خوف کے سائے سے زندگی کی مسکراہٹ تک/زبیر بشیر

سال 2020 سے ہم سب کی بہت سی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک اور خطے سو برس میں پہلی بار سامنے آنے والی وبا کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے۔ وائرس ایک ایسا ان دیکھا دشمن تھا جس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ نیوز چینل لگانے سے ڈر لگتا تھا کیوں کہ وہاں خبر کی تلاش میں صرف موت کا رقص دکھائی دیتا تھا۔ ان دنوں میں چین کے شہر بیجنگ میں تھا۔ میرے ساتھ میرے اہل خانہ بھی تھے۔ ایک صبح دفتر کی جانب سے پیغام موصول ہوا کہ آج سے ہم سب گھر سے کام کریں گے تاکہ وبا کا شکار ہونے سے بچا جاسکے۔ چین کی حکومت وبا کے دوران دنیا وہ پہلی حکومت تھی جس نے وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشگی اقدامات اختیار کئے اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ورنہ کئی ممالک اور حکومتیں تو ایسی تھیں جو صرف یہ کہتی رہیں کہ یہ صرف موسمی نزلہ زکام ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بحرحال لاک ڈاؤن یہ وہ پہلا اہم  فیصلہ تھا جس نے وبا کے خلاف تیاری اور وائرس کے بارے میں ادراک بڑھانے کے لیے قیمتی مہلت فراہم کی۔

اس اہم فیصلے کے بعد چین کے سائنسدان، پالیسی ساز اور عوام اتحاد اور نظم وضبط کی شاندار داستانیں رقم کرنے لگے۔ یوں چین وہ پہلا ملک تھا جس نے اقوام عالم کے ساتھ وائرس کی ساخت، اس کے پھیلاؤ اور بچاؤ کے حوالے سے بروقت معلومات شئیر کیں۔ چین  نے ابتدائی علامات سے لے کر شدید علامات کے حامل مریضوں تک سب کے لیے طریقہ کار وضع کئے ۔  محض دس روز میں2600 بستروں کے دو ہسپتال  تعمیر اور فعال کر دئیے۔ وقت گزرتا رہا ، چین سائنسی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھتا رہا۔دنیا میں  کووڈ ویکسین کو عوامی استعمال کی مصنوعات قرار دینے سے لے کر ، ویکسین کے حقوق دانش کو مفت کرنے کی حمایت کرنے والے پہلے ملک اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ویکسین کی پیداوار میں تعاون کرنے والے پہلے ملک کے طور پر، چین بین الاقوامی برادری کو ویکسین اور انسداد وبا کا مواد فراہم کرنے کے لئے بھرپور تعاون کرتا رہا۔  تاحال چین نے 120 سے زائد ممالک، علاقوں  اور بین الاقوامی تنظیموں کو کووڈ- 19 ویکسین کی 2.2 بلین سے زیادہ خوراکیں فراہم کی ہیں ، یوں چین بیرونی دنیا کو ویکسین فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ان ممالک میں سے اکثریت ترقی پذیر ممالک ہیں۔ چین کی جانب سے فراہم کی جانے والی ویکسینز نے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں مدافعتی دیوار کےقیام  اور سماجی زندگی کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وبا سے لڑنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت، اعتماد اور عزم میں اضافہ کیا ہے۔

صرف یہی نہیں ان تین برسوں میں چین نے انسداد وبا کے ساتھ ساتھ اقتصادی بحالی کا عمل بھی جاری رکھا۔ چین کو دنیا بھر کی صنعتی چین اور سپلائی چین کا مرکزی حصہ ہونے کی وجہ سے ایک اور ذمہ داری نبھانی پڑی اور وہ یہ تھی کہ عام استعمال کی عوامی مصنوعات سے لے انسداد وبا کے سامان تک ہر چیز دنیا کو مہیا کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

تین برس کی سخت محنت اور جد وجہد کے بعد  آج چین ایک  ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں یہ کہا جا سکتا  ہے چین دنیا کی وہ پہلی ریاست ہے جو وبا کے خلاف کامیاب رہی ۔ حالیہ ہی میں چین کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز  اجلاس میں انسداد وبا کی حالیہ رپورٹ سننے کے بعد کہا گیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران چین نے انسداد وبا  کی پالیسیوں اور اقدامات کو بروقت بہتر اور ایڈجسٹ کرتے ہوئے وبا کی روک تھام اور کنٹرول اور معاشی و سماجی ترقی کو مؤثر طریقے سے مربوط کیا ہے،  تیز انفیکشن  اور شدید شرح  اموات  کے حامل وائرس کے  بڑے  پیمانے  پر پھیلاؤ کی روک تھام میں کامیابی حاصل کی اور یوں چینی عوام  کی جان و صحت کی مؤثر طریقے سے حفاظت کی  ہے۔ خاص طور پر نومبر 2022 کے بعد سے چین انسداد وبا کے اپنے اقدامات کو بہتر بناتے ہوئے وبائی امراض کی روک تھام اور کنٹرول کو نسبتاً  کم وقت میں  مستحکم طریقے سے نئے مرحلے میں داخل کرنے میں کامیاب ہوا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں اموات کی سب سے کم شرح کو برقرار رکھا گیا،جوکہ نہ صرف  انسداد وبا کے حوالے سے  ایک بڑی اور فیصلہ کن فتح  ہےبلکہ   انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک معجزہ بھی ہے کہ بڑی آبادی والا ملک کامیابی سے وبا سے نکلا ہے۔

Facebook Comments

Zubair Bashir
چوہدری محمد زبیر بشیر(سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) مصنف ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ اسے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی کی اردو سروس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ چین میں اپنے قیام کے دوران رپورٹنگ کے شعبے میں سن 2019 اور سن 2020 میں دو ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply