90 کی دہائی کے بعد کراچی میں لسانی بنیادوں پر سلگتی چنگاری نے آگ پکڑی ،شہر زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوا ۔
نفرت کے الاؤ میں ایندھن انسانی خون اور جسم ٹھہرے ۔ہر جماعت کو تازہ نوجوان خون میسر آیا، شہر کے در، دیوار نعروں سے بھر گئے ۔
تشدد زدہ چہروں کے ساتھ نعرے لکھ دیئے جاتے ۔
“تیرے خون سے انقلاب آئے گا”
ہر جماعت کے سیاسی شہداء کی فہرست طویل ہوئی، شہید کی اصل تعریف کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔

لیڈران نفرت کی آگ بھڑکاتے، دن بھر شہر جلتا ۔رات کو سب اکھٹے ہوتے پارٹی چلتی ۔اتحادی حکومت کا حصہ بنتے ۔رشتہ داریاں بنتی ۔ بھتے کے مال تقسیم ہوتے ۔
نیچے غریب کا بچہ کبھی جھنڈا لگاتا کھمبے سے گر کر مرتا، کبھی بلوے میں ریاستی اداروں یا مخالف کے ہاتھوں مارا جاتا ۔ٹی ٹی پستول اور کلاشنکوف ہر ہاتھ میں نظر آنے لگی ۔
لیڈر ان فسادات میں امیر ہونے لگے، زندگی پُرآسائش ہوگئی ،بنگلہ، گاڑی اندرون بیرون اثاثے بڑھتے گئے غریب کارکن سڑکوں پر مار کھاتا رہا، کیڑے مکوڑے کی طرح کچل دیا جاتا ۔
گھر فاقے، بچے لاوارث، ماں باپ بڑھاپے میں دربدر ہوئے بھیک کی طرح امداد دے کر پھر قصہ پارینہ ہوتے ۔
نئے جوان خون کی بلی چڑھتی اور اب تک وہی سلسلہ جاری ہے ۔پارٹی دفاتر اور شہدا چوک پر ایک نیا نام پرانے نعرے کے ساتھ” تیرے خون سے انقلاب آئے گا”۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں