مشرقی دریا تو گئے/انجینئر ظفر اقبال وٹو

جب بھی انڈیا کی طرف سے پاکستان میں بہنے والے دریاوں کے پانی کا رُخ اپنی طرف موڑنے کے متعلق بات ہوتی ہے تو پاکستانی ردّعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ دریا بلا شرکت غیرے ہمارے ہیں اور انڈیا کو اس پانی کو نہیں چھیڑنا چاہئے۔
یا پھر لوگ سندھ طاس معاہدے کی دہائی دیتے ہیں کہ جی ہم نے مشرقی دریا وں کا پانی بیچ دیا۔
حالانکہ تمام دریاوں کا سارے کاسارا کیچمنٹ انڈیا میں ہے سوائے دریائے سندھ کے کہ جس میں پاکستان اور مغربی پڑوس سے بھی پانی آتا ہے۔ اس لحاظ سے انڈیا ہمارے سارے دریاوں کا پانی روک بھی لے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔ زور زبردستی کرنے کے لئے بھی آپ کا معاشی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے تاکہ آپ اپنی بات عالمی سطح پر مبوا سکیں اور جنگ اس مسئلے کا حل نہیں ہے گو انڈیا پاکستان کی اگلی جنگ پانی پر ہی ہوگی لیکن بے نتیجہ۔بلکہ اس کے نتیجے میں پانی کے ذخیرہ کرنے اور استعمال میں لانے کا موجود نظام بھی تباہ ہوسکتا ہے اور ہم اور بُڑی حالت میں جا سکتے ہیں۔
عالمی طور پر کئی ملکوں میں بہنے والے سانجھے دریا کے پانی کے استعمال پر تمام ملکوں کا حق ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے اوپر والے ملکوں کا پلہ بھاری ہوتا ہے کہ وہ پانی کو کسی بھی وقت روک سکتے ہیں اور اس کا رُخ موڑ سکتے ہیں جب کہ نیچے والے ملک صرف منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے ہاں نہروں کی ٹیل پر پانی کم کم ہی پہنچتا ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اوپر والا ملک بے لگام ہوتا ہے بلکہ مشترکہ دریاوں کے بارے میں عالمی کنونشنز اور قوانین انہیں ایک حد کے اندر رکھتے ہیں اورسانجھے دریاوں والے اکثر ملک تو باہمی میل جول اور مشورے سے اس کا حل نکالتے ہیں جیسا کہ چائنا سے بہنے والا میکانگ جو کہ چھ سات ملکوں سے ہوتا سمندر میں جا گرتا ہے ۔ جنوبی امریکا کا ایمیزون یا افریقہ کا دریائے نیل ۔ ان سب پر مشترکہ ممالک نے آپس میں معاہدے کر رکھے ہیں۔
ہم لوگ سندھ طاس معاہدے کے بعد مشرقی دریاوں کے پانیوں پر اپنا تسلط جما سکتے تھے اگر ہم پچھلی نصف صدی میں ان کے پانیوں کو ذخیرہ کرنے یا استعمال کرنے کے منصوبے لگا لیتے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور اب انڈیا کے خلاف ہر فورم پر اپنا کیس اس لئے بار بار ہارتے جا رہے ہیں کیوں کہ وہ لوگ ثابت کر دیتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد ہم نے مشرقی دریاوں کے پانیوں کو سمندر میں بہا دینے کےعلاوہ کچھ نہیں کیا لہذا ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔
یاد رکھئے دریا کے پانی پر اپنا حق جمانے کے لئے سب سے پہلے آپ کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس کو کس مفید مقصد کے کئے استعمال کریں گے۔ دوسری طرف انڈیا دھڑا دھڑ منصوبے بنا کر ان دریاوں کے پانی کا مفید استعمال ثابت کرکے دکھا رہا ہے۔
ہمارے ہاں بڑے ڈیم سیاست کی وجہ سے بھی متنازع رہے ہیں اور ہم نے بے وقوفی کی وجہ سے دریاوں میں پانی کی کمی کو مقامی وجہ قرار دے کر صوبوں کو ہی آپس میں لڑاتے رہے ہیں اور ہمیشہ توجہ اندرون ملک ہی رہی ہے۔
حالانک5 ہزار سال سے زیادہ پرانی تاریخ رکھنے والے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی تباہی کو اگر عالمی دریائی قوانین کی روشنی میں عالمی سطح پر سائنسی طریقے سے اجاگر کیا جاتا تو عالمی برادری بھی اس کو بچانے کی خاطر انڈیا پاکستان کے سانجھے دریاوں کی صحت برقرار رکھنے کی خاطر دباو ڈالتی ۔
عالمی ماحولیاتی تنظموں کی مدد لی جاتی اور یوں یہ ایک عالمی ماحولیاتی مسئلہ سمجھا جاتا نہ کہ صوبائی جس کو حل کرنا پاکستان اور ہندوستان دونوں کی مجبوری ہوتا۔
بدقسمتی سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا (بدین اور ٹھٹھہ) میں ماحولیاتی تباہی کو صرف ایک صوبے میں بڑا ڈیم نہ بننے کے مسئلے سے جوڑ کر اس عالمی ماحولیاتی تباہی کو ایک صوبائی مسئلہ بنا دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے نہ تو عالمی تنظمیوں اتنی متحرک ہوئیں اور انڈیا بھی بغیر کسی دباو کے مزے سے چار مشرقی دریاوں کو موڑ کر لے گیا جن کا پانی دریائے سندھ میں آکر گرتا تھا لیکن اثرات اب کوٹری بیراج سے ٹھٹھہ بدین تک دریائے سندھ کی ویرانی کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply