کیا کتابیں بولتی ہیں ؟-گل رحمٰن

آج ایک بات سمجھ میں آ گئی ۔کتابوں کی زبان نہیں ہوتی ،کتابوں کا دل ہوتا ہے۔کیونکہ کتاب آپ سے باتیں نہیں کرتی ، وہ تو بس یہاں وہاں بالکل چُپ چاپ خاموشی سے پڑی رہتی ہے۔کسی ادھیڑ عمر شخص کی مانند جو فقط انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی آئے اور اُس کے پہلو میں بیٹھے۔ ہم نوالہ ،ہم پیالہ ہو اور پھر دھیرے دھیرے سے بڑے میاں اپنے دل کی ہر بات زبان پر لے آئیں۔یاداشت کی کُنجی سے ماضی کے درکھولیں جہاں سے پھر چہکتی مہکتی یادیں باہر آئیں ۔ اپنے قصوں کی پٹاری سے سوز و گدازکا انبار نکالیں اور دھیرے دھیرے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیں،اور یہی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اپنے ہمراہ نا جانے کہاں کہاں کی سیر کروا لائیں ۔

اب کچھ دہائی ہی پیچھے لے لو ، موصوف حسن و جمال ، فن و تعمیر ،سمجھداری کے علمبردار اور بُردبار انسان ہوا کرتے تھے ۔نام نہاد دوستوں میں مقبول اور کتنوں کے منظور نظر بھی رہے ۔ محبت کرتے تو قصہ عام ہو جاتا ورنہ بیچاروں کی قسمت میں بدنامی ہی لکھ دی جاتی ۔کہیں بے پرواہی کے چونچلے، کہیں ذمہ دار برادران ثابت ہوتے ۔کبھی درد کہہ دیا تو کبھی شادمانی ۔کبھی پُرسرارہوئے تو کبھی با وقار مان لیے جاتے ۔

اور اگر کچھ نہ ہو سکے تو وہ تھے مشہور و مقبول ! اور اُس بات کا احساس انہیں سر شام ہوا۔۔اور صاحب یہ شام بھی انُکی عمر کی شام ہی تھی !

اُن جیسی ہی کچھ کتابوں سے ملنے کا شرف مجھے بھی حاصل ہوا۔ غالباً   تحفتاً ملیں مگر مانئے نہال ہو گئی۔ایک کتاب کے ساتھ توایک نشست کرنے کا موقع بھی ملا ۔ایک دن لب بستہ چپ چاپ آنکھیں موندے شیلف میں کھڑی تھی ۔ مانو کُچھ سوچ رہی ہو۔

میں نے ہمت جُٹائی اور دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔

کیسی ہو ؟

میری آواز نے جیسے اُسے جھنجوڑ دیا ۔ یکدم سوچوں کی وادی سے بھاگتی ہوئی واپس آئی اور فرمایا ” جی اچھی ہوں “۔ اُس کےسکوت کو ٹوٹتے دیکھا تو میں نے اگلا سوال کر ڈالا۔

اے محترمہ! اتنی گُم سُم الگ تھلگ کیوں پڑی ہو باقی سہیلیوں کو دیکھو گویا مینا بازار دیکھنے آئی ہوئی ہوں۔

بولی  ۔تو جائیے !آپ رونق اورخوشیوں کی دلدادہ محسوس ہوتی ہیں ۔ جا کے گُھل مل بیٹھیے ، ہنسی ٹھٹھاکیجیے۔ کچھ اُن کی سُنیے کچھ اپنی کہیے ۔کیا کہوں زمانہ ہی ایسا ہے تیز طرار ،عُجلت پسند ، چمک دمک کا شوقین ۔

آج نئی نئی تخلیقات ،ایجادات کا دور ہے ہر چیز کو وقت کے پلڑے میں تولا جاتا ہے ۔ روبوٹ بناتے بناتے انسان خود بھی ایک روبوٹ بن چکا ہے ۔ بے دل ، بے حس ، بے جان ۔ ایک زمانہ تھا خاموشی کی بھی زبان ہوتی تھی پھر الفاظ نے جنم لیا اور اب برقی آلات ہی فکرو تمدن کے مواصلات بنے پڑے ہیں ۔ ایک انسان سے دوسرے انسان تک کا سفر آجکل انہی  تکنیکی مشینوں سے ہو رہا ہے ۔ سوچیےآخر اُن میں وہ باتوں کی مٹھاس ، لہجوں کی حلاوٹ ، انداز ِ بیاں کی شیرینی کہاں پائی جاتی ہے ۔حتیٰ  کہ کہنے کو برقی تاریں ہیں لیکن دل سے دل کا تار تک نہیں جُڑ پاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بجا فرما رہی ہو میں بولی ! شاید میں اب آپ کا دکھ سمجھ سکتی ہوں ۔ کاش نئی نسل بھی یہ سمجھ سکے کہ آج بھی جذبات لفظوں اور گفتگو سے جُڑے ہوئے ہیں اُن کو خدارا  ٹیکنا لوجی کے ڈبوں تک محدود نہ رکھیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply