عظمت انسان قرآن مجید و احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں۔
۱۔ تمام مخلوقات پر فضیلت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اپنی تمام مخلوقات پر اسے فضیلت و برتری عطا کی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’بے شک ہم نے اولادِ آدم کو فضیلت دی اور ان کو خشکی اور سمندر کی سواریاں دیں اور ان کو طیب چیزوں سے رزق دیا اور ان کو ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۷۰)
ان آیات میں اللہ ربّ العزت نے انسان کے تمام مخلوقات میں مکرم و مشرف و فضیلت والا ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔اس لیے حضرت علامہ اقبالؒ انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں سجود ملائک ہو مجھے انسان رہنے دو
اور ایک جگہ فرماتے ہیں:
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگنی ہے تھوڑی محنت زیادہ
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنا مقام اور مرتبہ پہچانے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کے ذریعے اس کے قرب کی مسلسل جدوجہد کرے۔
۲۔ کائنات کی تمام اشیاء کا انسان کے لیے بنانا
اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنے قرب و وصال کے لیے تخلیق فرمایا جب کہ ربِّ کائنات نے اس کائنات کی تمام اشیاء کو انسان کے نفع اور فائدے کے لیے پیدا کیا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ (سورۃ البقرۃ۔ آیت ۲۴)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر (تابعدار کردیا) ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت رکھنے والے نہ تھے۔ان آیات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
سورج چاند پیدا کیے تیری ضیاء کے واسطے
کھینیاں سرسبز ہے تیری غذا کے واسطے
جانور پیدا کیے تیری وفا کے واسطے
یہ دونوں جہاں تیرے ہے اور تو خدا کے واسطے
۳۔ انسان کا زمین میں اللہ کا خلیفہ ہونا
اللہ ربّ العزت نے اپنی خلافت اور نیا بت کا سہرا انسان کے سر پر سجایا ہے۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کا تذکرہ موجود ہے۔ ایک مقام کی چند آیات ملاحظہ کریں۔۔۔پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرّر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا جب کہ ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو کرہی رہے ہیں۔ فرمایا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرۃ۔ آیت ۳۰)
بعض علماء نے خلیفہ کی اس آیت کے تناظر میں یہ تعریف کی ہے:
خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کے ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے اور اس کی منشاء کو ٹھیک ٹھیک پورا کرے۔اللہ ربّ العزت نے انسان کو یہ اعلیٰ اور ارفع مقام اس لیے عطا فرمایا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کو بجا لاتے ہوئے اسلامی نظام کو نافذ کرے اور نظامِ عدل و انصاف قائم کرے۔
۴۔ انسان کا احسن تقویم ہونا
تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کن‘‘ سے پیدا کیا اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ قرآنِ مجید میں ہے:
اے ابلیس! تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ (سورۃ التین۔ آیت ۴)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو مارے تو چہرے سے اجتناب کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم۔ رقم الحدیث ۶۵۳۲)
اس لیے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: بے شک ہم نے انسان کو سب سے اچھی ساخت اور بیت پر پیدا کیا ہے۔ (سورۃ التین۔ آیت ۴)
مقصد انسان قرآن و سنت کی روشنی میں
۱۔ انسان کی وجہ تخلیق
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان ہے۔ (الاسرار المرفوعۃ رقم الحدیث ۶۹۸، ص۱۷۹، دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۰۵ھ)
مجاہد نے یہ کہا ہے کہ اس آیت کا معنی ہے: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ مجھے پہچانیں علامہ ثعلبی نے کہا یہ قول اس لئے حسن ہے کیوں کہ قرآنِ مجید کی متعدد آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ (انکشف و البیان، ج۹، ص۱۲۰، داراحیاء التراث العربی، البیروت ۴۲۲ھ)
اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ سیّد محمود آلوسی رُوح المعانی میں ارشاد فرماتے ہیں:
اس آیت میں جو فرمایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں، اس کا معنی ہے تاکہ وہ مجھے پہچان لیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچاننا اس کی عبادت کرنے کا سبب ہے، سو آیت میں مسبب کا ذکر ہے اور اس سے سبب کا ارادہ فرمایا ہے اور یہ محاذ مرسل ہے اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت معتبر ہے جو اس کی عبادت سے حاصل ہو نہ کہ وہ معرفت جو بغیر عبادت کے حاصل ہو۔ جیسا کہ فلاسفہ عقلی دلائل سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں اور یہ عمدہ قول ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ جنات اور انسانوں کو پیدا نہ کرتا جو اس کی معرفت حاصل نہ ہوتی، اس کے وجود کی معرفت حاصل ہوتی نہ اس کی توحید کی اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ (روح المعانی جز، ۲۷، ص۳۳، دارالفکر بیروت، ۱۴۱۷ھ)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں