مٹھروک۔۔سلیم مرزا

مجھے مسجد بمعہ مولوی اٹھوا لیں۔
میں فیس بک پہ رائٹر بننے نہیں آیا تھا، مجھےتو ثاقب حسین عرف ساقی پہاڑئیے نے بتایا تھا کہ ایک نئی اپلیکیشن آئی ہے۔
جس پہ جیوندی جاگدی خواتین کوئی ٹرالیاں بھر بھر پھینک گیا ہے اور “جیہڑا پنوں لال اے ” والی صورتحال ہے۔
تین دن کی منت اور خواری کے بعد اس نے مجھے یہ اکاؤنٹ بنا کر دیا۔
میرا پہلا فیس بک فرینڈ بھی ثاقب حسین ہی تھا،لہذا سب سے پہلے اسی کی فرینڈلسٹ پہ ڈاکہ ماراگیا ، قریباً دو سو نازنیناں اسلام کوریکوسٹ دے ماری۔
پروفائل وغیرہ نہیں دیکھی ، جس کا نام بھی گل نوخیز دیکھا اسی کو درخواست درازی کی۔
دو چار مہینوں بعد ذراسیانہ ہوا تو لائکس اور کمنٹ کے کھیل میں جا کودا، جب داڑھی مونچھ نکلی تو میسنجروں میں جھانکنا شروع کر دیا ۔
پچاس جگہ سے ماں بہن کی پیمائش کروا کر ادھر سے بھی بے آبرو ہوکر نکلنا پڑا۔
جلد ہی میرا اس سارے کھیل سے جی اوب گیا۔اپنا پرانا نائیٹ پیکیج والا معاملہ ہی ٹھیک تھا۔
ایک دوسرے کے جغرافیائی حالات کا تو پتہ چلتا تھا ۔
فیس بک پہ میری اب کئی کئی ہفتوں بعد آمد ہوتی تھی ۔
کہ اچانک”عمران خان نے دھرنا دیدیا ”
اور فیس بک ایک میدان جنگ بن گئی،دیکھتے دیکھتے کتنے سیاسی ماہرین اور دانشور ایڈ ہوگئے،پوسٹ پوسٹ چیخنے لگی،جتنے منہ، دگنی باتیں،تحریک اور تضحیک لازم و ملزوم ٹھہرے۔
نون کا جنون، ہذیان بن گیا،اس جنگ نے دیا تو کچھ بھی نہیں،لیکن بہت ساری حسینائیں چھوڑ گئیں۔
چول پنے کی اس نظریاتی لڑائی میں دوست، دشمن ٹھہرے، اپنی فوج ، موج میں لگنے لگی، نواز چور اور عمران خاں کچھ اور بن گیا۔
سارے شہر کے ایک جیسے نقصان کے بعد ہوش آیا تو ہر چیز اور ہر شخصیت تباہ ہو چکی تھی، سب ایک دوجےکا لنگوٹ کھینچ چکے تھے،اور الیکشن کے بعد اپنی اپنی دھوتیوں کا پلو منہ میں دبائے سوچ رھے تھے “ہُن کی کرئیے “۔
پاکستانی ایک ذہین قوم ہے، یہ میرا خیال نہیں۔مطالعہ پاکستان بتاتا ہے ۔
آپ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں، بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں، اکثریت کو اپنی اسٹیٹ کے گورنر کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا،جہالت ان انگریزوں کی گھٹی میں پڑی ہے، اور ہمارے سر میں ۔انگریز احمق ہیں بس ایک دن ہی ووٹنگ انجوائے کرکے بھول جاتے ہیں۔
ہمیں تو شہباز شریف کے بوٹ کے ڈیزائن سے لیکر الطاف کی شراب کے برانڈ، تک کا پتہ ہوتا ہے۔
ایک عام آدمی چوھدری نثار اور رضا ربانی کا نظریاتی فرق جانتا ہے،پیٹاگون کی سیاسی مداخلت اور سی آئی اے کی ڈرگ ٹریفکنگ کی بات فتو منڈ کے چائے والے کھوکھے پہ ڈسکس ہوتی ہے۔
قوم اتنی ذہین ہے کہ گدھا گاڑی پہ تین پیپے ریت اور دو پیپےبجری لے کر گھر آتے ہوئے،ہم دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ن لیگ کی باقی ماندہ سیٹیں گن دیتے ہیں، اور گھر پہنچنے تک ریڑھی والے سے اس بات پہ بھی قائل ہو جاتے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوگا، ریڑھی والے کا گدھا بھی بتا رہا ہوتا ہے کہ زرداری کی صدارت کا فیصلہ ہو چکا ہے،
ہائے کہاں وہ فیس بک کا شہر نگاراں جہاں رنگ باتیں کرتے تھے۔ان دنوں میں جب بھی فیس بک کھولتا ،اک سیاپہ سا سیاپہ نظر آتا،اور تبھی ایک دن بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ آبیل مجھے مار کی بجائے، اگر جابیل اسے مار کا، فارمولہ آزمایا، جائے تو کیسا رہے گا، ؟
پرانی ٹھرکا لوجی کی سندیں جن پہ گریڈ سترہ کی مٹھروک حسیناؤں کی تصدیقی مہریں تھیں، داخل دفتر کیں، بیگم سے آشیرواد لیا،اس نے اجازت دی تو اپنی آپ بیتی لکھنا شروع کی۔
محبت کھرک ہے۔۔
ایک دو پوسٹ کرنے کے بعد انکشاف ہوا کہ دنیا میں ابھی بہت سارے لوگ جینا چاہتے ہیں، مسکرانا جانتے ہیں ۔
صرف خواتین ہی نہیں حضرات نے بھی وہ پذیرائی دی کہ دن میں تین بار شیشہ دیکھا کہ وکی یہ تم ہو یا زونگ کا سستا نیٹ پیکیج،جو تب چلتا ہے ۔جب کچھ چلانے کی خواہش ہی مر جاتی ہے ۔
چار دن میں اندازہ ہوگیا کہ لوگوں کو تپتی جلتی فیس بک پہ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس چاہیے۔
چاہے وہ کمنٹ میں جگت ہو یا پوسٹ پہ ایک مسکراہٹ میں ہنسانے کیلئے لکھنے لگا، سب سے پہلے میری بیگم پڑھتی، میں اس کا چہرہ دیکھتا، اگر وہ پڑھتے پڑھتے مسکرا دیتی تو میں پوسٹ کردیتا۔مجھےبیگم نے لکھنے کا شعور دیا، رائے دی، ساتھ دیا۔
آج میں بہت خوش ہوں کہ آپ سب مسکراتے ہیں۔
نواز  شریف کا کیا بنا؟
مجھے غرض نہیں، کیونکہ میرا کچھ نہیں بنا،
عمران خاں جیتے گا، ؟
مجھے فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ میں تو ہارا ہوا ہوں، مجھے اب اسٹیبلشمنٹ کے رچائے اس کھیل سے کچھ لینا دینا نہیں۔
میں یہاں زندگی کو صرف بھگتنے آیا ہوں، اور ساتھ میں وہ خمیازے جو میری پیدائش سے ہی مجھ سے وابستہ تھے اور رہیں گے ۔
“سوچیں اگر میں خوش نصیب ہوتا تو کامونکی پیدا ہوتا “؟
کیا واشنگٹن ، پرتھ یا وینکوور میں ستائیس دسمبر انیس سو چھیاسٹھ میں بچے پیدا نہیں ہوئے تھے؟
یہاں پیدا ہونے کی نحوست تو اب عمر بھر کا ساتھ ہے۔
اور باقی عمر بھی اب کتنی رہ گئی ہے؟
چنانچہ واپس فیس بک پہ آتے ہیں، جہاں خواب مسکرا کر حقیقتوں سے اٹھکھیلیاں کرتے ہیں، امیدیں آکسیجن لیتی ہیں اور کاربن ڈائی اوکسائیڈ چھوڑتی ہیں۔
مجھ جیسے تو تازہ کاربن ڈائی اوکسائیڈکیلئے جان تک دے سکتے ہیں،اگر پتہ ہو کہ ملتی کہاں سے ہے ؟
فیس بک وہ دنیا ہے جہاں لاگ ان ہوتے ہی میں، مکان کا کرایہ،گاڑی کی مرمت، بجلی کا بل ہر چیز بھول جاتا ہوں، دال کھاتے ہوئے زارا مظہر کی ریسپیوں میں کھانوں کی خوشبو محسوس کرتا ہوں ۔
عام زندگی میں چاہے کتنا ادھورا ہوں مگر فیس بک پہ میں ایک مکمل انسان ہوں، تیسرے درجے کی عوام نہیں۔
یہاں میں اپنی غربت کے باوجود سب کا دوست ہوں۔
سب میرے ہیں، بہت سال ہوگئے کسی نے مجھے بلاک نہیں کیا،میرے ساتھ وہ خوبصورت خواتین ہیں جن کی شاعری جان کڈھ لیتی ہے۔
پیارے دوست جن کی تحریریں زندگی سے بھرپور ہیں۔
اور تو اور انعام رانا بھی ہے جو مجھے جان ابراھیم لگتا ہے کاش اسے پریانکا سے بیاہ سکتا۔
فیس بک سے بس ایک نقصان ہوا، میری چار بہنیں تھیں،اب چار سو ہو گئی ہیں، اور ان کی فیسبکی سہیلیوں کی آمد کا سلسلہ ابھی جاری ہے،جنہوں نے ابھی مجھے بھائی جان کہنا ہے۔
آج فوزیہ قریشی کی ایک پوسٹ پہ میرے بارے دو گھنٹے تک مباحثہ ہوا ہے کہ سلیم مرزا ٹھرکی ہے کہ نہیں، تو معزز خواتین سے دست بستہ گزارش ہے کہ ٹھرک ایک مستند قومی جذبہ ھے، اور سلیم مرزا بلا شک و شبہ ایک حساس آرٹسٹ، ماڑا چنگا حسن پرست بھی ہے ۔
لہذا آپ اسے اپنے صوابدیدی معیار پہ ٹھرکی سمجھ سکتی ہیں، بس ایک بات کا خیال رکھیے گا کہ ہر ٹھرکی کو مٹھروک کی ضرورت ہے۔
وہ ثمینہ میسنی بھی ہو سکتی یا انجلینا بھولی۔
اگر آپ کے گرد ٹھرکی زیادہ ہیں، لایکس اور کمنٹ کی بھرمار ہے،تو آپ ایک بہترین مٹھروک ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply