بیانیے کی مومی ناک/توقیر بُھملہ

اردو نثر نگاروں میں معدودے چند قلمکار ہی ایسے ہیں جو اپنی تحریروں کے رستے میں کھڑے نہیں ہوتے۔ وہ اپنی نثر کو آزاد لکھ کر آزاد ذہنوں تک پہنچانے کے لیے اپنے لکھے ہوئے کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔ شاید آپ سمجھ نا پا رہے ہوں کہ اپنی تحریر کے رستے میں کھڑا ہونا کیا ہوتا ہے۔
ایسا شخص جو لکھتے ہوئے ذاتی نظریات و تعصبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے عقائد کے خلاف بھی بات لکھنا اور دوسرے قلمکار کی اپنے عقائد کے خلاف لکھی ہوئی بات کو برداشت کرنا جانتا ہے، جو واہ واہ کی بھوک سے بے نیاز ہوکر سچ لکھنے کی ابتداء اپنی ذات سے کرتا ہے وہی شخص معاشرے کے متعلق سچ لکھنے کی جسارت کر سکتا ہے۔
معاشرے میں ایسے موضوعات چاہے وہ مذہبی ہوں یا سماجی جن پر بولنا جرم ہو یا پھر ان کا شمار ممنوعات میں ہو تو ان موضوعات پر لکھنا، پھر لکھے ہوئے کو کتابی شکل دے کر عوام الناس تک پہنچانا بڑی ہمت کا کام ہے اور اس کار مشکل کو سر انجام دیا ہے مشہور بلاگ ویب سائٹ مکالمہ کے چیف ایڈیٹر اور وکیل انعام رانا صاحب نے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جو چھپے ہوئے رستم ہم پر آشکار ہوئے ہیں، جناب رانا صاحب بھی ان میں سے ایک ہیں۔
“بیانیے کی مومی ناک” کے نام سے کتاب انعام رانا کی ایسی تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں رائج تمام رنگ برنگے بیانیوں پر چشم کشا مضامین ہیں۔ جیسا کہ مذہب، عورت، طبقاتی تقسیم، تحریک آزادی کی تلخ و شیریں یادیں، ڈاکٹر عافیہ، ضیائی دور، فلسطین و کشمیر، پنجاب، خواتین مارچ، ویلنٹائن ڈے، گوادر، وکلا گردی،پنجاب یونیورسٹی اور تشدد، جمعیت، ماں بولی، فیض، فاحشہ، چائلڈ لیبر، زینب اور ہمارا سماج وغیرہ وغیرہ۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ موٹی موٹی ادبی اصطلاحات استعمال کرکے نثر کو ثقیل بنانے کی بجائے عام فہم اور روزمرہ گفتگو کی طرح ہلکی پھلکی سادہ انداز میں رواں نثر ہے ، جہاں نہ تو علمیت کا رعب ہے اور نہ ہی غیر ملکی ادب سے چوری کئے گئے مضامین و معلومات کا سیلاب ہے۔
پڑھتے ہوئے اجنبیت یا بوریت کا قطعاً احساس نہیں ہوتا بلکہ پڑھتے ہوئے دلچسپی اور تجسس بڑھتا جاتا ہے۔
اس کتاب میں ایک مضمون ” جغرافیہ، سماج اور فوج” کے نام سے ہے جس کے اختتام سے چند سطریں آپ کے شوق کو مہمیز کرنے کے واسطے تحریر کررہا ہوں۔
رانا صاحب رقم طراز ہیں کہ؛
” آئیڈیل ازم بہت اچھا ہوتا ہے، آگے بڑھنے اور جدوجہد کا حوصلہ دیتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے سٹریٹجی بدل لینے میں بھی کچھ برا نہیں ہے۔ ہمیں ان تمام عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسا نظام بنانا پڑے گا جو فوج کو مضبوط تو رکھے مگر اس کے سماجی اور سیاسی اثر کو کم سے کم کرے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سے آئی آر سی کورس ختم ہونے کے بعد عرض کی کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ شیر کو شکار سے روکنا چاہتے ہیں، بھلا جنگل کا بادشاہ آپ کی مان کر بھوکا کیوں مرے گا۔ پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا، ‘ نہیں ینگ مین، ہم شیر کو اس بات پر منانا چاہتے ہیں کہ فقط بھوک مٹانے کو شکار کرے اور باقی وقت کچھار میں سویا کرے”۔
کتاب کا سرورق خوبصورت ہے، انتساب والدین کے نام ہے۔ اور اس میں چند بڑے نام محمد اظہار الحق اور رؤف کلاسرہ کے تبصروں کے ساتھ ان کے دوست مہدی بخاری کے خوبصورت لفظوں کی کویتا کہانی بھی ہے۔
کتاب 336 صفحات پر مشتمل ہے جسے چھاپا ہے عکس پبلیکشن والوں نے۔ اور اس کی قیمت 1200 روپے سکہ رائج الوقت مقرر کی گئی ہے۔ قیمت ہمیشہ کاغذ، طباعت اور ترسیل کی ہوتی ہے کاغذ اور طباعت عمدہ ہونے کے باوجود سنہ 2022 میں یہ قیمت کچھ زیادہ تھی۔
آپ اگر اسے خریدنا چاہتے ہیں تو عکس والوں یا پھر انعام رانا سے رابطہ کیجیے۔ ایڈریس وغیرہ کے لیے پہلے کمنٹ کو دیکھیے۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply