انسان قرآن و سنت کی روشنی میں۔لئیق احمد/قسط2

عظمت انسان قرآن مجید و احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں۔

۱۔ تمام مخلوقات پر فضیلت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اپنی تمام مخلوقات پر اسے فضیلت و برتری عطا کی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’بے شک ہم نے اولادِ آدم کو فضیلت دی اور ان کو خشکی اور سمندر کی سواریاں دیں اور ان کو طیب چیزوں سے رزق دیا اور ان کو ہم نے اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۷۰)

ان آیات میں اللہ ربّ العزت نے انسان کے تمام مخلوقات میں مکرم و مشرف و فضیلت والا ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔اس لیے حضرت علامہ اقبالؒ انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے

میں  سجود ملائک ہو مجھے انسان رہنے دو

اور ایک جگہ فرماتے ہیں:

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگنی ہے تھوڑی محنت زیادہ

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنا مقام اور مرتبہ پہچانے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کے ذریعے اس کے قرب کی مسلسل جدوجہد کرے۔

۲۔ کائنات کی تمام اشیاء کا انسان کے لیے بنانا

اللہ ربّ العزت نے انسان کو اپنے قرب و وصال کے لیے تخلیق فرمایا جب کہ ربِّ کائنات نے اس کائنات کی تمام اشیاء کو انسان کے نفع اور فائدے کے لیے پیدا کیا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ (سورۃ البقرۃ۔ آیت ۲۴)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر (تابعدار کردیا) ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت رکھنے والے نہ تھے۔ان آیات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

سورج چاند پیدا کیے تیری ضیاء کے واسطے

کھینیاں سرسبز ہے تیری غذا کے واسطے

جانور پیدا کیے تیری وفا کے واسطے

یہ دونوں جہاں تیرے ہے اور تو خدا کے واسطے

۳۔ انسان کا زمین میں اللہ کا خلیفہ ہونا

اللہ ربّ العزت نے اپنی خلافت اور نیا بت کا سہرا انسان کے سر پر سجایا ہے۔ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کا تذکرہ موجود ہے۔ ایک مقام کی چند آیات ملاحظہ کریں۔۔۔پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرّر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا جب کہ ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو کرہی رہے ہیں۔ فرمایا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرۃ۔ آیت ۳۰)

بعض علماء نے خلیفہ کی اس آیت کے تناظر میں یہ تعریف کی ہے:

خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کے  ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے اور اس کی منشاء کو ٹھیک ٹھیک پورا کرے۔اللہ ربّ العزت نے انسان کو یہ اعلیٰ اور ارفع مقام اس لیے عطا فرمایا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکام کو بجا لاتے ہوئے اسلامی نظام کو نافذ کرے اور نظامِ عدل و انصاف قائم کرے۔

۴۔ انسان کا احسن تقویم ہونا

تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کن‘‘ سے پیدا کیا اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ قرآنِ مجید میں ہے:

اے ابلیس! تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس نے منع کیا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ (سورۃ التین۔ آیت ۴)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو مارے تو چہرے سے اجتناب کرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم۔ رقم الحدیث ۶۵۳۲)

اس لیے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: بے شک ہم نے انسان کو سب سے اچھی ساخت اور بیت پر پیدا کیا ہے۔ (سورۃ التین۔ آیت ۴)

مقصد انسان قرآن و سنت کی روشنی میں

۱۔ انسان کی وجہ تخلیق

قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت انسان کی تخلیق کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان ہے۔ (الاسرار المرفوعۃ رقم الحدیث ۶۹۸، ص۱۷۹، دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۰۵ھ)

مجاہد نے یہ کہا ہے کہ اس آیت کا معنی ہے: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ مجھے پہچانیں علامہ ثعلبی نے کہا یہ قول اس لئے  حسن ہے کیوں کہ قرآنِ مجید کی متعدد آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ (انکشف و البیان، ج۹، ص۱۲۰، داراحیاء التراث العربی، البیروت ۴۲۲ھ)

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ سیّد محمود آلوسی رُوح المعانی میں ارشاد فرماتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors

اس آیت میں جو فرمایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں، اس کا معنی ہے تاکہ وہ مجھے پہچان لیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچاننا اس کی عبادت کرنے کا سبب ہے، سو آیت میں مسبب کا ذکر ہے اور اس سے سبب کا ارادہ فرمایا ہے اور یہ محاذ مرسل ہے اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت معتبر ہے جو اس کی عبادت سے حاصل ہو نہ کہ وہ معرفت جو بغیر عبادت کے حاصل ہو۔ جیسا کہ فلاسفہ عقلی دلائل سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں اور یہ عمدہ قول ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ جنات اور انسانوں کو پیدا نہ کرتا جو اس کی معرفت حاصل نہ ہوتی، اس کے وجود کی معرفت حاصل ہوتی نہ اس کی توحید کی اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ (روح المعانی جز، ۲۷، ص۳۳، دارالفکر بیروت، ۱۴۱۷ھ)

وہ حدیث جس کا ذکر امام آلوسی نے فرمایا ہے وہ یہ ہے: حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے پسند کیا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ وہ مجھے پہچانے۔ اس حدیث قدسی کو کثرت سے صوفیاء نے بیان کیا ہے جس میں علامہ ابن عربیؒ ، سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، حضرت سلطان باہوؒ ، مجدد الف ثانی اور بہت سے صوفیاء شامل ہیں۔
لیکن کچھ محدثین نے اسے حدیث ماننے سے انکار کیا ہے۔
جیسے حافظ سیوطی متوفی ۹۱۱ھ اس حدیث قدسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے پسند کیا کہ میں پہچانا جاؤں سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا میں نے انہیں اپنی پہچان کرائی پس انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ حافظ سیوطی نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے، ’’اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔‘‘ (الدر المنتشرہ رقم الحدیث ۳۵۵، ص ۲۲۷، دارالفکر، بیروت، ۱۴۱۵ھ)
علامہ محمد بن عبدالرحمن سخاوی متوفی ۹۰۲ھ لکھتے ہیں: ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ یہ نبی کریمﷺ کا کلام نہیں ہے اور اس کی کوئی سند معروف نہیں ہے۔ صحیح نہ ضعیف علامہ زرکشی اور ہمارے شیخ نے بھی اسی طرح تحقیق کی ہے۔ (المقاصد الخستہ رقم الحدیث ۸۳۸، ص۳۳۲) لیکن بہت سے محدثین اور مفسرین نے اس بات پر دلائل رقم فرماے ہیں کہ اس حدیث قدسی کے معنی ٹھیک ہے اور انہوں نے اس حدیث قدسی کو قبول کیا ہے۔
جیسے ملا علی قاری علامہ سخاوی کی عبارت نقل کرتے ہوئے اس حدیث قدسی پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
لیکن اس حدیث کے معنی صحیح ہے اور یہ اس آیت سے متفاد ہے۔ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے۔ (الاسرار المرفوعۃ رقم الحدیث، ۶۹۸، ص ۱۷۹، دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۰۵ھ)
علامہ ابن خلدون نے اس حدیث قدسی کو رقم فرمایا اور اس کے معنی کو صحیح قرار دیا۔ (علامہ عبدالرحمن بن محمد ابن خلدونؒ المتوفی ۸۰۸ھ ’’تاریخ ابن خلدون جلد۱، المقدمہ: فی علم التصوف، ص۳۸۵، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان)
علامہ سیّد محمود آلوسی حنفی نے رُوح المعانی میں اس حدیث قدسی کو رقم فرمایا اور اس کے معنی کو صحیح قرار دیا۔
(علامہ ابی الفضل شہاب الدین سید محمود الالوسی البغدادی المتوفی ۱۲۷ھ تفسیر رُوح المعانی، جلد ۱۴، ص۳۹، المکتبہ الحقانیہ، ملتان پاکستان)
علامہ السیّد الشریف علی بن محمد بن علی الحرجانی الحنفی نے التعریفات میں اس حدیث قدسی کو رقم فرمایا اور اس کے معنی کو صحیح قرار ادیا۔ (السیّد الشریف علی بن محمد بن علی الحرجانی الحنفی (المتوفی ۸۱۶ھ) ’التعریفات‘، ص۱۲۰، قدیمی کتب خانہ کراچی پاکستان)
۲۔ دین کے نفاذ کی کوشش
جب انسان اپنے قلب کو اللہ کی معرفت کے نور سے منور کرلیتا ہے اور اپنے ظاہر کو شریعت محمدیﷺ سے آراستہ کرلیتا ہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ انسانیت کی اصلاح کے لیے میدان عمل میں نکلے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے کیوں کہ حضور اکرم ﷺ نے بھی صحابہ کرام رضوان الاجمعین کی تربیت اسی انداز میں فرمائی۔ مکی دَور میں حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کے عقائد کو پختہ فرمایا  اور اپنی نگاہِ مبارک سے ان کے باطن کا تذکیہ فرمایا
جب ان کا قلب اللہ کی معرفت سے منور ہوگیا تو ہجرت مدینہ کے بعد آپﷺ نے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی اور پھر صحابہ کرامؓ کو معاشرہ میں عملی کردار ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ کے احکام کا نفاذ معاشرہ میں ہوسکے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے ہوتا ہے۔
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ۲۷۹ھ روایت کرتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا جب بنو اسرائیل میں گناہ بہت بڑھ گئے تو ان کے علماء نے منع کیا، کیا وہ باز نہیں آئے۔ وہ علماء ان کی مجلسوں میں بیٹھتے رہے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے تو اللہ نے ان کے دل بھی ان کی طرح کردیے اور حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی کیوں کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے۔ تم ان کو ضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اور برائی سے روکے رہنا اور تم ظالموں کے ہاتھ کو پکڑ لینا اور ان کو حق کے مطابق عمل پر مجبور کرنا۔ (سنن ابو داؤد، ج۳، رقم الحدیث ۴۲۳۶)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعب متوفی ۲۷۵ھ روایت کرتے ہیں: قیس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کسی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ ۱۰۵)اور تم اس آیت سے غلط مطلب نکالتے ہو اور ہم نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے سنا، جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو اللہ ان سب پر عذاب لے آئے گا اور ہیشم کی روایت میں ہے، جس کسی قوم میں گناہوں پر عمل کیا جاتا ہے اور وہ ان گناہوں کو مٹانے پر قادر ہو پھر نہ مٹائیں تو عنقریب اللہ ان سب پر عذاب لے آئے گا۔ (سنن ترمذی، ج۵، رقم الحدیث ۳۰۹۸)
۳۰۹۸)
بحیثیت فرد   جہاں انسان کی اپنی اصلاح ضروری ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کا تابع ہونا ضروری ہے  وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے لیے عملی اقدام اُٹھائے تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوسکے۔
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

لیئق احمد
ریسرچ سکالر شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی ، ٹیچنگ اسسٹنٹ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply