تجسّس/ ظفرجی

ملک تنویر عرب کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازم تھا۔ دو سال پہلے وہ اپنے خاندان کو بھی یہاں لے آیا تھا۔ کمپنی نے اسے فرج غانم ایریا میں تین کمروں کا فلیٹ بھی دے دیا تھا۔
یہ کہانی آپ کو رلا کر رکھ دے گی ۔

ایک روز دن کے سوا تین بجے تنویر دفتر سے گھر لوٹا تو فلیٹ کے پارکنگ ایریا میں اسے ایک نامانوس گاڑی نظر آئی۔ اس نے اپنی GMC پارک کی اور باہر نکل کر غور سے اس گاڑی کو دیکھنے لگا۔
یوں تو عرب ملکوں میں تقریباً ہر دوسرے شخص کے پاس لینڈ کروزر ہی ہوتی ہے مگر یہ ایک انتہائی مہنگی فورڈ ایف ون ففٹی تھی۔ ایسی گاڑیاں عموماً شیخ لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔
کالے شیشوں والی اس گاڑی کو بغور دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ شاید کسی کمپنی کا مالک آج ادھر آن نکلا ہے۔ وہ واپس پلٹنے ہی لگا تھا کہ اچانک اسے گاڑی کے اندر کوئی چمکتی ہوئی چیز نظر آئی جو مسلسل حرکت کر رہی تھی۔

بچے اس سے آگے نہ پڑھیں ۔۔۔۔

کچھ سوچتا ہوا وہ گاڑی کے قریب ہوا لیکن سمجھ نہ پایا کہ آخر یہ چمکتی ہوئی چیز کیا ہے؟ اور کیوں حرکت کر رہی ہے؟
آنکھوں پہ دونوں ہاتھوں کا چھجا بنائے وہ مزید قریب ہوا تو منظر کچھ مزید ابھر کے سامنے آیا۔ معلوم ہوا کہ چمکتی ہوئی چیز دراصل زنانہ سینڈل ہے جس کی ہیل کا رُخ اوپر کی جانب ہے اور مسلسل ہل رہی ہے۔

ملک تنویر میں اگر ذرا سی بھی عقل ہوتی تو یہیں سے واپس لوٹ جاتا مگر تقدیر آج اس کی دشمن ہو چکی تھی اور جیل جانا نصیب میں لکھّا تھا۔

تجسسّ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بدقسمتی سے ملک تنویر نے ایک قدم آگے بڑھ کر کار کے سیاہ شیشے کے ساتھ آنکھ ٹکا دی۔ دوسری جانب بھی اسے آنکھ ہی نظر آئی۔ ایک شیخ کی آنکھ جو غضب ناک طریقے سے اسے گھور رہی تھی۔

کالے شیشوں والی گاڑی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باہر والے کو کچھ خاص نظر نہیں آتا مگر اندر والا باہر کا ایک ایک منظر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ شیخ نے تو خیر جو دیکھا سو دیکھا، ملک تنویر نے جو کچھ دیکھا ، ہوش اُڑانے کو کافی تھا۔

وہ لاحول پڑھتا ہوا واپس مُڑا اور استغفار پڑھتا ہوا اندھا دھند چلنے لگا۔ غلطی یہ ہوئی کہ اپنے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنےکی بجائے وہ سڑک کی جانب چل پڑا۔ یہ بُرا فیصلہ تھا۔
ظاہر ہے جب بندے کے ہوش ہی اُڑ جائیں تو وہ بہترین فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟

دوسری غلطی اس سے یہ ہوئی کہ فٹ پاتھ پہ اس جانب چل پڑا جدھر ٹریفک جا رہی تھی۔ تیسری غلطی یہ ہوئی کہ وہ ایک قریبی چوک پہ جا کر رک گیا۔ شاید اس کا خیال تھا کہ شیخ اپنے کام سے فارغ ہو کر نکل جائے تو وہ آرام سے اپنے گھر جا سکے گا۔

انتظار الشدت من الموت۔ خدا خدا کر کے وہ فورڈ ایف ون ففٹی پارکنگ ایریا سے برآمد ہوئی اور سڑک پہ آ گئی۔ ملک تنویر نے ابھی سُکھ کا سانس لیا ہی تھا کہ گاڑی اس کے سر پہ آن رکی ۔۔
” شنو مسخری ہذہ؟ لیش انتَ مِنّی مّنّی مِنّی؟”

گاڑی کا شیشہ سرکاتے ہوئے بوڑھے شیخ نے اس سے پوچھا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ کیا مذاق ہے؟ تم یہاں آوارہ گردی کیوں کر رہے ہو؟
خشک ہونٹوں پہ زبان پھیرتے ہوئے بمشکل اس نے جواب دیا:
“انا روح الی البیتی ۔۔۔ یعنی فی منزلی ھذہ ۔۔۔”
(میں تو اپنے گھر جا رہا تھا جو اس فلیٹ میں ہے)
“وگف وگف ۔۔۔ شنو یبحث فی سیارتی؟ انتَ حرامی !”
(ٹھہرو ٹھہرو۔ تم میری گاڑی میں کیا ڈھونڈ رہے تھے؟ اچکے کہیں کے )

ساتھ ہی شیخ نے فون گھمایا۔ کوئی پانچ منٹ بعد شرطے کی گاڑی آ گئی۔ انہوں نے اترتے ہی ملک تنویر کو کسی مرغ کی طرح دبوچا۔ دونوں ہاتھ پیچھے باندھے اور سر پہ سیاہ شاپر اوڑھا دیا۔ وہی شاپر جو امریکی فوجی کبھی عراقی قیدیوں کو اوڑھایا کرتے تھے۔

قید تو بہت سے لوگ کاٹتے ہیں لیکن ملک تنویر نے گویا سو سال قید کاٹی۔ وہ شریف آدمی جو دن بھر کا تھکا ہارا شام کو گھر لوٹے اور دروازے پر ہی دبوچ لیا جائے دنیا کا مظلوم ترین قیدی ہے۔

جیسے تیسے کر کے اس نے جیل خانے کی رات گزاری۔ اگلی روز اس نے شرطے کی منّت کر کے اپنا سیل فون منگوایا۔ گھر میں خیر خیریت کی اطلاع دی اور اپنے کفیل کا نمبر ملایا۔
کفیل نے پہلے تو اسے خوب جھڑکا کہ کیسے مسلمان ہو کہ “ولاتجسسّو” پہ عمل نہیں کرتے۔ قوانینِ عرب کا خیال رکھّو۔ تانک جھانک کرنا یہاں سخت جرم ہے۔
اس کے بعد کفیل نے شرطے سے اس شیخ کا نمبر مانگا۔ پھر مجرم کی جانب سے معافی مانگی اور رہائی کی درخواست کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملک تنویر سے مدت ہوئی کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ امید ہے کہ وہ بھی آج کل کروڑوں میں کھیل رہا ہو گا اور شاید گاڑی بھی اچھی لے لی ہو۔

Facebook Comments

ظفر جی
ظفر جی فیس بک کے معروف بلاگر ہیں ،آپ سلسلے لکھنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply