ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے۔۔سید عمران علی شاہ

دین اسلام الہامی ادیان میں سے جدید ترین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے”بے شک ﷲ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے”۔ پوری دنیا میں ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی بھی بابت نیا قانون یا ضابطہ عمل میں آتا ہے تو، اس سے متعلق پرانے قوانین از خود کالعدم ہوجاتے ہیں، اسی رو سے اسلام کو دنیا میں جدید ترین نافذالعمل دین کی حیثیت بھی حاصل ہے، لیکن یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ اسلام سے قبل موجود ادیان کے لیے اسلام کا وجود ایک بہت بڑا مسئلہ بنا رہا، اسلام مخالف قوتیں اس کو تباہ و برباد کرنے کی غرض سے ازل سے بر سر پیکار ہیں، یہ سلسلہ نہ تھما اور نہ ہی قیامت تک تھمنے والا ہے، طاقت کے حصول کی دوڑ کی بناء پر امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک طویل عرصے تک سرد جنگ رہی جس کا اختتام سوویت یونین کی تقسیم پر ہوا اور دنیا میں طاقت کے توازن کا نظام امریکہ کی گود میں جا گرا، کہتے ہیں کہ بے جا طاقت ظلم و جبر کو جنم دیتی ہے، امریکہ سپر پاور تو بن گیا مگر اس نے اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے مسلمان ممالک کو میدان جنگ بنایا،
اس سرد جنگ میں امریکہ کو کامیابی دلانے کے لیے بہت سارے عوامل نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا مگر سب سے زیادہ اہم کردار افغانستان کے مسلح جنگجوؤں کے گروہوں نے ادا کیا، انکی گوریلا وار ٹیکنیک نے سوویت یونین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اس دور میں امریکی اور مغربی میڈیا نے ان کو ہیرو اور مجاہدین کہہ کر ان کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

مگر جب 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور مین ہیٹن پر جہازوں کے ٹکرانے کا واقعہ  پیش آیا، تو اسی مغربی اور امریکی میڈیا نے افغان طالبان کو اس  کا ذمہ ٹھہرایا اور امریکہ طاقت کے نشے  میں چور ہو کر افغانستان پر حملہ آور ہوگیا۔۔ مگر آج وہ افغانستان سے نکلنے کے لیے انہی طالبان عمائدین سے مذاکرات صرف اسی لیے کرنا چاہتا ہے تاکہ اس مشکل میدان جنگ سے کسی بھی طرح سے فرار کی راہ لے سکے، مگر امریکہ نے افغانستان میں جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اس کا  احاطہ تو شاید تاریخ ہی کرسکے گی، تاریخ میں سب سے زیادہ ڈرون حملے افغانستان میں کیے گئے جن میں جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ ہزاروں معصوم شہریوں نے بھی اپنی جانیں گنوا دیں۔

دوسری جانب امریکہ نے عراق پر الزام عائد کیا کہ وہاں خطرناک کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اور عراق پر دو بار حملہ آور ہوا پہلی بار جارج بش سینئر نے 90 کی دہائی میں عراق پر حملہ کیا اور انسانی تاریخ کے بد ترین مظالم ڈھائے اور دوسری بار جارج بش جونیئر نے عراق پر حملہ کیا، مگر امریکہ اور اس کے حامی آج تک دنیا کو عراق میں موجود کیمیائی و ایٹمی ہتھیار دکھانے میں ناکام رہے،
آج پوری دنیا میں آگ صرف اور صرف مسلمان ممالک میں بھڑکی ہوئی ہے 54 اسلامی ممالک کے وجود پر بہت سارے سوالیہ نشان ہیں ، شام، فلسطین  کے بعد لبنان عالمی طاقتوں کے نشانے پر آگیا ہے، امریکہ کا اگلا ہدف ایران ہے۔

عالمی طاقتیں بھرپور منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے مسلمانوں کو زبان، نسل اور فرقے جیسے فتنوں میں الجھا کر شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی بنا کر مکمّل طور پر کھوکھلا کر چکی ہیں، رہا سہا کام ممبر فروش اور اغیار کے ہاتھوں بک کر مسلمان کو مسلمان سے لڑا نام نہاد دین فروش عالم کر رہے ہیں۔

بد قسمتی سے مسلم ممالک کا آپس کا رشتہ دین کی بنیاد پر استوار ہو ہی نہیں پایا، اور کی سب سے بڑی ترجیح  معیشت بن چکی ہے، اس ضمن میں تو متحدہ عرب امارات نے حد ہی عبور کردی جب اس نے دنیا کی سب سے بڑی فتنہ ریاست اسرائیل کو بطور ملک تسلیم کرلیا، ان کا یہ عمل، ہمارے فلسطینی بھائیوں کی سال ہا سال کی جدوجہد پر قہر بن کر ٹوٹا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ بہت سارے معاشی معاہدے بھی کیے اور اس وقت کے سب سے بڑے قصائی نریندر مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے بھی نوازا، جس سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا شکار ہونے والے کشمیری بھائیوں کو  شدید صدمہ پہنچا۔

او آئی سی اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، اور اسی وجہ سے وہ اپنی افادیت کھو چکی ہے، کیونکہ اس چلانے والے اپنے خاص مفادات کے حصول کی خاطر عالمی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک چکے ہیں،شاعر مشرق نے آج سے تقریباً سو سال پہلے مسلمانوں  کی حالتِ  زار کا اندازہ لگاتے ہوئے فرمایا تھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

کیا مسلم دنیا اس قابل ہے کہ ہم سب ایک ہو سکیں یا پھر ہر ایک اپنی باری کا انتظار کرے؟

عجب حیرانی والی بات ہے کہ، ہم لوگ شادیوں، دیگر محفلوں اور سینما گھروں میں تو بلا تخصیص لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں، مگر مساجد و امام بارگاہوں میں شیعہ، سنی بن جاتے ہیں، ہم جب تجارت کرتے ہیں تب تو ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا اپنے ذاتی مفادات کی صورت میں تو ہمارا فرقہ ہمیں ایک دوسرے سے روابط اور تعلقات استوار کرنے میں رکاوٹ کبھی نہیں بنتا، مگر جہاں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے وہاں ہم اسے دکھانے میں کیوں ناکام ہیں، خدارا جاگ جائیں دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے ہم سب ایک ہوجائیں، ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بننا ہوگا۔۔
مولانا الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا،
اے خاصہ ء  خاصان ِ رُسل وقت دعا ہے،
امت پہ تیری آ کے  عجب وقت پڑا ہے،
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے،
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت دشمن نے Fifth Generation War کا بھرپور استعمال شروع کردیا ہے، اور وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لوگوں کر فرقہ واریت پر اکساء رہا ہے، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، فقہاء اور ذاکرین کی وڈیوز کے حصوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر ایسے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طور مسلمین کے درمیان نفاق پیدا کیا جائے، خدارا اغیار کے ہاتھوں آلائے کار نہ بنیں، دشمن کی سازشوں کو محبت اور رواداری کے دم پر نیست و نابود کردیں، سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال کریں، یہ وقت حقیقتاً اتحاد بین المسلمین کی متقاضی ہے، پروردگار عالم تمام مسلم امہ کو اتحاد اور اتفاق کی محبت سے مالا مال فرمائے اور وطن عزیز کو فرقہ واریت کے فتنے سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رکھے

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply