رود بار حیات کے کنارے رنگین چشمہ/ڈاکٹر ساجد علی

اس قیامت کی گرمی تھی کہ سورج سوا نیزے پر معلوم دکھائی دیتا تھا۔ اس کی شعاعیں سطح زمین سے یوں سر پٹک رہی تھیں گویا جیسے زمین کا سینہ چیر کر تہہ تک اتر جانا چاہتی ہوں۔ زمین گرم لوہے کی مانند سرخ تھی، آنکھیں کھول کر چلنا دشوار ہو رہا تھا، اس پر میں نے ایک رنگین چشمہ خریدنے کا سوچا تاکہ اس گرمی سے بچاؤ  کی کچھ صورت ہو سکے۔ چشموں کی دکان میں داخل ہوا تو دکاندار نے میری فرمائش پر مجھے مختلف چشمے دکھائے۔ ان چشموں کے فریم ہی مختلف وضع قطع کے نہ تھے بلکہ ان کے شیشوں کے رنگ بھی مختلف تھے۔ ماہرین بصریا ت کا کہنا ہے کہ چشمے کے شیشے کا ننگ اتنا گہرا ہونا چاہیے کہ اس کے پیچھے سے آنکھیں نظر نہ آ سکیں۔ اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے گہرے شیشوں والا ایک چشمہ خریدا، اسے ناک پر سجایا اور دکان سے باہر نکلا۔ چشمہ آنکھوں پر پہنتے ہیں مجھے محسوس ہوا کہ مجھ پر اسرار و رموز کا “سم سم” یک سر کھل گیا اور میں ایک عجائب خانے میں آن وارد ہوا۔ چشمہ کیا پہنا گویا گنج معارف مل گیا۔

شیشے کے گہرے رنگ والا اصول مجھے بہت مفید دکھائی دیا، کہ انسانی جسم میں آنکھ ایک انتہائی حساس عضو ہے۔ چہرے پر داخلی احساسات کو چھپانا تو ممکن ہو سکتا ہے مگر بہرحال آنکھیں چغلی کھا جاتی ہیں۔ چشمہ پہننے سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ہماری آنکھوں کی سیڑھیوں کے راستے اتر کر باطن کے بند کمروں میں نہیں جھانک سکتا۔ دوسرے کے باطن میں جھانکتے پھرنا ویسے بھی شرفا کی عادت نہیں۔ ہماری زندگی کا عام اصول یہ ہے کہ ہم کسی شریف آدمی کی اجلی قمیص کے نیچے پہنی ہوئی میلی بنیان پر نظر نہیں ڈالتے۔ اسی طرح چمکتے چہروں کے باطن کا جائزہ بھی نہیں لینا چاہیے کہ نیچے کی پرت کا رنگ اوپر کی پرت سے ہمیشہ مختلف ہوتا ہے اور رنگوں کے اختلاف سے ہم سوئے ظن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں دوسروں کے ظاہر سے تعلق رکھنا چاہیے کہ یہ ظاہر داری کا زمانہ ہے۔

جب ظاہر کی آرائش پر بہت زیادہ توجہ صرف ہونے لگے تو باطن کی صفائی کما حقہ نہیں ہو سکتی۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے باطن کی صفائی شاید ممکن بھی نہیں۔ اسی لیےصوفیا تزکیہ باطن کے لیے جنگلوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ آج کل ان کا نیا ایڈیشن شہروں میں آن وارد ہوتا ہے، وہ جنگلوں میں جا کر دھونی رماتے، آسن جماتے، بھنگ کا پیالہ چڑھا کر سلوک کی منازل طے کرتے تھے، یہ لوگ بال بڑھائے، کپڑے چکٹ کیے، نفی ذات کرتے چرس کا کش لگا کر معرفت حاصل کرتے ہیں۔ اگر اس دنیا کو پوری رعنائیوں کےساتھ آباد رکھنا ہے تو ظاہر اچھا تو سب اچھا کے مقولے پر عمل کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر باطن کی طرف توجہ کرکے لوگ اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یا تو آبادیاں چھوڑ کر جنگلوں کی راہ لگیں گے، اگر شہروں میں رہے تو ہپی بن جائیں گے۔ چشمہ پہننے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بہتیرے لوگ جن کی آنکھیں اٹھ نہ سکتی ہوں وہ بھی آنکھیں اونچی کر کے بات کر سکتے ہیں۔

چشمہ پہننے سے رفتہ رفتہ دھوپ کی شدت کا احساس کم ہوا، لیکن یہ احساس بھی چٹکیاں لینے لگا کہ ہر چیز کا رنگ بدل گیا ہے۔ ساری دنیا کی رنگت عینک کے شیشے میں سمٹ آئی اور کچھ دنوں بعد دنیا میرے لیے یک رنگ ہو گئی۔ چشمہ پہننے کے نتائج و مضمرات پر غور شروع کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ یہاں ہر کسی نے ایک چشمہ پہن رکھا ہے۔ چشموں کے فریم مختلف ہیں، سائز مختلف ہیں، شیشوں کے رنگ مختلف ہیں، کچھ ہلکے ہیں کچھ گہرے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے چہرے پر بظاہر تو عینک نظر نہیں آتی اور ننگی آنکھوں دنیا کا مطالعہ و مشاہدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہاں بھی دھوکہ کھانے کی ضرورت بالکل نہیں کیونکہ ماہرین بصریات کا کہنا ہے کچھ لوگ کلیتہً کلر بلائنڈ ہوتے ہیں یعنی وہ رنگوں میں تمیز نہیں کر سکتے اور انھیں تمام رنگ دھندلے سائے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ جزوی کلر بلائنڈ ہوتے ہیں، جو کچھ رنگوں میں تمیز نہیں کر سکتے۔ کچھ عینکیں ایسی ہوتی ہیں جن سے دور کی چیزیں دھندلا جاتی ہیں اور نزدیک کی اشیا واضح اور بڑی ہو کر نظر آتی ہیں۔ کچھ ہوتی ہیں جن سے صرف دور کی اشیا صاف اور واضح نظر آتی ہیں۔

جو لوگ نزدیک دیکھنے والی عینک پہنتے ہیں انھیں صرف اپنی ہی ذات حقیقی نظر آتی ہے، کیونکہ ان کی نظر کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے، وہ دور کی چیزیں نہ دیکھ سکتے ہیں نہ انھیں پچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے ماضی اندھیرا اور مستقبل دھندلکا ہوتا ہے۔ حال کا ایک لمحہ روشن ہوتا ہے جس کا شعلہ ان کے پکڑنے سے پہلے کجلا جاتا ہے اور وہ بھی ماضی کے اندھیروں میں بدل جاتا ہے۔ جب دیکھتے ہیں نیچے ہی دیکھتے ہیں، کبھی بلندیوں کی طرف نظر نہیں اٹھتی۔ انھیں یہ علم نہیں ہوتا کہ “پستیاں بلندیوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں”۔ ان کی سوچ کنوئیں کے مینڈک کی ہوتی ہے۔ اس عینک سے دور کی اشیا چونکہ دھندلی نظر آتی ہیں اس لیے ایک ایسی عینک پہننے والے صاحب تھے جنھیں ساری دنیا بس ایک پرچھائیں ہی نظر آتی تھی۔ وہ انسان، حیوان غرضیکہ ہر چز کو ایک نقل سمجھتے تھے جس کی اصل کہیں آسمانوں میں محفوظ ہے۔ یہاں تو پرچھائیاں چل پھر رہی ہیں جنھیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ حقیقت ہے۔ اس بھلے آدمی کو کون سمجھاتا کہ اصل قصور تمھاری عینک کا ہے جس نے تمھارے سامنے واضح چیزوں کو دھند آلود کر دیا ہے۔

کچھ لوگ دور دیکھنے والی عینک پہن لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ افق پر نظریں جمائے رہتے ہیں۔ مستقبل کے بڑے لمبے منصوبے باندھتے ہیں۔ پیش آمدہ حالات کا بڑا اچھا جائزہ لے کر ان سے نتائج بھی اخذ کر لیتے ہیں۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو پاوں کے اندھے ثابت ہوتے ہیں اور سنگ راہ سے ٹھوکر کھا کرگر پڑتے ہیں۔ وہ آسمان کی خبر لاتے ہیں لیکن اپنے باطن سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اسے دیکھنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ان کے لیے جگر نے کہا تھا:
سارے جہاں کا جائزہ، اپنے جہاں سے بے خبر

ان کے علاوہ بے شمار رنگ دار شیشوں والی عینکیں ہیں۔ جنید بغدادی نے کہا تھا کہ پانی کا رنگ ظرف کا رنگ ہے اور اب دنیا کا رنگ عینک کے شیشے کا رنگ ہے۔ ابن الہیثم نے کہ بصریات کا امام تھا یہ اصول دریافت کیا کی فی الواقع آنکھ نہیں دیکھتی بلکہ معروض نظر سے ایک شعاع نکل کر آنکھ میں آتی ہے جس سے پردہ بصارت پر تصویر بنتی ہے اور اس طرح دیکھنے کا عمل واقع ہوتا ہے۔ بظاہر یہ عمل بڑا معروضی ہے لیکن غور کرنے پر انتہائی موضوعی ثابت ہوتا ہے۔ پردہ بصارت پر تصویر بنتی ہے تو صرف نیگیٹو ہوتا ہے اس کو عروق چشم دماغ کے معمل میں لے جاتی ہیں جہاں اسے دھو کر اس کا پازیٹو بنایا جاتا ہے،اور یہ عمل سراسر داخلی ہوتا ہے۔ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ پازیٹو اسی نیگیٹو کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارجی دنیا کے علم کے متعلق فلسفیوں میں بڑا نزاع واقع ہوا ہے۔
ایک حسی فلسفی نے یہ مسئلہ یوں بیان کیا کہ اشیا تو حقیقت میں موجود ہیں لیکن ان کا ادراک ہمارے اپنے ذہن کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لیے ہر انسان انھیں مختلف انداز میں محسوس کرتا ہے۔ اشیا کے بنیادی خواص، طول عرض حجم وغیرہ، قائم بالذات ہیں لیکن ثانوی خواص، آواز رنگ وغیرہ، ہمارے احساسات پر منحصر ہیں۔ خارجی دنیا میں اشیا اسی طرح موجود نہیں ہوتیں جس طرح وہ ہمارے مرکب تصورات میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ ہم اصل اشیا کو نہیں جانتے بلکہ ہمارے علم میں ان کی نمائندہ تصویریں ہوتی ہیں۔ بنیادی تصورات تو حقیقی اشیا سے مطابقت رکھتے ہیں مگر ثانوی تصورات بعینہٖ نہیں ہوتے۔ اس لیے اشیا کا جب مشاہدہ کیا جاتا ہے تو بنیادی خواص تو یکساں نظر آتے ہیں مگر ثانوی خواص مختلف ہوتے ہیں۔ احساسات چونکہ ہر انسان کی ذاتی ملکیت ہیں اس لیے وہ دنیا کو اپنے من پسند رنگوں کے ساتھ دیکھتا ہے یعنی ہر انسان دنیا کو اپنی مخصوص عینک سے دیکھتا ہے۔

دوسرے فلسفی نے کہا یہ بنیادی اور ثانوی خواص کی تفریق ہی بے معنی ہے۔ اشیا کا کوئی وجود نہیں صرف ہمارے تصورات حقیقی ہیں۔ کوئی چیز اس وقت وجود میں آتی ہے جب وہ مدرک بالحواس ہوتی ہے۔ جب اس کا ادراک نہیں ہوتا تو اس کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اشیا کے وجود اور ادراک کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اسے خدا کو درآمد کرنا پڑا جس کے ذہن میں ادراک کا عمل مسلسل ہوتا رہتا ہے اور اس طرح چیزوں کا وجود ایک تسلسل کے ساتھ قائم رہتا ہے۔ اسی گروہ کا ایک تیسرا فلسفی آگے بڑھا کہ اشیا اور ذہن دونوں وجود نہیں رکھتے۔ ان کے وجود کا علم ہمیں اپنے محسوسات سے ہوتا ہے، اس لیے ہمارے محسوسات ہی حقیقی ہیں، باقی سب واہمہ ہے۔ لیجیے صاحب! اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپتے پھریے۔ ہر فرد اپنی عینک پہن کر دنیا کو جس طرح چاہے دیکھے کوئی دوسرے کی تصدیق و تکذیب نہیں کر سکتا۔

اسی میدان میں کچھ اور لوگ آگے بڑھے جنھوں نے طبیعیات کی عنیکیں پہن رکھی ہیں۔ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خارجی دنیا بظاہر بڑی پرسکون نظر آتی ہے مگر فی الحقیقت ایسا نہیں، اس کائنات کا ایک ایک ذرہ حرکت کر رہا ہے، یہاں نہ خط مستقیم ہوتا ہے نہ دائرہ دائرہ، اس لیے کہ خطوط اور شکلیں زمان و مکان سے عبارت ہیں اور زمان و مکان ہر وقت بدلتے رہتے ہیں۔
عینک سے مسلسل دیکھنے کا سلسلہ یہاں تک بڑھا ہے کہ آج تک لوگوں کا ایک خدا پر ایمان نہیں ہو سکا۔ اس دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں شاید خدا بھی اتنے ہی ہوں۔ ہر انسان اپنا الگ خدا رکھتا ہے اور اپنی صورت پر اس کا ادراک کرتا ہے۔ زینوفینیز ایک یونانی فلسفی تھا۔ اس نے اس تصور پر بحث کرتے ہوئے بڑی خوب صورت بات کہی “ہومر اور ہیسیوڈ نے خداوں سے وہ تمام باتیں منسوب کی ہیں۔۔۔ چوری، زنا، دھوکہ وغیرہ۔۔۔ جو انسانوں کے مابین بھی قابل نفرین ہیں۔ فانی لوگ گمان کرتے ہیں کہ خدا بھی انھی کی طرح پیدا ہوئے ہیں، انھی کی طرح وہ قوت مدرکہ، ہیئت اور آواز رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے اگر بیلوں اور گھوڑوں کے ہاتھ ہوتے اور وہ بھی انسان کی طرح مصوری اور آرٹ کے دیگر مظاہر تخلیق کرنے کے قابل ہوتے تو گھوڑوں نے خدا کی تصویر گھوڑے پر اور بیلوں نے بیل پر بنائی ہوتی۔ شاید اسی لیے کہیں تو خدا سیاہ فام اور چپٹی ناک والے تھے اور کہیں سرخ بالوں اور نیلی آنکھوں والے تھے۔

ایک اور صاحب تھے، انھیں عین الشمس والبہا کے حسن و جمال سے لے کر ہر چیز میں خدا کا جلوہ نظر آتا تھا۔ وہ خدا کی تعریف اس لیے کرتے تھے کہ خدا ان کی تعریف کرتا ہے۔ اس کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ خدا ان کی عبادت کرتا ہے۔ انھوں نے انسان کو تو خدا بنا دیا لیکن جب خدا آسمان سے زمین پر گرتا نظر آیا تو یہ کہتے ہوئے خاموش ہو گئے کہ بندہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر جائے بندہ ہی رہتا ہے اور خدا کتنا ہی تنزل کا شکار کیوں نہ ہو جائے، خدا ہی رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان نے خدا کی اتنی صورتیں بنائی ہیں کہ شاید خدا آپ بھی دیکھے تو گھبرا جائے۔
اب ایک اور مسئلہ پیدا ہوا کہ خدا کی موجودگی سے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہاں بھی عینکوں نے خوب خوب کرتب دکھائے، کسی کے نتائج کسی رنگ میں ہیں، کسی کے کسی رنگ میں۔ کوئی کہتا ہے انسان دنیا میں گناہ اول کی سزا بھگت رہا ہے۔ ایک عظیم انسان کی قربانی نے تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ دوسری عینک والے کہتے ہیں اور اس دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کی عینک کےشیشے کا رنگ ہی اصل رنگ ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ جو اس امتحان میں پورا اترے گا اسے جنت اور انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ “مگر ہزاروں خواہشیں حائل ہیں لب تک جام آنے تک”۔ جنت میں پہنچنے کے لیے ایک ایسے راستے سے گزرنا پڑے گا جو تلوار کی دھار سے تیز اور بال سے باریک تر ہو گا۔ اس پل پر سے وہی گزر سکیں گے جنھوں نے اصل اور صحیح نمبر والی عینک پہن رکھی ہو گی۔ گویا ورے کی دنیا میں بھی عینک کا ساتھ باقی رہے گا۔

انیسویں صدی میں جرمنی میں ایک صاحب رہتے تھے انھوں نے اپنے آپ کو زرتشت کی ذات میں متشکل کر کے کچھ باتیں کیں۔ زرتشت جب الپائن کی چوٹیوں سے نیچے اترتا ہے تو اسے جنگل میں ایک پادری ملتا ہے جو آبادیاں چھوڑ کر جنگل میں خدا کی تلاش میں نکلتا ہے۔ زرتشت یہ معلوم ہونے پر اس پر افسوس کرتا ہے کہ اس بے چارے کو ابھی یہ خبر ہی نہیں پہنچی کہ خدا تو بہت پہلے مر چکا ہے۔ خدا کی عدم موجودگی میں ان صاحب نے ایک ایسا فوق بشر تخلیق کیا جو خدائی صفات کا حامل بھی ہے۔
انھی دنوں فرانس کے ایک اور صاحب آگے بڑھے ہیں، انھوں نے بڑی خوبصورت رم لیس فریم کی عینک پہن رکھی ہے۔ یہ آتے ہی یوں گویا ہوتے ہیں اے عقل کے اندھو! خدا موجود نہیں ہے۔ اس لیے اس کی عدم موجودگی میں تمام فیصلے ہمیں خود کرنا ہوں گے۔ خدا اگر آسمانوں میں موجود بھی ہے تو اس سے دنیا کے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ انسان آزاد ہے۔ وہ لمحہ تخلیق کے ایک نئے مرحلے سے گزرتا ہے۔ اسے اپنی صلیب خود اٹھانی ہے۔ آپ ہی فیصلے کرنے اور ان کے نتائج بھی بھگتنے ہیں۔ ان صاحب نے انسان کو وسیع و عریض کائنات میں بالکل تنہا اور بے سہارا کر دیا۔ کچھ لوگوں نے بات مانی تو فیصلے کرنے کے نتیجے میں ذمے داری اور پھر غم، حزن، کرب، درد، اضطراب اور گھن یوں حملہ آور ہوئے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر دم مارو دم کی صدا بلند کرنے لگے۔ اور انھیں یہ کہنا پڑا کہ جدید انسان مجنون، غمگین اور ناقص ہے۔

انھی میں سے ایک اور صاحب تھے۔ ان کی عینک کے شیشے گہرے سرخ رنگ کے تھے۔ انھیں دنیا میں ایک ہی چیز باعث فساد نظر آتی ہے اور وہ روٹی ہے۔ ازل سے لے کر آج تک انسانوں میں اسی پر جوتم پزار ہوتی رہی ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ تمام تر معاشی طبقوں کی کشمکش سے عبارت ہے۔ ان صاحب کو خود زندگی میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہ ہوا تھا۔ ان کے خالی معدے نے آنکھوں کے راستے باہر آ کر دنیا کا جائزہ لیا تو بات وہ بن گئی جو ایک بھوکے آدمی نے دو او دو کےجواب میں چار روٹیاں کہی تھی۔
دنیا کی تمام تر رنگینی، رعنائی اور تنوع چشموں ہی کی وجہ سے ہے۔ لیکن میں دنیا کا اصل چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ جب کبھی یہ خواہش شدید ہوتی ہے تو سوچتا ہوں کہ اپنی عینک توڑ ڈالوں۔ پھر ایک انجانا خوف مجھے پکڑ لیتا ہے کہ دنیا کا اصل چہرہ نجانے کیسا ہو گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اسے شاید کوئی بھی نہیں دیکھ سکا، اور اگر کسی نے دیکھا بھی ہے تو اس نے دوسروں کو بتانا مناسب خیال نہیں کیا۔ حضرت علی کا ایک قول ہے کہ “جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہ تمھیں بتا دوں تو تم اس طرح کانپنے لگو جس طرح کنوئیں میں ڈول ڈالتے وقت اس کی رسی کانپتی ہے۔” میں اسی لیے ڈر جاتا ہوں کہ دنیا کا اصل چہرہ دیکھنے کی تاب لا بھی سکوں گا یا نہیں۔ عینک کا توڑ ڈالنا بھی مجھے بس سے باہر معلوم ہوتا ہے۔ اب تو میرا یہ احساس قوی ہوتا جاتا ہے کہ پیدائش کے وقت ہر انسان اپنی عینک ساتھ لے کر آتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply