امی جی/ابرار حیدر

میرا بچپن اور لڑکپن پنجاب کے ایک چھوٹے سے دیہات میں گزرا، میرے بچپن میں پڑھنے لکھنے کا رواج ابھی اتنا عام نہیں تھا، کوئی مناسب نمبروں سے میٹرک کر لیتا تو بہت پڑھا لکھا شمار ہوتا اور گاؤں کے بیاے پاس انگلیوں پہ گنے جا سکتے تھے۔

عمومی رواج یہی تھا کہ سرکاری سکول میں جو لائق فائق اور محنتی تھا وہ پڑھ جاتا، اکثریت میٹرک سے پہلے ہی مزدوری، کھیت کھلیان یاکام سیکھنےپہ لگ جاتی، باقی ریاضی یا انگریزی میںکمپاٹ آنے” (فیل ہونے) کے بعد چھوڑ جاتے۔

جو میٹرک کر جاتے ان کاخواب بھی سرکاری محکمے میں نوکری کا مل جانا، جو عموماً درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر کلرک یامنشی لگنے کے ارد گرد ہی تھا۔ سرکاری نوکری ملنے سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ روزانہ صبح نہا کر صاف کپڑے پہننے کا بہانہ مل جاتاتھا اور کبھی کبھار واسکٹ بھی، جو باقی مزدوروں، کسانوں اور ڈھور ڈنگر سنبھالنے والوں سے ممتاز کر دیتا تھا، کیونکہ ان کے کپڑےاکثر گندے ہی ہوتے تھے۔

جو گنے چنے لوگ بی۔اے تک پہنچتے، ان میں اکثریت چوہدریوں کے بچوں کی ہوتی،جو بچوں کو شہر بھیج کر پڑھانا افورڈ کرسکتےتھے  اور روزانہ یک طرفہ تیس کلومیٹر سفر کر کے شہرڈی پی ایسپڑھنے جاتے تھے، باقی چند ایک وہ تھے جو گاؤں کے سکول میں خود محنت کرلیتے یا قریبی قصبے کے سکول جاتے اور وہاں ٹیوشن بھی لیتے، لیکن اتنا کرنے کے لیے جو پیسہ اور محنت لگتی وہ سب کے بس کی بات نہیں تھی۔

اس ماحول میں اب ہم بہن بھائیوں کو ہمارے والدین کی طرف سے پڑھنے اور صرف پڑھنے کی تلقین تھی، ہمارے والد مزدوری کرتےتھے، جو کماتے ہماری تعلیم پہ خرچ کرتے، ہماری عمر کے باقی ہمارے کزن اور گاؤں کے باقی لڑکے عمومی رواج کے مطابق کام سیکھ رہے تھے اور والدین کا معاشی سہارا بن رہے تھے، لیکن ہمارے گھر میں ہمارے والدین کی طرف سے، معاشی تنگدستی کے باوجود،جس میں امی کا ہاتھ زیادہ ہے ایک ہی بات تھی کہ صرف اور صرف پڑھائی پہ توجہ دیں، امی کہا کرتی تھیں کہ پڑھائی سے کم ازکم یہ ہو گا کہ ہمیںدابڑانہیں اٹھانا پڑے گا، پڑھائی کی بنیاد پہ ہمیں کوئی آسان دفتری کام مل جائے گا۔

امی خود تین چار جماعتیں ہی پڑھی ہیں،لیکن ہمارے نانا کوئی آٹھ جماعتیں پڑھے تھے اور سرکاری محکمے میں کلرک تھے، اپنےگاؤں کے باقی افراد کے برعکس دفتر جاتے، اخبار پڑھتے اور ریڈیو سنتے۔ ہماری امی چاہتی تھیں کہ ہم بھی کم از کم اتنا پڑھ جائیں کہ کہیں کلرک بھرتی ہو جائیں۔

اس کوشش میں ہم بہن بھائیوں کو پڑھانے کا کام آسان نہیں تھا، معاشی طور ہاتھ تنگ ہونا طرف، رشتے داروں کے طعنے دوسری طرف کہ پڑھائی پہ وقت اور سرمایہ برباد ہوتا ہے، لیکن ہمیں روزانہ سکول بھیجا جاتا اور سکول کے بعد گھر سے نکلنے کے اجازت نہ تھی کہ گھر آ کر بھی پڑھنا ہے، سکول سے مسلسل خبر رکھنی کہ کیسا پڑھتے ہیں، جس دن سکول سے کوئی شکایت آتی، ہماری غلطی ہوتی یا نہیں، بانس کیسوٹیہمارا انتظار کر رہی ہوتی۔

تفصیل لمبی ہے، وہ پھر کبھی، میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا تو ہمارے ایک انکل نے کہا کہ لاہور کے گورنمنٹ کالج داخلہ دلوا دیں،داخل ہو گئے، کچھ دنوں بعد چھٹی پہ گھر آیا تو ابو کے ایک کزن نے پوچھا کہ لاہور ہوسٹل میں رہتے ہو، دو سال میں گیارھویں اوربارھویں جماعت کا کل خرچہ کتنا آئے گا، میں کہا کم از کم دو لاکھ تو ہے، تو کہتے،ایہہ ای دو لکھ دی ہٹی پائی ہوئے تے بندہ پُکھانئیں مردا” (یہی دو لاکھ سے ایک دوکان کھول لیں بھوکے نہیں مریں گے)، میں اس وقت چپ کر گیا لیکن امی کی بتائی ہوئی پالیسی ذہن میں تھی کہ اگر اچھے سے پڑھائی کر لو گے تو دوکان نہیں دفتر میں بیٹھو گے، اور اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ایک بھائی پولیس افسر، دوسرا وکیل اور تیسرا ڈاکٹر ہے، بہنیں بھی اچھا پڑھیں ہیں اور اچھے گھروں میں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماؤں کے عالمی دن پر آج ہماری ان کامیابیوں پر اپنی امی کو سلام، جن  کی سوچ نے ہمیں دابڑا اٹھانے سے روک کر قلم پکڑے رکھنے پہ مجبور کیا۔

Facebook Comments

ابرار حیدر
ابرار حیدر طب کے شعبہ سے منسلک برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply