شہر میں گاؤں کے پرندے/ڈاکٹر خالدہ نسیم

خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی
دنیا یه سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں

دروازے کو اوقات میں لانے کے لئے میں
دیوار کے اندر سے کئی بار گیا ہوں

تھامے ہوئے اک روشنی کے ہاتھ کو ہر شب
پانی پہ قدم رکھ کے میں اس پار گیا ہوں

اسحاق وردگ کی کتاب ” شہر میں گاؤں کے پرندے”

شہر میں جب گاؤں کے پرندے آتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنی سادگی، خوبصورتی اور رنگ بھی ساتھ لے آتے ہیں۔ اورشہر کی تیز رفتار اور مصنوعی فضا کواپنے رنگوں سے خوبصورت بنا لیتے ہیں۔ انہی پرندوں کی طرح، خیبر پختونخوا کے جنت نما علاقے دیر سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اسحاق وردگ بھی پشاور شہر میں سکونت پذیر ہیں۔ اوران کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پرندہ اپنی خالص، اور سادہ طبیعت میں کس قدر حساسیت رکھتا ہے۔ اور کس گہرائی سے اپنے ارد گرد کے حالات اور دکھوں کو محسوس کرتا ہے۔

چند ہفتے پہلے تک میں اسحاق وردگ کو نہیں جانتی تھی۔ اس لاعلمی میں کچھ حد تک ہاتھ ملک سے دوری کا بھی ہے۔ ایک دن میں ریختہ کی ویب سائیٹ پر چند نئے شعرا کے کلام پڑھ رہی تھی۔ توچند اشعار پر نظر پڑی۔

چلو پانی سے وہ شعلہ نکالیں
اٹھائے جو زمین کو آسماں تک

بہت ہی خوبصورت راستہ ہے
جو سیدھا جا رہا ہے رائیگاں تک

اور پھر یہ اشعار،
تمھارے بعد یہ دیکھا نہیں ہے
نہ جانے کون اب رہتا ہے مجھ میں

تمھاری سمت ہجرت کر چکا ہے
کہاں اسحاقؔ اب رہتا ہے مجھ میں

مجھے شاعر کے بارے میں جاننے میں دلچسپی ہوئی اور یوں معلوم ہوا کہ اسحاق وردگ میرے شہر پشاور کے نئے ابھرنے والے شاعر ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے علاقے میں تخلیقی زرخیزی کی کبھی کمی نہیں رہی ہے۔ جہاں اس علاقے نے پشتو زبان میں تخلیقی اظہار کرنے والے بڑے بڑے تخلیق کاروں کو جنم دیا ہے وہاں اردو زبان کے تخلیقی میدان میں بھی یہ علاقہ کسی طور پیچھے نہیں رہا ہے۔ احمد فراز، خاطر غزنوی، محسن احسان، فارغ بخاری، اور رضا ہمدانی اس لمبی لسٹ میں سے چند نام ہیں۔

اسحاق وردگ اردو شاعری کے میدان میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اورایک منفرد انداز رکھنے والے نئی نسل کے ابھرتے شاعر ہیں۔ ان کی اپنی مادری زبان پشتو ہے لیکن ان کی شاعری اور لب و لہجہ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ان کو اردو زبان پر بھی خوب عبور حاصل ہے۔ اور اپنے منفرد انداز سے اردو شاعری کے میدان میں اپنی بھرپور پہچان کروا رہے ہیں۔

مجھے ان کی کتاب” شہر میں گاؤں کے پرندے” پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ کتاب ان کی خوبصورت غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ اپنی شاعری میں جہاں وہ غزل کی زبان میں روایتی حسن و محبت، محبوب اور وصل و فراق کے مضامین خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں وہاں ہم عصر انسانوں کے دکھ درد، معاشرے کی ناانصافیوں اور حالات کے پیچ و خم پر طنز بھی بخوبی کرتے ہیں۔

دیوانوں کی مانند میرے شہر کے سب لوگ
دستار کے قابل کوئی سر ڈھوند رہے ہیں۔

پہلے تو شہر کے سب خواب جلائے اس نے
اور پھر راکھ کو تعبیر کا عنوان دیا

وہ اپنے ارد گرد کے حالات سے متاثر شدہ لوگوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ شہر پشاور میں رہتے ہوئے، اس شہر پر گزرنے والے حالات کا دکھ ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ اور ان حالات کا بیان وہ ایک فرض کی ادائیگی کے طور پر کرتے ہیں۔

مشکل ہے تجھے آگ کے دریا سے بچا لوں
اے شہر پشاور میں تجھے ہار گیا ہوں

اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ
خواب سے اک فاختہ لایا ہوں میں

بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتہ
اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے

اسحاق وردگ کی شاعری پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک حساس ، جدت پسند اور مخلص انسان کے دل سے نکلنے والے وہ سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں۔ انسانی اقدار کی شکستگی، انسان کی بے بسی اور سچ کی تلاش ان کی شاعری کے موضوعات ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک فطری گہرائی جھلکتی ہے۔

رات بھر آنکھ کے دریچے سے
خواب اندر سے دیکھتا ہے مجھے

حیرت سے نئے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں
اک شخص محبت کی زباں بول رہا ہے

عجب کردار ہوں میں زندگی کا
کہانی میں کبھی آیا نہیں ہوں

میں اس سے خواب کے رستے پہ ملنے والا ہوں
مگر وہ نیند سے بیدار ہونے والا ہے

ان کے بعض اشعار میں مکالمہ کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ جیسے اپنی پہچان کرواتے ہوئے اس شعر میں کہتے ہیں کہ

اگر یہ رات مجھے جاننے سے قاصر ہے
تو روشنی سے کبھی پوچھ لے پتہ میرا

اور مزید اپنی قدامت کا یقین رکھتے ہوئے احساس دلاتے ہیں، کہ

تمہیں میری ضرورت بھی پڑے گی
پرانے شہر کا نقشہ ہے مجھ میں

Advertisements
julia rana solicitors london

شاعری اور اردو ادب کے میدان میں اسحاق وردگ کی شاعری اپنے نئے اسلوب اور منفرد اندازکے ساتھ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ اور ہم آنے والے دنوں میں ان کی نئی تخلیقات سے مزید مستفید ہوتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شہر میں گاؤں کے پرندے/ڈاکٹر خالدہ نسیم

Leave a Reply