شہر لکھنؤ لائبریری سے محروم/اورنگزیب نادر

تعلیم قوموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہوئی ہے۔ مگر افسوس کہ پاکستان کی سرزمین میں تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس لیے پاکستان ترقی نہیں کر رہا۔ بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر تربت ہے جسے تعلیم کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے تربت کی واحد پبلک لائبریری بند پڑی ہے۔ وہ شہر جو علم کا شہر کہلاتا ہے اور اس کے باسی لائبریری سے محروم ہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔اہل علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریریز کو اس ملک کی ثقافتی ، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا نہ صرف پیمانہ بلکہ قومی ورثہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

جب تربت میں پبلک لائبریری قیام میں آیا۔ جس کے بعد یہاں کے باسیوں کو ایک سازگار ماحول ملا جس سے طلباء و طالبات پڑھائی یا مقابلے کے امتحانات کی تیاری بغیر کوئی رکاوٹ سے کرسکیں۔2011 سے فعال پبلک لائبریری تربت کو کورونا وباء کے دوران بند کیا گیا تھا۔ کورونا وائرس کب کا چلا گیا لیکن تربت کے باسی آج بھی دوبارہ لائبریری کھلنے کے منتظر ہیں۔ متعلقہ حکام کی جانب سے یہ کہنا ہے کہ لائبریری کو مرمت کرنے کے لیے بند کیاگیاہے۔ افسوس اس بات کی ہے تین سال گزرنے کے بعد مرمتی کام اب تک ختم نہ ہوسکا ۔ یہ متعلقہ حکام کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ لائبریری بند ہونے کی وجہ سے طلباء و طالبات کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہے۔ایسے کئی طلباء و طالبات ہیں جو مقابلے کی تیاری کے لئے دوسرے شہروں میں جانے کی سکت نہیں رکھتے، اس سے قبل یہاں پر تیاری کیاکرتے تھے لیکن اب اس سے بھی محروم ہوگئے۔

ضلع کیچ جو کہ بلوچستان کے سب سے زیادہ خواندہ ترین ضلع ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق مکران ڈویژن شرح خواندگی میں بلوچستان میں سرفہرست ہے اور قومی سطح پر آٹھویں نمبر پر ہے۔ تفصیلات کے مطابق 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کیچ نے 62.66 فیصد، پنجگور نے 59.22 فیصد، کوئٹہ نے 58.76 فیصد، پشین نے 52.97 فیصد، گوادر نے 51.97 فیصد اور نوشکی نے 51.67 فیصد اسکور کیا۔ افسوس تو اس بات کی ہے ایک ایسا شہر جو شرح خواندگی میں سب سے آگے ہو اور وہاں لائبریری کی سہولت میسر نہیں ہوں یہ ایک سوالیہ نشان ہے!

علمی اور سیاسی حلقوں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب پبلک لائبریری تربت قیام میں آیا تو ہر سیاسی پارٹی کریڈٹ لینے میں پیش پیش تھے لیکن بند ہونے کے بعد کسی سیاسی پارٹیوں نے یہ زحمت نہ کی کہ اس کو دوبارہ فعال کرنے میں کوشش کریں۔ اسی اثناء میں ایک ایسے نوجوان سرگرم عمل ہے جس کا اگر تذکرہ نہ کیاجائے تو زیادتی ہوگی۔ یہ نوجوان جناب عزیر حاصل ہے جو کہ پبلک لائبریری کو دوبارہ فعال کرنے میں دن رات کوششوں میں مشعول ہیں۔ انہوں نے ہر دروازے کو دستک دی ہے لیکن افسوس کہ یہاں کوئی سننے والا ہی نہیں ہے۔ان کی کاوشوں کو سنہرے الفاظ میں یاد رکھاجائے گا۔

بلوچستان اکیڈمی آف لٹریچر اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام گذشتہ روز بلوچی زبان کے معروف شاعر عطا شاد کے نام سے ایک ادبی، ثقافتی اور علمی میلہ منعقد کیا گیا جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے بھر پور شرکت کی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 35 لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تربت کے باسی کتابوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں متعلقہ حکام سے دست بستہ اپیل ہیکہ کہ پبلک لائبریری تربت جلد از جلد دوبارہ فعال کیاجائے تاکہ طلباء و طالبات بلا کسی رلاوٹ کے سازگار ماحول میں تعلیمی سرگرمیوں کو جاری وساری رکھ سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply