مکالمہ ایکسکلیوزیو/بلوچ صحافی گمشدگی: پردہ گرتا ہے!

ترقی پذیر  ممالک میں ریاست کا مخالف آوازوں کو غائب کرنا ایک ہتھکنڈے کے طور پہ استعمال ہوتا ہے۔ جن کے پیارے غائب ہوتے ہیں وہ باقی کی عمر انکی واپسی کی آس میں گزارتے ہوئے ہر پل مرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں ریاستی ایجنسیز یہ جرم کرتی ہیں۔ پاکستان میں خطہ بلوچستان اس ہتھکنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوتا رہا ہے۔ ریاستی ایجنسیز اگرچہ ہمیشہ اس سے انکاری رہی ہیں اور “گمشدہ لوگوں” کا اپنی مرضی سے کہیں چلے جانے کا موقف اپناتی ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی ایسا واقعہ جو اس مقصد  کو کمزور کر سکتا ہو، قابلِ  تشویش ہے۔

نو مارچ کو معروف بلوچ لکھاری و صحافی عابد میر کی گمشدگی کی اطلاع ان کے بھائی نے فیس بک پہ دی۔ اس خبر نے پاکستان بھر میں تشویش کی لہر پیدا کی۔ معروف صحافیوں، حامد میر اور وسعت اللہ خان نے اس ایشو کو اٹھایا۔ ہیومن رائیٹس کمیشن نے تشویش ظاہر کی اور گمشدگی دس تاریخ تک ملکی و غیر ملکی میڈیا میں شہرت پا چکی تھی۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ ایک بلوچ کی گمشدگی پہ پنجاب سمیت سارے پاکستان سے شدید ترین آواز اٹھائی گئی۔ بلوچ ایشو ہونے کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے بھی خبر کو خصوصی کوریج دی۔

البتہ اسی دوران ایک متبادل موقف نے اپنی جگہ بنانی شروع کی۔ کچھ لوگوں نے توجہ دلائی کہ حالیہ دنوں میں کچھ لوگوں کی جانب سے عابد میر پہ خواتین کے معاملے میں مبینہ ہراسانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ چنانچہ یہ گمشدگی اختیاری ہے۔ اسی اثناء میں  عابد میر کے بھائی خالد نور پولیس رپورٹ بھی کروا چکے تھے۔ ایک اہم موڑ بلوچستان کی معروف شخصیت اور عابد میر کے سرپرست ڈاکٹر شاہ محمد مری کا وڈیو بیان تھا کہ عابد میر بخیریت کسی دوست کے پاس ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے بھی ٹویٹ کی کہ عابد میر گمشدہ نہیں ہیں۔ خالد نور نے اس دوران موقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس جھوٹ بول رہی ہے کیونکہ نا تو عابد سے رابطہ ہُوا ہے اور نہ  ہی وہ واپس آئے ہیں۔ مزید کہا کہ ان کو کسی نامعلوم نمبر سے بتایا گیا ہے عابد میر خیریت سے ہیں، گلگت میں بیہوش ملے تھے اور اب دوست کے پاس ہیں۔ معاملے کے مزید بگڑنے پر عابد میر نے اپنی دو عدد وڈیوز جاری کیں کہ وہ خیریت سے ہیں البتہ اسکے باجود تشویش برقرار رہی۔ عابد میر کے ایک فیملی ممبر نے کچھ لوگوں کو یہ بتایا کہ عابد میر کو اسلام آباد سے ایجنسیز نے اٹھایا مگر انکی طبیعت بگڑنے پر انکو گلگت عزیز جمالی کے حوالے کر دیا کہ جب طبیعت سنبھلے تو انکو واپس بھیج دیں۔

عابد میر بالآخر آج مورخہ بارہ مارچ کو گلگت سے اسلام آباد واپس بخیریت تشریف لے آئے۔ آج ہی انھوں نے ایک لائیو نشریات کی جس میں امید تھی کہ وہ مکمل سچ بیان کر کے اس ایشو سے وابستہ پراسراریت کو ختم کریں گے۔ البتہ عابد میر کے بیان نے اس میں فقط اضافہ ہی کیا۔ وہ یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے یا ان کو ایجنسیز نے اٹھایا۔ انکا کہنا تھا کہ جو اٹھائے جاتے ہیں، وہ کب بتاتے ہیں کہ کیا ہوا یا مکمل سچ کیا تھا۔ بلکہ وڈیو بیان یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ اٹھائے گئے تھے لیکن اپنی فیملی اور عزیز جمالی کے تحفظ کیلئے وہ مکمل سچ نہیں بول سکتے۔ یاد رہے کہ عزیز جمالی ایک سرکاری افسر ہیں اور عابد میر ان ہی کے پاس تھے۔

مکالمہ نے محترم عزیز جمالی سے رابطہ کیا جو اس واقعہ کے گواہ اور حقائق آشنا ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ عابد میر نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں ذہنی طور پہ پریشان ہوں اور آپ کا مہمان بننا (ٹائم آؤٹ کرنا) چاہتا ہوں آٹھ دس دن کیلئے۔ انھوں نے عابد کو مرحبا کہا اور عابد میر انکے پاس گلگت پہنچ گئے۔ عابد میر نے انکو بتایا کہ انھوں نے اپنی آمد کا کسی کو نہیں بتایا اور فون بھی آف کر دیا ہے تاکہ وہ مکمل سکون سے رہیں۔ عزیز جمالی کے مطابق انھوں نے عابد میر کو آفیسر میس میں ٹھہرایا اور ان سے کہا کہ جیسی بھی پریشانی ہو انکو گھر والوں کو ضرور بتانا چاہیے۔ اس پہ عابد میر نے ان کو اجازت دی کہ وہ خالد نور اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کو بتا دیں۔ عزیز جمالی کے مطابق انھوں نے 9 مارچ کو ہی ڈاکٹر مری اور خالد نور کو انکی گلگت میں اپنے پاس موجودگی کی اطلاع دے دی۔ اسکے باوجود خالد نور نے پولیس رپورٹ درج کروا دی جس پہ انھوں نے شدید احتجاج کیا  اور ٹوئٹر پہ کمنٹس میں اصل بات لکھنا شروع کر دی۔ انکے مطابق بیہوش ملنے والی کہانی مکمل غلط ہے اور عابد میر نے خالد نور سے بات بھی کی تھی۔ اسکے علاوہ ان ہی کی درخواست پہ ڈاکٹر مری نے وڈیو پیغام بھی دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب پھر بھی خالد نور نے گمشدگی والی بات جاری رکھی اور بات انٹرنیشنل میڈیا میں چل گئی تو اسلام آباد پولیس نے گلگت آ کر عابد میر کو برآمد کرنے کا عندیہ دیا۔ اس پر انھوں نے ڈی آئی جی اسلام آباد کو اسکی خیریت اور جلد واپسی کی یقین دہانی کروائی۔ انھوں نے ہی عابد میر کی وڈیو بنا کر بھیجی تاکہ

سب کی تسلی ہو۔ اسلام آباد سے اٹھا کر گلگت پہنچانے کی بات پر جمالی صاحب نے جواب دیا کہ کیا ایجنسیز کے پاس راستے میں کوئی اور بندہ نہیں تھا کہ وہ سینکڑوں میل دور میرے ہی پاس لاتے۔ عزیز جمالی کا کہنا تھا کہ میں شدید صدمے میں ہوں کہ اس صورتحال سے مِسنگ پرسن ایشو کو کتنا نقصان پہنچے گا اور کیسے ایک نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوشش ہوئی۔ عزیز جمالی نے مزید کہا کہ انکا یہ موقف پبلک ہے اور کوئی بھی ان سے یہ بات کنفرم کر سکتا ہے۔

عزیز جمالی کی گفتگو سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عابد میر اپنی مرضی سے گلگت گئے۔ لیکن جب انکو معلوم ہو گیا کہ یہ ایشو بن چکا ہے تو انھیں فوراً یہ بات کلیئر کرنی چاہیے تھی کہ وہ اپنی مرضی سے گلگت گئے۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ جب 9  تاریخ ہی کو عابد میر کی فیملی کو عزیز جمالی حقیقت بتا چکے تھے تو وہ اسے ایشو بنانے کی کوشش کیوں کرتے رہے۔ کیوں یہ بات پھیلائی گئی کہ ایجنسیز نے اغواء  کر کے گلگت پہنچایا۔ مزید ازاں اب بھی عابد میر ایک واضح بات کرنے کے بجائے مبہم اور اشاراتی گفتگو کر رہے ہیں جو حقائق کے برعکس ہے۔

بلوچ مِسنگ پرسن ایک انتہائی اہم ایشو ہے۔ کئی مائیں بہنیں اپنے پیاروں کی تصاویر لیے سڑکوں پہ بیٹھی ہیں۔ ماہل بلوچ اور سکول ٹیچر جاوید بلوچ کی گمشدگی ابھی تازہ واقعہ ہے۔ ایسے میں “گمشدگی” جیسے حساس موضوع کو متنازع  یا مذاق بنانے کی ارادی یا غیر ارادی ہر کوشش قابل مذمت ہے۔ اگلی بار کوئی واقعی گمشدہ ہوا تو شاید لوگ سوچیں کہ “ٹائم آؤٹ” کرنے عزیز جمالی کے پاس گیا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: محترم عابد میر یا کوئی بھی متعلقہ شخص اگر اپنا موقف رکھنا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ ادارہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply