے لگا تھا اور تھوڑا بہت بلڈ پریشر بھی ہائی رہنے لگا۔
ویسے تو سب ٹھیک چل رہا تھا
بس کبھی کبھی ۔۔۔۔ خاموشی جان لیتی تھی۔
کیونکہ، میرے سامان کی شفٹنگ کے دوران حماد سے چائم ٹوٹ گئی تھی۔
اس کمرے میں شفٹ ہونے کے بعد میں چائم کی جھنکار سے محروم ہوگیا تھا۔

ڈھائی ماہ پہلے رات کے وقت مہرو مجھ سے ملنے آئی۔

آپ کو یقین نہیں آرہا ہے ناں؟
لیکن اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو پوری رات مجھے نقرئی گھنٹیوں کی آواز کیوں آتی رہی تھی پھر؟

میں نجانے کس وقت سویا تھا۔
مگر جب آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو ہاسپٹل میں پایا
مجھے سارا نے روتے روتے بتایا کہ میں پندرہ دن سے بیہوش تھا۔
اور اب تندرست ہونے کے باوجود مجھے مستقل آکسیجن لگادی گئی تھی۔ اسلئے ہاسپٹل سے گھر بھی آکسیجن سلنڈر کی ہمراہی میں آیا تھا۔
ادھر مایا مسلسل صبوحی سے الجھ رہی تھی۔
اور میں بےجان۔۔۔ بےبس سا بستر پر پڑا تھا۔
مہرو ہوتی تو ایسا وقت کبھی نہیں اتا۔
میرے بچے۔۔۔۔ اس طرح آپس میں کبھی نہیں لڑتے

پھر آج وہ دوبارہ آ گئی
آتے ہی مجھے کہا، آخر تمہیں عقل کب آئے گی؟
کیا اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گا کہ تمہیں کب مرنا ہے؟

آپ کو یقین نہیں آرہا ہے ناں؟
میں بھی حیرانی سے اسے سن رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چلو میرے ساتھ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔ وہ بولی۔
مگر۔۔۔ مجھے اپنے پوتے پوتیوں کو اپنی گود میں کھلانا ہے۔
میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا
وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ ساتھ ہی اس نے مجھے مارنے کیلئے تکیہ اٹھالیا۔
تم ایسے نہیں سنو گے۔۔۔۔ اٹھو فورآ ۔۔۔ بچوں کو ان کی زندگی جینے دو
میں پہلے ماں ہوں۔۔۔ اور بعد میں تمہاری مہرو
یہ کہتے ہی اس نے تکیہ میرے منہ پر زور سے مار دیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply