زبانی منافقت/سیّد محسن علی

میں وہ ہوں جو جب بھی وطن ِ عزیز کے کسی گوشے میں سفر کرتا ہے تو بجائے اس علاقے کی مقامی بولی میں بات کرنے کے اردو زبان میں ابلاغ کو ترجیح دیتا ہوں۔ حتیٰ کہ  ان میں سے اگر کوئی اپنی ماں بولی میں مجھ سے مخاطب بھی ہوجائے تو میں فوراً اُسے اُردو میں ہی جواب دیتا ہوں حالانکہ  میری مادری زبان تو کچھ اور ہے۔ ویسے تو مجھے انگریزی میں بھی خاصی شدہ بُدھ ہے لیکن اب ہر بندہ تو انگریزی نہیں بول سکتا اس لیے بحال مجبوری اردو کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اگر میں اپنے بیوی بچوں سمیت کسی کاروباری یا معاشی ضرورت کے تحت کسی دوسرے صوبے میں منتقل ہوتا ہوں تو بجائے اپنے بچوں کو وہاں کی مقامی زبان سے آشنا کرنے کے  انہیں ایسے اداروں میں تعلیم دلواتا ہوں جہاں مقامی زبان کا مسئلہ نہ ہو ۔ ہمارے ملک میں آسانیاں شاید زیادہ نہ ہوں لیکن اردو کی بدولت زبان کا مسئلہ کہیں نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر ہونے کے لیے بھی مجھے اُردو چینلز کا رخ کرنا پڑتا ہے حالانکہ  اب تو میری مادری زبان میں بھی خبریں نشر ہونے لگی ہیں لیکن ظاہر ہے ان کی رسائی ابھی ملک گیر نہیں۔

اس کے علاوہ بھی اگر کوئی معلوماتی مواد اردو میں نظر آجائے جس میں ہمارے مطلب کی بات کی جارہی ہو تو اسے بڑے شوق سے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کرتا ہوں۔ مجھے دوسرے صوبوں کی زبانوں کی بالکل سمجھ نہیں ،نہ میں انہیں سیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کی مثال ایسے دوں  گا کہ میرے اجداد پچھلے 14  سو سالوں سے عربی پڑھتے آئے ہیں ،لیکن صرف نماز ، تلاوت یا کچھ رٹی ہوئی دعاؤں میں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں عربی کے چار جملے نہیں بول سکتا یا ایک مضحکہ خیز بات اور بتاؤں کہ یہ جو دعائیں اور آیات میں اپنی عبادات میں پڑھتا ہوں ، مجھے تو ان کے معنی بھی یاد نہیں تو آپ یقیناً  ہنسیں گے۔

خیر وجہ اس کی یقیناً  یہی ہے کہ عربی ، فارسی ، ترکی ہمارے خطے کی زبانیں نہیں ہیں، مگر اردو کی کونپلیں اسی دھرتی سے پھوٹی ہیں، اس کا بیج اس دھرتی کے کونے کونے میں پڑا ہے جس کی گواہی تاریخ بھی دیتی ہے ،تو یہ زبان ہمیں خود بخود سمجھ آجاتی ہے۔ اس کے ساتھ میں اردو شاعری سے خوب لطف اٹھا تا ہوں اور بھارتی فلموں کا بھی گرویدہ ہوں ،جن میں کیا کمال موسیقی پیش کی جاتی ہے ۔

نوجوانی میں سُنی کچھ دُھنیں تو آج بھی ہر وقت زبان پر رہتی ہیں۔ وجہ اس کی بھی یہی ہے کہ بھارتی فلمیں بھی اردو میں ہوتی ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے میں یہ نہیں سوچتا کہ میں اردو فلمیں دیکھ رہا ہوں بلکہ تصوّر کرلیتا ہوں کہ یہ پڑوسی ملک کی کوئی زبان ہے۔ حالانکہ  بھارت ہمارا دشمن ہے اور شاید چین ہمارا دوست ۔ لیکن ہم چائنہ والوں سے کبھی گھل مل نہیں سکتے کیونکہ ہماری زبانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ویسے ہماری مادری زبان کے اداکار بھی جب ملک گیر شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اردو زبان کو ترجیح دینے لگتے ہیں ۔

کہنے کو تو اردو ہمارے ملک کی قومی زبان ہے لیکن یہ شاید کسی قابل نہیں کیونکہ  آپ نے دفتری تحریریں، ریلوے اور جہازوں کے ٹکٹ، خریدو فروخت کے کاغذات، رسیدیں وغیرہ سب اہم تحریریں انگریزی زبان میں ہی دیکھی ہونگی ، اور تو اور حکومتی اعلانات یا عدالتی فیصلے بھی اتنی مشکل انگریزی میں ہوتے ہیں کہ بندہ فیصلے کے بجائے ان کی زبان سے پریشان ہوجاتا ہے ۔ ویسے انگریزی زبان سے ہماری سوسائٹی کس قدر مرعوب ہوتی ہے یہ بات تو آپ کے علم میں ہی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سب کے باوجود کہ میں دوسرے صوبوں کی بولیوں کو نہیں سیکھتا نہ ان زبانوں کے آرٹ میں دلچسپی لیتا ہوں لیکن میں اپنی مادری بولی کی حق تلفی پر کڑھتا ضرور ہوں۔ اسی لیے ہر دفعہ مادری زبانوں کے عالمی دن پر میں اپنی مادری زبان سے محبت کا اظہار یہ کہہ کر ضرور کرتا ہوں کہ اردو ہماری زبان کا حق ماررہی ہے ، بھلے میں اس سے کتنا ہی فیض کیوں نہ اٹھارہا ہوں۔ میرے پاس اردو کی شہرت کا کوئی جواز نہیں کہ میں خود وقتِ  ضرورت اردو کو ہی ترجیح دیتا ہوں لیکن یہ بھی کہتا ہوں کہ اردو ہم پر زبردستی مسلط ہے۔ اردو کی وجہ سے ہی بنگلہ دیش ہم سے الگ ہُوا، خواہ وہ الگ بات ہے کہ اگر صرف زبان کی وجہ سے ہی انہیں ہم سے جدا ہونا تھا تو پھر وہ بھارت سے الگ کیوں ہوئے تھے۔؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply