تیرے خون سے انقلاب آئے گا / جمیل آصف

90 کی دہائی کے بعد کراچی میں لسانی بنیادوں پر سلگتی چنگاری نے آگ پکڑی ،شہر زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوا ۔
نفرت کے الاؤ میں ایندھن انسانی خون اور جسم ٹھہرے ۔ہر جماعت کو تازہ نوجوان خون میسر آیا، شہر کے در، دیوار نعروں سے بھر گئے ۔
تشدد زدہ چہروں کے ساتھ نعرے لکھ دیئے جاتے ۔
“تیرے خون سے انقلاب آئے گا”

ہر جماعت کے سیاسی شہداء کی فہرست طویل ہوئی، شہید کی اصل تعریف کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیڈران  نفرت کی آگ بھڑکاتے، دن بھر شہر جلتا ۔رات کو سب اکھٹے ہوتے پارٹی چلتی ۔اتحادی حکومت کا حصہ بنتے ۔رشتہ داریاں بنتی ۔ بھتے کے مال تقسیم ہوتے ۔
نیچے غریب کا بچہ کبھی جھنڈا لگاتا کھمبے سے گر کر مرتا، کبھی بلوے میں ریاستی اداروں یا مخالف کے ہاتھوں مارا جاتا ۔ٹی ٹی پستول اور کلاشنکوف ہر ہاتھ میں نظر آنے لگی ۔
لیڈر ان فسادات میں امیر ہونے لگے، زندگی پُرآسائش ہوگئی ،بنگلہ، گاڑی اندرون بیرون اثاثے بڑھتے گئے غریب کارکن سڑکوں پر مار کھاتا رہا، کیڑے مکوڑے کی طرح کچل دیا جاتا ۔
گھر فاقے، بچے لاوارث، ماں باپ بڑھاپے میں دربدر ہوئے بھیک کی طرح امداد دے کر پھر قصہ پارینہ ہوتے ۔
نئے جوان خون کی بلی چڑھتی اور اب تک وہی سلسلہ جاری ہے ۔پارٹی دفاتر اور شہدا چوک پر ایک نیا نام پرانے نعرے کے ساتھ”  تیرے خون سے انقلاب آئے گا”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply