قصہ شہر بدر کا(8)-شکور پٹھان

جلاوطنی کی اس داستان کی پچھلی قسط میں یاروں سے پوچھا تھا کہ یہ قصہ جاری رکھوں یا آپ میں مزید سننے کی تاب نہیں ۔ کہیں سے کوئی جواب نہیں تو میں نے بزعم خود اس خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا یعنی کہ آپ کی جانب سے ہاں ہی سمجھا۔ اب آپ سنیں یا نہ سنیں مجھے تو یہ کہانی سنانی ہی ہے کہ بہت دنوں سے کچھ لکھا نہیں اور بغیر لکھے طبیعت میں جو انقباض پیدا ہوتا ہے وہ اہلِ  درد ہی جانتے ہیں ( میرے نوجوان دوست انقباض کے معنی پڑوس کےحکیم صاحب سے پوچھ لیں، مجھے بتاتے شرم آتی ہے)۔

بنک کے معمولات تو پچھلی قسط میں بتا دئیے۔ انہی دنوں چچا کہیں سے یوسفی صاحب کی “ زرگزشت” لے آئے۔ چچا ویسے ہی یوسفی صاحب کے معتقد اور بحرین کے ادبی حلقوں میں یوسفی صاحب کے حافظ سمجھے جاتے تھے کہ انہیں “ چراغ تلے” اور “خاکم بدہن” لفظ بہ لفظ یاد تھیں اور پاکستان کلب کی ادبی نشستوں میں چچاسے ان کتابوں کے اقتباسات سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔
“زرگزشت” پڑھنا شروع کی تو یوں لگا جیسے مشتاق احمد یوسفی نے یونائیٹڈ بنک، باب البحرین برانچ کا قصہ لکھا ہے۔برانچ کا نقشہ بعینہ وہی تھا جو زرگزشت میں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ یوسفی صاحب والے بنک کے “ گردوں کی شکل کے سوراخ والے ، کثیرالمقاصد” اسٹول کی جگہ گھومنے والی آرام دہ کرسیاں تھیں۔ اور باس کے دفتر میں “ اینڈرسن” جیسے خرانٹ کی جگہ عارف مقصود جیسی نرم خو اور شفیق ہستی تھی۔

اور پھر ایک تماشہ یہ ہوا کہ میں خود زرگزشت میں بیان کئے ہوئے ایک واقعے کا کردار بن گیا۔ یوسفی صاحب نے بنک میں رت جگوں کی کتھا لکھتے ہوئے ایک جگہ ذکر کیا تھا حسابات مکمل کرتے ہوئے بعض اوقات فرق لاکھوں کا ہوتا جو سکڑتے ہوئے آنے ، پیسوں اور پائی کا رہ جاتا جو اور زیادہ جان لیوا ہوتا۔ ایک دن ان کے ساتھی نحاس پاشا کنجو نے اپنی جیب خاص سے ایک پائی ڈال کر حساب برابر کردیا۔ اس رات سب ہنسی خوشی گھر چلے گئے لیکن وہ ایک پائی کئی دنوں تک“ مقتول” کی پھولی ہوئی لاش کی طرح “سطح حساب” پر تیرتی رہی۔

یہ جوانی کی راتیں، مرادوں کے دن تھے ، کچھ نا تجربہ کاری اور کچھ اپنی ازلی کم عقلی۔ ایک رات پانچ فلس ( پانچ پیسے سمجھ لیں) اپنی جیب سے ڈال کر حساب برابر کردیا۔ لیکن وہ کم بخت ہرروز سامنے آجاتے۔ دوتین دن تک یہی جعلسازی کرتا رہا کہ ایک خبر نے ہوش اڑادئیے۔
یہ خبر بحرین کے ادب دوستوں کے لئے خوش خبری تھی لیکن میرے لئے اتنی خوش کن نہیں تھی۔ خبر یہ تھی کہ بنک کے چیئرمین جناب مشتاق احمد یوسفی بحرین تشریف لارہے ہیں اور وہ ہماری برانچ کا بھی دورہ فرمائیں گے۔ بنک میں تو یوسفی صاحب اور ان کی شخصیت کے بارے میں باتیں ہوتیں لیکن مجھے فکر پڑ گئی کہ اگر میری غلطی یوسفی صاحب نے پکڑ لی تو کہیں کا نہ رہوں گا۔ اب بھلا یوسفی صاحب کون سے یہاں حسابات کی جانچ کرتے، لیکن تازہ تازہ پڑھائی سے فارغ ہوا تھا جہاں انسپکٹر آف اسکولزکے دورے کے دن نہا دھوکر، دانت اچھی طرح مانجھ کر، ناخن تراش کر اور کتابوں پر جلدیں چڑھا کر صاحب بہادر کا انتظار اور استقبال کرتے کہ وہ کسی بھی طالب علم سے کوئی سوال کرسکتے تھے۔

یوسفی صاحب کی آمد کی خبر تھی اور میری نیند یں اُڑی ہوئی تھیں۔ وہ کم بخت پانچ پیسے کہیں سے برابر ہوکر ہی نہیں دے رہے تھے۔ آخر روز حساب آہی گیا اور یوسفی صاحب ہماری برانچ کے دورے پر تشریف لے آئے۔ کچھ دیر عارف صاحب اور امتیاز صاحب سے گفتگو کے بعد وہ برانچ کے تمام شعبوں کے گشت پر چلے گئے ۔ میرے پاس سے بھی گذرے، میں نادم، شرمندہ سا اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ انہیں سلام کیا جس کا جواب انہوں نے خفیف سی مسکراہٹ سے دیا اور آگے بڑھ گئے تومیری جان میں جان آئی۔

لنچ کا وقفہ خاصا طویل ہوتا تھا۔ میری بنک کی ملازمت مستقل اور باقاعدہ نہیں تھی نہ میں نے ابتداء میں یہ جاننے کا تردد کیا تھا۔ وہ تو کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ میں بطور casual labour بھرتی کیا گیا ہوں۔ اس لئے مجھ سے ویزا وغیرہ کے متعلق نہیں پوچھا گیا تھا۔ ان دنوں بحرین ہی نہیں دیگر خلیجی ممالک میں بھی لیبر قوانین بہت نرم تھے۔ ملازمت کے لئے ویزا منتقل کرنے کی شرائط نہیں تھیں۔ میں لنچ ٹائم میں باب البحرین کے آس پاس کے بنکوں اور دفتروں کے چکر لگاتا اور وہاں ملازمت تلاش کرتا۔ ان دنوں چونکہ یہ معمول کی بات تھی چنانچہ اس طرح بغیر اپائنمنٹ کے چلے آنے پر کوئی برا نہ مناتا نہ جھڑکتا یا بدتمیزی کرتا۔ اگر کوئی جگہ خالی ہوتی تو بیٹھ کر باقاعدہ انٹرویو لے لیتے یا معذرت کرلیتے۔

ایک دن یونہی الجمین بنک نیدرلینڈ ( موجودہ اے بی این امرو) جا پہنچا۔ وہاں کے ولندیزی جنرل مینیجر نے اپنے کمرے میں بلا کر انٹرویو کیا اور وہ خاصہ مطمئن نظر آتا تھا۔ اس نے پوچھا کہ “ ٹیلیکس” آپریٹ کرنا آتا ہے۔ یہ اس ملازمت کی ضرورت تھی۔ یاد رہے یہ قصہ ۱۹۷۶ کا ہے اور میں پاکستان سے تازہ تازہ یہاں آیا تھا۔ہوسکتا ہے پاکستان میں بنکوں وغیرہ میں ٹیلیکس آگیا ہو لیکن میں جس چیز سے واقف تھا وہ تھا ٹیلیگرام یعنی تار۔ ٹیلیکس نام کی کسی چیز کو نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا۔ ٹیلیکس سے میری ناواقفیت جان کر انہوں نے معذرت کرلی۔ یہاں تنخواہ یو بی ایل سے دگنی سے زیادہ تھی۔
بنک آکر تمام احوال مبین بھائی کے گوش گذار کیا۔ کہنے لگے ، بیوقوف آدمی، تمہیں ٹائپنگ آتی ہے۔ عرض کیا جی ہاں۔ کہنےلگے تو پھر ٹیلیکس میں کیا مصیبت ہے وہ بھی ٹائپ رائٹر جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں ان دنوں کی بینکنگ اور دفتروں کا حال اور آج کی جدید تکنالوجی کا۔ ان دنوں الیکٹرک ٹائپ رائٹر بھی ایک عیاشی تھے۔ برانچ میں کیلکولیٹر نام کی کوئی چیز نہیں تھی ہاں ایک جناتی سا Oliviti کا کیش رجسٹر تھا جس پر “اسرپھ بھائی” (اشرف) بیٹھے کپڑے کی کھڈی کی طرح دھڑادھڑ کچھ پوسٹ کرتے تھے۔

ایسے ہی ایک اشتہار دیکھ کر ایک بڑی کمپنی کے انٹرویو کے لئے ہلٹن ہوٹل جا پہنچا جو ان دنوں بحرین کا واحد پنج ستارہ ہوٹل تھا اور نیا نیا تعمیر ہوا تھا۔ انٹرویو سے پہلے ایک مختصر ساتحریری امتحان تھا۔ میرے ساتھ ہی کچھ شوخ سی بحرینی ( ایرانی النسل) لڑکیاں تھیں جو بڑی بے باکی سے مجھ سے مختلف سوالات کے بارے میں مدد لے رہی تھیں۔ پاکستان میں کبھی “غیر عورتوں” سے اس طرح باتیں نہیں ہوئی تھیں۔ ان نازنینان کی ہم نشینی نے طبیعت پر بڑا خوشگوار اثر ڈالا اور جب اندر ایک بارعب گورے نے انٹرویو کے لئے بلایا تو طبیعت خاصی ہشاش بشاش تھی۔
یہ گورا بظاہر بڑا رعب دار تھا کہ پہلی بار باقاعدہ کسی گورے کا سامنا ہوا تھا اور ہمیں تو ہر معمر گورا صدر جانسن جیسا نظر آتا تھا۔ لیکن گورے نے بڑی نرمی سے بات کی۔ دراصل پاکستان میں فرعون نما صاحب لوگوں کو دیکھ کر جو انٹرویو کے وقت خود کو فرمانروائے عالم سمجھے بیٹھے ہوتے تھے اور ہم جیسے ضرورتمندوں سے نرمی اور شرافت سے بات کرنا اپنے  منصب کے منافی سمجھتے تھے، ہر صاحب نما شخص سے ڈر ہی لگتا تھا۔ لیکن کسی وجہ سے یہاں بھی بات نہیں بنی۔ شاید میری تعلیم اور تجربہ اس ملازمت کے لئے مناسب نہیں تھے۔

اسی ہلٹن میں ایک گورا سا پاکستانی لڑکا جاوید بھی کام کرتا تھا جو میرا تقریباً ہم عمر تھا۔ جاوید زبیری اس سے قبل ہماری یو بی ایل کی برانچ میں ہی کام کرتا تھا اور شاید پاکستان میں بھی یو بی ایل میں ہی تھا۔ جاوید اکثر یہاں اپنے پرانے دوستوں، خاص کر مبین صاحب سے ملنے آتا کہ دونوں کراچی کے تھے۔
ہلٹن ہوٹل کے انٹرویو کے بعد ایک دن جاوید مبین بھائی سے بات کررہا تھا کہ میں نے یونہی کہہ دیا کہ یار ہمارے لئے بھی ہلٹن میں کوئی نوکری ہو تو بتاؤ۔ جاوید کہنے لگا کہ ہاں ہلٹن میں نائٹ آڈیٹرز کی ضرورت تو ہے ۔ جاوید خود بھی یہی کام کررہا تھا۔ جاوید کی بات سن کر میں اپنے کام میں مشغول ہوگیا ۔ مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ مبین بھائی ہم دونوں کی باتیں سن رہے تھے۔ بھڑک کر بولے “ عجیب گھونچو آدمی ہو۔ وہ بتا رہا ہے کہ نوکری ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو”۔
میں نے عرض کیا کہ گھر جا کر ایپلیکیشن بھیج دوں گا۔ کہنے لگے “ایپلیکشن، ویپلیکیشن رہنے دو۔ ابھی جاؤ ہلٹن”
“ ابھی تو کام کررہا ہوں ، کیسے جاسکتا ہوں” میں نے کن انکھیوں سے قدوس صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“تم جاؤ، تمہارا کام میں دیکھ لوں گا” انہوں نے قدوس صاحب سے میرے لئے اجازت لے لی۔ قدوس صاحب کچھ نہیں بولے۔
میں اٹھنے لگا تو مبین بھائی نے ٹوکا “ یوں منہ اٹھائے نہ چلے جانا۔ گھر جاؤ اچھی طرح سے تیار ہوکر اور ٹائی وغیرہ پہن کر جاؤ”۔
یو بی ایل کے بعد مبین بھائی سے چند ایک بار ہی ملاقات ہوئی لیکن جن چند مہربانوں کی یاد دل میں ہمیشہ بسی رہتی ہے ، مبین بھائی ان میں سے ایک ہیں۔ اتنی اپنائیت بھلا کون دیتا ہے۔ اللہ جانے وہ کہاں ہیں۔ جہاں بھی ہیں خدا انہیں شاد رکھے۔
ہ

Advertisements
julia rana solicitors

لٹن ہوٹل میں جانا تو اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں تھا لیکن سیکیورٹی آفس والوں نے پرسنل منیجر مسٹر وار برٹن کے پاس بھیج دیا۔ وار برٹن ایک بے حد اسمارٹ، خوبصورت، ہیرو نما انگریز تھا اور جتنا خوش شکل تھا اتنا ہی خوش اخلاق و خوش خصال بھی تھا۔ میرے کاغذات دیکھے۔ ایک دو سوالات کئے۔ ویزا کے متعلق پوچھا کہ ہم اگر اپنے یعنی ہوٹل کے نام کرنے کہیں گے تو تمہارا کفیل راضی ہوگا یا نہیں۔ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ مثبت جواب پاکر کہا کہ اوپر اکاؤنٹس میں جاکر مسٹر فلاں سے مل لو ( مسٹر فلاں کا دراصل مجھے نام یاد نہیں آرہا کہ وہ بہت مختصر عرصے کے لئے رہے تھے) ۔
فائنانس کنٹرولر ایک ادھیڑ عمر عرب یا ترک تھے۔ انہوں نے کوئی سوال کئے بغیر کہا کہ کل سے آنا۔ ایک ہفتے تمہاری ٹریننگ مختلف “ آؤٹ لیٹس” میں ہوگی پھر تمہاری نائٹ ڈیوٹی ہوا کرے گی۔
اگلے دن سے گوروں کے ساتھ کام کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کا اختتام چوالیس سال بعد دوبئی میں ہوا۔ ہلٹن ہوٹل بحرین اور اس کے دنوں اور راتوں کی کہانی بشرط زندگی اگلی قسط میں۔
جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply