• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سعودی عرب کی 50 سال قبل طبی جدوجہد پر مبنی دستاویزی فلم ریلیز۔۔منصور ندیم

سعودی عرب کی 50 سال قبل طبی جدوجہد پر مبنی دستاویزی فلم ریلیز۔۔منصور ندیم

سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی اس دستاویزی فلم میں سعودی عرب کے قیام کے بعد سے تمام مقامی شہریوں اور وہاں پر رہنے والے مختلف ادوار میں تارکین وطن کی صحت کی حفاظتی تدابیر اور خیال رکھنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا ذکر ملتا ہے۔

‘وار آن ڈزیز اینڈ ایپیڈیمکس’  War on Disease and Epidemicsنام کی یہ دستاویزی فلم سعودی وزارتِ میڈیا نے پچاس برس پہلے تیار کی تھی جسے اب  کنگ عبد العزیز فاؤنڈیشن فار ریسرچ اینڈ آرکائیو نے ریلیز کیا ہے۔

اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ سعودی عرب جو پہلے 10 نیم خودمختار حصوں میں بٹا ہوا تھا، وہاں اپنے ابتدائی ادوار میں کیسے ہسپتال، کلینکس اور تحقیقی ادارے بنائے گئے ، محدود مدت میں ان علاقوں میں پائی جانے  والے  وبائی امراض  اور مختلف بیماریوں کی تشخیص کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے کیسے ضروری سامان  کیسے مہیا کیا گیا تھا اور اس وقت ملک میں سب کا  مفت علاج کیسے    ممکن بنایا گیا تھا۔۔

پچاس برس قبل سعودی عرب نے پیٹرول نکلنے کے بعد جب انتہائی حیرت انگیز طور پر معاشی ترقی کے زینے چڑھے تب پیٹرول سے ملنے والے منافع میں سے تین کروڑ ڈالر سے زائد کی رقم سعودی عرب میں کام کرنے والے طبی عملے کے افراد کو دی گئی تھی تاکہ وہ ملک میں موجود مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کی خدمت کر سکیں۔

اس دستاویزی فلم میں سب سے زیادہ سعودی عرب میں موجود اس وقت ٹی بی (ٹیوبرکلوسس) کے مرض کے تدارک کی کوششوں کے حوالے سے بات کی گئی  ہے۔  سعودی عرب میں شعبہ طب پر ابتدا ء  میں کام شروع کرنے کے ایک سال کے اندر اندر ملک کے بیشتر علاقوں میں طبی سہولیات سے لیس موبائیل گاڑیاں گھومنے لگیں جہاں لگ بھگ بیس ہزار سے زائد ایکس ریز ہسپتال  اور کلینکس بھی قائم  کیے گئے تھے۔

پیٹرول سے منافع حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب نے بہت بر وقت اقدامات کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب میں اس وقت  سب سے موذی سمجھا جانے والا  مرض ٹی بی کے کیسز میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی تھی، اور ٹی بی سے متاثرہ افراد کو شہروں میں بنائے گئے ہسپتالوں میں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا تھا، جن میں سے ایک طائف کا” مستشفی  السعداد ” ہسپتال بھی تھا۔

ٹی بی پر قابو پانے کے بعد سعودی عرب کی وزارتِ صحت نے ملیریا کے تدارک پر کیسے کام کیا، تالاب اور کنوؤں میں، جہاں مچھروں کے انڈے موجود ہونے کا خطرہ ہوتا تھا، وہاں سپرے کرنے کے لیے تربیت یافتہ طبی عملہ بھیجا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ملیریا کے سینٹرز بھی قائم کیے گئے تھے، جہاں کیسز کو رپورٹ اور ریکارڈ  کیا جاتا تھا۔
اگر کسی شخص کو انفیکشن ہونے کا شبہ ہوتا تھا تو اس کے خون کا نمونہ لے کر اسے مقامی لیبارٹری بھیجا جاتا تھا۔ تصدیق ہونے کے بعد، وزارتِ صحت انہیں فوری ضروری ادویات دیتی تھی۔

کنگ عبد العزیز فاؤنڈیشن کی اس دستاویزی فلم میں سعودی عرب کی وزارتِ صحت کی دیگر کاوشوں کو بھی دکھایا گیا ہے، جس میں تشہیری اور آگاہی مہم کا بھی ذکر ہے۔ اس مہم سے آنکھوں کے مرض ٹریکوما کو کم کیا گیا تھا۔ دستاویزی فلم کے مطابق وزارت صحت نے صحراؤں میں رہنے والے خانہ بدوشوں، جن کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، اور ہر سال آنے والے زائرین کے لیے علاج کا طریقہ کار کیسے مربوط طریقے سے مرتب کیا۔ وزارت نے طبی سہولیات اور   طبی عملے سے لیس میڈیکل موبائیل گاڑیاں کیسے جگہ جگہ کھڑی کیں جہاں چھوٹے سے چھوٹے شہر اور گاؤں کے افراد علاج کروا سکیں۔

1957   میں سعودی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے قرنطینہ سینٹرز میں سے ایک جدہ میں قائم کیا، جس کی لاگت اس وقت  40 لاکھ ڈالر آئی تھی۔ صرف جسمانی بیماریوں پر ہی توجہ نہیں کی بلکہ سعودی حکومت کی کاوشوں میں ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کے لیے بھی اقدامات کیے گئے تھے۔

طائف کا مینٹل ہیلتھ ہسپتال 1960 کے اوائل میں کھولا گیا تھا اور وہ اب اس وقت مشرق وسطٰی کا سب سے بڑا ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کے علاج کا ہسپتال ہے۔

آج سعودی عرب پوری دنیا میں ایک مثالی اور منظم طبی نظام بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جہاں بین الاقوامی معیار کے مطابق تین کروڑ سے زائد سعودی شہریوں اور تارکین وطن اور ہر سال آنے والے لاکھوں زائرین کو طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

سعودی عرب نے خصوصا ً سرجری پر بھی بہت  دھیان دیا  ، آج سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر سرجریاں بھی کی جاتی ہیں جس میں جسم سے جڑے جڑواں بچوں کی سرجری بھی شامل ہے۔ سعودی عرب میں دنیا بھر سے لائے گئے ایسے بچوں کی درجنوں سرجریاں ہو چکی ہیں۔

خصوصا ًسعودی عرب یا دنیا بھر میں رہنے والے ڈاکٹرز دوستوں کو یہ دستاویزی فلم ضرور دیکھیں چاہیے۔ جس میں سعودی عرب کی پچاس سالہ میڈیکل سائنسز اور بیماریوں اور وباؤں سے نمٹنے کی جدوجہد کی کاوش کو سمجھا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلاشبہ سعودی عرب آج دنیا بھر میں اپنے شہریوں کو بہترین علاج و معالجہ فراہم کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply