برین واشنگ/طیبہ ضیاء چیمہ

فرمان الٰہی ہے ” اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے “سورة الانعام۔۔ یعنی برین واش اندھے بہرے لوگوں کی یہ حالت ہے ۔یہ کتاب ِ اللہ کو آسمان سے اُترتا  ہُوا  اپنی آنکھوں دیکھ لیتے پھر بھی ان کا کفر نہ ٹوٹتا اور یہ کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ الحجر: 14)صمّم بکم عمی فَھم لَا یَرجِعون۔ (البقرة: 08)”بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں اب یہ نہیں پلٹیں گے “۔

گزشتہ برس ہم نے یہ تحریر بھی لکھی تھی کہ راسپوٹین کو کون نہیں جانتا۔ بے راہروی کی تاریخ اس طلسمی شخصیت کے ذکرکے بغیر کبھی مکمل نہیں کہلا سکتی۔ انتہا درجے کی عیاری، مکاری، عیاشی اس کی سرشت میں شامل تھی۔ شاید خالق کائنات نے اس میں وحشت کا جوہر بھی رکھ چھوڑا تھا۔ چرب زبانی تو جیسے اسے گُھٹی میں ملی تھی۔ جب وہ بولتا تھا تو معترضین کو محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔

راسپوٹین کی شخصیت کے تمام منفی اور قابلِ نفرت پہلوؤں کے باوجود اس کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ ان لوگوں کا خیا ل تھا کہ راسپوٹین خدا کا سچا ولی اور حامل روح اقدس ہے۔ جبکہ مخالفین اسے انسان کے روپ میں شیطان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ جھوٹا مکار اور بد کار خدا کا ولی کیسے ہو سکتا ہے۔

1871ءمیں روس کے علاقے سائبیریا کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔۔ راسپوٹین نے جوان ہو کر اپنا آبائی پیشہ اپنایا۔ وہ اپنے باپ کی طرح گھوڑا گاڑی پر مسافروں اور سامان کو لے کر دور دراز علاقوں میں جاتا۔ اس کے ساتھ اکثر سیاح اور مذہبی مبلغ بھی سفر کرتے۔ جن سے وہ خدا اور کلیسا کے موضوع پر ایسے دلائل کے ساتھ بحث کرتا کہ بڑے بڑے عالم منہ تکتے رہ جاتے۔ ان میں سے اکثر اس کے مذہبی شعور کو تسلیم کرتے ہوئے اسے کسی درسگاہ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیتے۔ اس نے ایک روحانی درسگاہ میں داخلہ لے لیا۔ اس میں تعلیم پانے والوں کا عقیدہ تھا کہ انسان کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو جائے، روحانی چلوں کو اپنانے سے دنیا ہی میں جنت کو پالیتا ہے۔

راسپوٹین روس کا ایک ریاکار روحانی شعبدہ باز تھا۔ اس نے اپنے ٹونے ٹوٹکوں سے ولی عہد کو کسی مرض سے نجات دلائی۔ جس کے بعد اس کو دربار میں رسوخ حاصل ہوا۔ بالخصوص ملکہ اس کی بہت معتقد تھی۔ اسی کی سفارش پر راسپوٹین کو روسی چرچ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ شاہی خاندان پر اس کا اتنا اثر تھا کہ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں اسی کے مشورے سے کی جاتی تھیں۔

عورتیں اس کی طلسماتی شخصیت سے ہیپنا ٹائز ہو جاتی تھیں۔ حتی کہ اپنے شوہر چھوڑ کر اس کے عشق میں دیوانی ہو جاتیں۔ ان کی اولادیں بھی راسپوٹین کے سحر میں مبتلا رقص و سرور کی عادی ہو جاتیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جرمن ایجنٹ تھا۔ راسپوتین نے اپنی طلسماتی خوبیوں سے روس کے شاہی دربار کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ لیکن آج سے تقریباً سو سال قبل اسکا قتل روسی اشرافیہ کے ہاتھوں ہوا جو اسکے دشمن بن گئے تھے۔

راسپوٹین کی سحر انگیز شخصیت نے روسی سیاست میں عمل دخل شروع کر دیا۔ راسپوٹین سے متعلق سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں درحقیقت وہ ایک شیطان تھا جس کے ہاتھوں زارِ روس کی عظیم الشان سلطنت برباد ہوئی۔ چھ فٹ دو انچ لمبے قد کا یہ شخص کئی سال روس پر اپنی مکارانہ صفات کی بدولت حکمران رہا۔ اس کی حیرت انگیز قوت کاراز اس چیز میں مضمر ہے کہ ہپناٹزم میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس قوت کے ذریعہ سے وہ مضبوط سے مضبوط تر آدمی کو بھی اپنا گروید ہ بنالیتا تھا۔ اسی علم کی وساطت سے زارینہ سے اس کاتعارف ہوا۔

زارینہ کی تمام خوبصورت سہیلیوں اور خاندانِ شاہی کی قریب قریب تمام بیگمات کو اپنا مرید بنالیا۔ یہ تمام عورتیں بہ رضا و رغبت اس کی خواہشوں کے سامنے جھک گئیں۔ یہ بات بہت ہی شرمناک ہے مگر حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ خود زارینہ کو بھی آہستہ آہستہ اس کا یقین ہوگیا تھا کہ جب تک راسپوٹین کے ساتھ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے خدا کے ہاں نجات ممکن ہی نہیں۔

عورتیں چھپ چھپ کر اور بھیس بدل کر اس شیطان راہب کے پاس جاتی تھیں، نہیں معلوم کہ اس میں ایسی کون سی طاقت تھی کہ عورت سامنے آتے ہی بالکل مسحور اور بے بس ہوکر رہ جاتی تھی۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ سپورٹرز یا اندھے عاشقان کو یقین تھا کہ راسپوٹین خدا کی طرف سے اس لئے آیا ہے کہ روس کو فتح و ظفر اور عزت و شان سے ہم آغوش کردے گا۔ لیکن راسپوٹین اصل میں جرمن جاسوس تھا اور اس کی کوشش یہی تھی کہ روس اپنے اتحادیوں سے جدا ہوکر جرمنی سے صلح کرلے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہت ہی بدتمیز تھا یورپی آداب کے خلاف ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا۔ اور اپنی بھری ہوئی انگلیاں شہزادیوں کی طرف بڑھا دیتا تھا جو ان کو چوس کر صاف کردیتی تھیں۔ راسپوٹین اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر اس کے ہپنا ٹائزڈ معتقدین اس کلٹ روحانی پیشوا کے سحر سے نجات نہ پا سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply