چائے کی پیالی اور تین انقلاب/اسامہ اقبال خواجہ

میں ایک سستا سا انقلابی ہوں۔ میرے گھر کاسترو کی ایک بھی کتاب موجود نہیں، ہاں نیلسن منڈیلا کی ایک کتاب میسر آئی تھی جس کی انگریزی قدرے سہل محسوس ہوئی۔ مگر میرا شکی مزاج مجھے کہیں بھی چین نہیں لینے دیتا۔ مجھے نیلسن منڈیلا کے نوبل پرائز پر بھی شک گزرتا ہے۔ ایسا کیوں ہوا، کیسے ہوا کہیں اس نے بھی سمجھوتہ تو نہیں کر لیا۔ بہر حال چی گویرا کی تصویر والی ایک بھی شرٹ نہ ہونے کا مجھے کوئی خاص دکھ نہیں کیونکہ یہ شرٹ پہن کر میرا دوست کئی بار ڈی چوک جا چکا ہے مگر کہیں کچھ اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب میرا انقلاب معاشی تنگ دستیوں سے آزاد ہو چکا ہے۔ میں جب چاہوں طوفان برپا کر سکتا ہوں مگر نجانے کیوں مجھ پر دوست یقین نہیں رکھتے۔
 جب میں نے انقلاب کا نام پہلی بار سنا تو کان کی لوئیں نوزائیدہ عشق کی طرح لال ہو گئیں۔ اس سے پہلے کہ کپڑے جل اٹھتے اور انقلاب پرانے کپڑے پہن کر لانا پڑتا، استری ایک طرف رکھی اور بھائی سے پوچھا ہم انقلاب تو لے آویں گے مگر ہمیں کیا ملے گا؟۔ وہ ایک جواب، آج تک کی تمام گفتگو کا موجد ہے۔ ارے انقلابی اپنا سوچے گا تو انقلاب کیا خاک آئے گا۔ اگر تم بڑی گاڑی پر گھومنا چاہتے ہو تو افسر بن جاؤ، یہ انقلاب تمہارے بس کی بات نہیں ۔ انقلابی تو صرف لوگوں کا سوچتا ہے، اس کے پاس افسر بننے کا وقت ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اب اس خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جس کا انکار بائیں طرف کا ہر وہ دوست کرتا ہے جس کے نزدیک غریب کے مسائل پر گفتگو کرنے سے زیادہ ضروری ان کے خدا پر بات کرنا  ہے۔ اب ہم تو اس خدا کے صرف گُن ہی گائیں گے نا جس نے اگر بچپنا نہ  دیا ہوتا تو ہم مفاد پرستوں کی فہرست سے باہر کیسے نکل پاتے۔ اب بجلی کی لوڈشیڈنگ تو زوروں پر تھی ہی، تو ہم نے سوچا کہ چلو انقلاب ہی سہی مگر کوئی تو بہانہ ملا ہم بھی آخر اسلام آباد پہ چڑھائی کریں گے۔
ویسے ہم ایک ہی صف میں محمود ایاز کا خواب تو دیکھتے ہیں مگر اس کی تکمیل کے لیے اپنی گاڑی کی پشت پر چی گویرا کی تصویر لگانے سے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ ہمارے انقلابی پروفیسر سرکاری تنخواہ تو ہضم کر لیتے ہیں مگر لال سلام کے لیے طلباء کو آگے کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے۔ آپ ساٹھ ستر کی دہائی سے قائم طلباء تنظیموں کا حال احوال جانیں تو معلوم ہو گا کہ  ان میں سے بہت سی تو پہلے ہی علاقائی اور نسلی تعصبات کا نام لے کر انقلاب لانے سے باز آجاتی ہیں۔ البتہ چند ایک ایسے “نمونے کی تنظیمیں” موجود ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر خواب بُنے جاتے ہیں۔ چائے کے ڈھابوں پر بیٹھکیں جمتی ہیں، کائنات کے نت نئے اسرار و رموز کھلتے ہیں، نئے نئے فلسفہ دان سامنے آتے ہیں۔ علم و دانش کے پیکران اپنے نو آموز نظریات کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں، تاریخ کے بَخیے اُدھیڑے جاتے ہیں اور چائے کی ایک ایک پیالی کے عوض تین تین انقلاب ڈھائے جاتے ہیں۔
اس تمام عمل کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے بعد یہی آہ نکلتی ہے کہ اے کاش ! مارکس پیدا ہونے سے پہلے ایک بار سوچ لیتا تو آج خود سے زیادہ بڑا انقلابی ہوتا۔ ابھی موجودہ زمانے میں آ جاتا، کوئٹہ ہوٹل پہ  بیٹھتا، چائے کی چُسکیاں لگاتا اور اپنی “داس کیپیٹل” سُناتا۔ پھر اس پر تبصرے اور تجزیے ہوتے ،میں بھی ایک آدھ تحریر لکھ مارتا مگر افسوس کہ  اُس چھوٹے انقلابی نے ہمیں پہچاننے میں غلطی کی، ہماری قدر و منزلت کا اکرام نہیں کیا، ہمارے ساتھ انقلاب کی خاطر کھڑے ہونے کی بجائے کئی سو سال پہلے ہی گزر گیا۔ وگرنہ آج یہاں بیٹھا انقلاب مارچ کے ثمرات سمیٹ رہا ہوتا۔
بحر حال، قصہ مختصر اگر آپ میں بھی انقلابی بننے کا جرثومہ موجود ہے یا آپ سوشل میڈیا پر بھرپور طریقے سے وقت ضائع نہیں کر پا رہے تو انتظار مت کریں۔ ابھی سے دو چار کتابوں کا رٹا لگائیں یا اِنہیں چھ نمبر کے فارمولے سے یاد کر لیجیے۔ نا صرف گفتگو میں اضافہ ہو گا بلکہ دیکھنے، سننے اور چاہنے والوں میں اپنے قابل سماعت افکار منتقل کرنے کا سنہری موقع پائیں گے۔

Facebook Comments

Usama Iqbal Khawaja
صحافی بننے کی کوشش میں، بول نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply