• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سپریم کورٹ میں جاری جنگ: چند سوالات پر مختصر تبصرہ/محمد مشتاق

سپریم کورٹ میں جاری جنگ: چند سوالات پر مختصر تبصرہ/محمد مشتاق

1۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے از خود نوٹس کی سفارش بھی کی تھی، تو کیا اس بنا پر انھیں اس بنچ سے الگ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پہلے ہی ذہن بنا چکے ہیں؟
محض اس بنا پر کہ کسی جج نے از خود نوٹس کی سفارش کی، اسے بنچ سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ بعض اوقات کوئی جج اپنے سامنے زیرِ سماعت مقدمے میں چیف جسٹس کو لارجر بنچ تشکیل دینے کی سفارش کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر بھی اگر اس جج کو لارجر بنچ میں شامل کیا جائے، تو صرف اس بنا پر ان پر اعتراض نہیں بنتا کہ لارجر بنچ بنانے کی سفارش انھوں نے کی تھی۔ از خود نوٹس کے معاملے میں سفارش کرتے ہوئے ان دو ججوں نے صرف اتنا ہی کہا ہے کہ بظاہر یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس میں آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کو سماعت کرنی چاہیے۔ انھوں نے مقدمے کے فیصلے کے متعلق کسی راے کا اظہار نہیں کیا۔ اس لیے یہ اعتراض دونوں ججوں کے معاملے میں بے وزن ہے۔
۔۔۔
2۔ کیا ان 2 ججوں پر اس پہلو سے اعتراض میں وزن ہے کہ وہ پہلے ہی اس مقدمے کے بعض فریقوں کے بارے میں میں جانب داری یا تعصب کا رویہ رکھتے ہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض عمومی نوعیت کا ہے اور ایسا اعتراض کسی جج کو بنچ سے ہٹانے کےلیے کافی نہیں ہے۔ البتہ جسٹس مظاہر علی نقوی پر اعتراض خصوصی نوعیت کا ہے اور ان پر لگایا گیا الزام موجودہ مسئلے کے ساتھ براہِ راست متعلق بھی ہے۔ اس لیے ان پر اعتراض وزنی ہے۔
۔۔۔
3۔ جج پر اعتراض ہو، تو کیا اس کا ہٹانا لازم ہوجاتا ہے؟
جب تک کوئی بہت ہی واشگاف غلطی نظر نہ آئے، ہٹانا لازم نہیں ہوتا، لیکن جس قوت کے ساتھ بالخصوص جسٹس مظاہر علی نقوی کے متعلق اعتراض اٹھایا گیا ہے، اس کے بعد ان سے توقع یہ کی جاتی ہے کہ وہ از خود اس بنچ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیں۔ ویسے بھی بنچ میں شامل کیے جانے کے بعد اس سے الگ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بنیادی طور پر جج نے خود ہی کرنا ہوتا ہے۔
۔۔۔
4۔ کیا یہ امکان ہے کہ یہ دو جج بنچ سے الگ ہوجائیں گے؟
یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن مجھے توقع یہ ہے کہ شاید جسٹس مظاہر علی نقوی خود ہی اس بنچ سے الگ ہوجائیں گے۔
۔۔۔
5۔ کیا فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قبول کی جائے گی؟
مجھے بالکل بھی یقین نہیں ہے کہ فل کورٹ کی درخواست قبول کی جائے گی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی (اور بہت ہی کم امکان ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن بھی) بنچ سے الگ ہوجائیں گے اور ان کی جگہ ایسے جج/ججوں کو بنچ میں شامل کیا جائے گا جن کی موجودگی سے چیف جسٹس صاحب کو درکار اکثریت متاثر نہ ہو۔
6۔ کیا اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے؟
یہ کسی کی محض خواہش ہوسکتی ہے لیکن آئینی و قانونی طور پر مجھے اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ایک تو اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، یہاں تک کہ دونوں اسمبلیوں کے سپیکرز نے مشترکہ درخواست میں بھی اسمبلیوں کی بحالی کے بجاے انتخابات کی تاریخ دینے کی استدعا کی ہے۔ معلوم امر ہے کہ سپیکر کو اسمبلی کے محافظ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ جب اسمبلیوں کے سپیکرز کو ہی اعتراض نہیں ہے، تو عدالت اپنی جانب سے یہ سوال قائم کرکے اس پر فیصلہ نہیں دے سکتی۔ اس بات کا بھی اضافہ کیجیے کہ دونوں صوبوں کے گورنروں نے بھی اسمبلیوں کی تحلیل پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ ایک گورنر نے تو اسمبلی کی تحلیل کے مشورے پر عمل کرکے اپنے حکم نامے سے اسمبلی تحلیل کی، اور دوسرے گورنر نے وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کیا اور اس کے بعد ہی با دل نہ خواستہ اسمبلی کی تحلیل برداشت کی۔ اس لیے اسمبلیوں کی بحالی قطعی طور پر خارج از امکان ہے۔
۔۔۔
7۔ کیا سپریم کورٹ اس مقدمے کے فیصلے سے گریز کرکے یہ کہہ سکتی ہے کہ یہ معاملہ پارلیمان کے اندر حل کیا جائے؟
اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک تو یہ معاملہ پارلیمان کا نہیں، صوبائی اسمبلیوں کا ہے جو پہلے ہی تحلیل ہوچکی ہیں اور، جیسا کہ عرض کیا، ان اسمبلیوں کے سپیکرز، جو ان اسمبلیوں کے محافظین ہیں، اسمبلیوں کی بحالی کے بجائے نئے انتخابات کی تاریخ مانگ رہے ہیں۔ دوسرے، پارلیمان میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ تیسرے، جب معاملہ ایک دفعہ عدالت میں آگیا، تو اب عدالت کے پاس گریز کا راستہ باقی نہیں رہا کیونکہ گریز بھی فیصلہ ہی ہوتا ہے، ایک فریق کے حق میں اور دوسرے فریق کے خلاف۔ چوتھے، اور سب سے اہم یہ کہ ہم وفاقی ریاست ہیں جہاں پارلیمان بالادست نہیں ہے، بلکہ آئین بالادست ہے اور خود پارلیمان بھی آئین ہی کی پیداوار ہے اور آئین میں مذکور حدود و قیود کی پابند ہے۔ پانچویں یہ کہ بنچ کےلیے جو سوالات قائم کیے گئے ہیں، ان میں سارا زور اس امر پر ہے کہ تاریخ دینے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ انتخابات ہونے یا نہیں یا ہونے ہیں تو کب، تو اس کے متعلق مانا یہ گیا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات 90 دن کے اندر کرنے لازم ہیں۔ واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سامنے بھی گورنر یا الیکشن کمیشن نے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لازم ہونے سے انکار نہیں کیا۔
۔۔۔
8۔ انتخابات کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟
ہمارا نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور اس میں صدر (اور اسی طرح گورنر) کی حیثیت محض نمائشی ہے۔ اصل اختیار وزیرِ اعظم اور اس کی کابینہ (یا وزیرِ اعلی اور اس کی کابینہ) کے پاس ہوتا ہے۔
چنانچہ اگر قومی اسمبلی مدت پوری کرے، اور صدر الیکشن کمشن کی مشاورت سے انتخابات کی تاریخ دے، تو اس صورت میں اس کا جواز ہے، لیکن یہ صورت موجودہ حالات میں غیر متعلق ہے۔ یہاں صدر نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کےلیے تاریخ دی ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ابھی وفاقی حکومت بھی موجود ہے اور قومی اسمبلی نے مدت پوری نہیں کی۔ صدر کے اس اقدام سے صرف اتنا فائدہ ہوا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے کی سماعت پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سے زیادہ صدر کے اس اقدام کی کوئی حیثیت نہیں تسلیم کی جاسکتی۔
جہاں تک اس صورت کا تعلق ہے جس میں وزیر اعلی کے مشورے کے بعد گورنر نے اسمبلی تحلیل کی، تو اس میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ گورنر ہی انتخابات کی تاریخ دینے کا پابند ہے۔ اس لیے صوبہ خیبر پختون خوا کی حد تک یہ معاملہ طے شدہ ہے اور وہاں گورنر نے آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے۔
پنجاب اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی، لیکن وہاں بھی تاریخ دینا گورنر ہی کی ذمہ داری ہے کیونکہ، جیسا کہ ذکر کیا گیا، ہمارا نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور اس میں صدر یا گورنر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلی کے فیصلے کو محض اپنی سمجھ بوجھ کی بنا پر کالعدم کردے۔ اس لیے گورنر پنجاب نے بھی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، لیکن وہ خیبر پختون خوا کے گورنر کی بہ نسبت بہتر پوزیشن پر ہیں کہ ان کے پاس عذر پیش کرنے کی تھوڑی گنجائش ہے۔ خیبر پختون خوا کے گورنر کے پاس تو کوئی عذر نہیں ہے۔
۔۔۔
9۔ کیا گورنر پنجاب یا گورنر خیبر پختون خواہ کے خلاف آئین سے انحراف پر کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے؟
نہیں کیونکہ انھیں آئین کی رو سے استثنا حاصل ہے جب تک وہ گورنر کے عہدے پر موجود ہیں۔
دفعہ 6 کے تحت سنگین غداری کے الزام کے تحت کارروائی تو بالکل ہی ناممکن ہے کیونکہ ایک تو آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں کوتاہی اور آئین کو یکسر معطل کرنے میں فرق ہے، بالخصوص جہاں کوتاہی کےلیے کوئی (لولا لنگڑا ہی سہی) قانونی عذر بھی موجود ہو ( جیسا کہ گورنر پنجاب کا معاملہ ہے)۔ نیز سنگین غداری کے مقدمے کےلیے وفاقی حکومت ہی کارروائی کرتی ہے اور اس کا ظاہر ہے کہ کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کےلیے سوالات مقرر کرتے ہوئے سارا زور اس امر پر دیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے موجودہ مقدمے کا فیصلہ اس سوال تک محدود رہے گا۔ البتہ اس فیصلے کے بعد مستقبل میں مزید کسی کارروائی کا امکان یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply