قصّہ شہر بدری کا(7 )-شکور پٹھان

یہ قصہ چھیڑ تو دیا تھا،لیکن اس کی ممکنہ طوالت دیکھ کر میری ہمت جواب دے گئی تھی۔ پھر کچھ ایسے حالات ہوئے کہ تمام دوستوں ہی سے رابطہ ختم ہوگیا۔ آج تقریباً ڈیڑھ سال بعد یہ داستان شروع کررہا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پہ تمام کروں۔

یونائٹڈ بنک میں نوکری شروع ہوگئی ۔ بحرین نوکری کرنے آیا تھا لیکن ذہن میں کہیں یہ نہیں تھا کہ یہاں آکر کس قدر جدوجہد کرنا ہوگی۔ پاکستان میں در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد تو مجھے بہت فکر مند ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں آکر تو نوکری کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اسی بے فکری کا صلہ قدرت نے یہ دیا کہ ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ یو بی ایل میں بیٹھا مختلف حسابات دیکھ رہا تھا۔ مالک الملک نے بتادیا کہ رزق دینے والا میں ہوں ، جب چاہوں اور جس طرح چاہوں، صرف اور صرف میری ذات ہے جو اس پر قادر ہے۔

البتہ کراچی والی عیاشی کا پانی اچھی طرح اتر گیا تھا کہ جتنے بجے جی چاہا دفتر پہنچے، کام کیا، نہ کیا، نہ کوئی پوچھتا تھا نہ ہم نے کبھی پرواہ کی۔ یہ پردیس تھا، یہاں صرف کام ہی کے ذریعے جیا جاسکتا تھا ورنہ بوریا بستر سنبھالو اور گھر کی راہ لو۔ میں سنجیدگی سے کام سیکھ رہا تھا کہ یہ کوئی پاکستان کا سرکاری محکمہ نہیں، بنک تھا، جہاں غلطی کی گنجائش نہیں تھی۔

میں وقت پر پہنچتا اور سر جھکائے  کام کرتا رہتا۔ سوائے ان کے جو کاؤنٹر پر مصروف ہوتے بنک کے دیگر لوگ یہاں وہاں کی باتیں بھی کرتے۔ رہے میرے باس قدوس صاحب تو وہ مرد مجاہد یہاں بھی پاکستان کی طرح مزے کرتے نظر آتے۔ دراصل ان کا سارا کام اب میں کرتا تھا۔وہ صرف دستخط کرتے تھے۔ انہیں اب کام کی جانب سے بے فکری ہوگئی تھی اور وہ تقریباً پورا وقت اپنے ہوٹل کے معاملات دیکھنے میں صرف کرتے اور سارا دن، چاول، گوشت، مصالحے اور نوکروں کے ویزا، ورک پرمٹ کے بارے میں ہدایات دیتے رہتے۔ درمیان میں صدیق بھائی سے سیاست اور دیگر موضوعات پر گفتگو کرتے لیکن یہ اکثر میرے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا۔

لفظ” تعصب” کے معنی مجھے اب سمجھ آرہے تھے۔ قدوس صاحب مجھے پٹھان سمجھتے تھے چنانچہ اطمینان سے اردو بولنے والوں اور سندھیوں کے بارے میں اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے رہتے جنہیں سن کر میں تلملا اٹھتا لیکن خاموش رہتا۔ وہ میرے افسر تھے۔ پہلے دن ان کی بات سن کر میں خاموش رہا تھا لیکن گھر میں چچا سے اس کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکا۔ چچا نے سمجھایا کہ پاکستانی اداروں میں کام کروگے یا پاکستانی حلقوں میں اٹھو بیٹھو گے تو ان باتوں کا سامنا کرنا ہی پڑے گا اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ سنی ان سنی کردو۔ چچا بحرین کے پاکستان کلب کے رکن تھے اور وہاں بھی تقریباً یہی حالات تھے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے دوست پاکستان کلب میں انہی وجوہات کی بناء پر کم دلچسپی لیا کرتے تھے۔

دفتر کے اوقات البتہ ایک مسئلہ تھے۔ دوپہر کے کھانے کے لئے گھر آتا اور اتنا وقت بچتا تھا کہ ایک نیند لے لوں۔ لیکن دوپہر کی نیند بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اکثر اٹھنے میں دیر ہوجاتی اور چچا کی ڈانٹ پر آنکھ کھلتی اور میں منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا دفتر کی جانب دوڑ لگاتا۔ کچھ دنوں میں کام میں مہارت ہوتی گئی تو میں نے امتیاز صاحب اور مبین صاحب کی اجازت سے یہ طریقہ نکالا کہ بجائے لنچ کے لئے گھر جانے کے، اپنا کام مکمل کرکے گھر جاتا۔ اب میں فارغ ہوتا لیکن شام کو بنک آکر وطن رقومات بھیجنے والے محنت کشوں کا ہاتھ بٹاتا۔
مراد علی البتہ اکثر میرے پاس آکر مجھے حالات حاضرہ یعنی آنے والی فلموں کے بارے میں اطلاعات بہم پہنچاتا۔ ساتھ ہی مجھے بتانا نہ بھولتا کہ پران بلوچ ہے۔ اس کے پسندیدہ اداکار پران اور راج کمار تھے۔ اس نے بتایا کہ راج کمار بھی بلوچ ہے۔

آخر ایک دن میں پوچھ ہی بیٹھا کہ پران اور راج کمار بلوچ کیونکر ہیں۔ راج کمار کے بارے میں تو اس نے بتایا کہ اس کی پیدائش ہمارے لورالائی، بلوچستان کی ہے۔
“ آپ اس کا شکل دیکھو، بالکل بلوچ لگتا ہے” مراد علی نے دوسرا ثبوت فراہم کیا۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں بھلا کیا کہتا۔ میں نے اس وقت تک راج کمار کی کوئی فلم ہی نہیں دیکھی تھی۔
“ اچھا اور پران کہاں پیدا ہوا تھا؟” پران کی دو تین فلمیں میں نے دیکھ لی تھیں۔
“ آپ نے فلم “ جس دیش میں گنگا بہتی ہے” دیکھا ہے؟”
“ نہیں”
“ ابھی نیا فلم آیا ہے امیتابھ بچن کا، مجبور، وہ دیکھا ہے؟”
“ ہاں وہ دیکھا ہے”
“ دلیپ کمار کا “ آدمی” دیکھا ہے؟”
“ ہاں وہ بھی دیکھ لیا ہے”
مراد علی نے تین چار اور فلموں کے نام لئے اور بتایا کہ ان تمام فلموں میں آپ دیکھو گے کہ کتنی بھی مشکل ہو، پران بندوخ (بندوق )نہیں پھینکتا ہے۔
“ ہاں تو ؟ اس کا کیا مطلب”
“ بلوچ بھی کبھی بندوق نہیں پھینکتا” مراد علی نے فخر سے بتایا۔
اس بات چیت کو آج چھیالیس سال ہوگئے۔ بلوچوں نے اب تک بندوق نہیں پھینکی ہے۔ خدا جانے وہ دن کب آئے گا جب بندوق کی جگہ کتاب لے گی۔

چھٹی کے دن چچا ، چچی اور بچوں کے ساتھ گذرتا یا پھر دوستوں اور رشتہ داروں کی جانب نکل جاتا۔ اتفاق سے ایک ہی سڑک پر یکے بعد دیگرے تقریباً سارے ہی جاننے والے رہتے تھے۔ قریب ہی چچا کے کچھ ہندوستانی کوکنی دوست رہتے تھے جن سے میری بھی جان پہچان ہوگئی تھی۔ کچھ آگے چل کر یو بی ایل کے ساتھیوں کی رہائش گاہیں تھیں جو نسبتاً عام لوگوں کی رہائش سے بہتر تھیں۔ میرا بھی جی چاہتا کہ مجھے بھی ایسا ہی گھر مل جائے۔ بچپن سے ہوسٹل میں رہنے کی خواہش تھی۔ یہ لڑکے خود ہی مزے مزے کے کھانے بناتے۔ میں نے کڑھائی گوشت پکانا انہی سے سیکھا۔ فارغ وقت میں تاش اور کیرم وغیرہ کی بازی جمی ہوتی۔ شام کو سب با جماعت فلم دیکھنے جاتے۔ اس گھر سے کچھ آگے بلکہ اس سڑک کے آخری سرے پر میری ماموں زاد بہن کا گھر تھا ۔ان کے شوہر میرے ابا کے چچا زاد بھائی تھے۔ یوسف کا گھر البتہ کچھ ہٹ کر “حورہ” کے علاقے میں تھا۔ وہاں بھی یہی نقشہ ہوتا۔ شام کو یوسف وغیرہ بھی فلم دیکھنے جاتے۔ انہیں یو بی ایل والوں سے زیادہ فلموں کا شوق اور معلومات تھیں کہ یہ بہت پہلے سے یہاں تھے۔

ایک دن لیاقت بنک نہیں آیا۔ وہ بیمار تھا۔ میں لنچ کے دوران اسے دیکھنے چلاگیا۔ وہ بستر پر اوندھے منہ پڑا فرش کو تک رہا تھا۔ پوچھا کہ اسے دوائی اور کھانا وغیرہ کون دے رہا ہے؟۔
“ کون دے گا؟ “ لیاقت نے ایک حزیں سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور میرے دل پر گھونسا سا لگا۔

پہلی بار پردیس کی تنہائی اور بے چارگی کا احساس ہوا۔ میں تو مزے سے چچا کے ساتھ رہ رہا تھا۔ چچی تھیں بچے تھے۔ میری ماموں زاد بہن اور ابا کے کزن وغیرہ بھی تھے۔ لیاقت جیسے کتنے تھے جو وطن سے، گھر والوں سے دور پردیس کے دکھ سہہ رہے ہونگے۔
یہاں دوستیاں بہت جلد ہوجاتی تھیں۔ چھوٹا سا شہر تھا۔ کسی سے سںنیما کی لائن میں ملاقات ہوگئی، اگلے دن وہ بنک میں نظر آیا، شام کو کسی ریسٹورنٹ یا دوست کے گھر ملاقات ہوگئی اور لیجئے دوستی ہوگئی۔ تقریباً ہر کوئی چچا کو جانتا تھا اور ان کے تعلق سے ہی کئی دوستیاں ہوجاتیں۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ کسی کو چچا سے ملواتا اور کچھ دن بعد وہ مجھ سےزیادہ چچا کے قریب ہوجاتا کہ چچا کی شخصیت ہی ایسی تھی۔ وہ اکثر لوگوں کے کام آتے۔ہر ایک سے بہت اپنائیت سے ملتے۔ بحرینیوں کی چچا سے محبت آج بھی ویسی ہی ہے۔
بحرین چھوٹا سا شہر تھا اور یہاں کوئی ایسی قابل ذکر تفریحی مقامات نہیں تھے۔ قصباتی طرز کے بازار تھے۔ پرانے اور ٹوٹے پھوٹے اور کچھ نئے سنیما تھے یا پھر دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر تھے۔

پاکستان کلب میں کبھی کبھار پاکستان سے آئے ہوئے کسی فنکار کا شو ہوتا۔ ہماری واحد تفریح سنیما تھی اور شام کو کام ختم کرکے ہم سنیما کا رخ کرتے۔ چلتے چلتے فلم آدمی کا ایک مزیدار قصہ سن لیں۔
جس دن یہ فلم لگی، مطلع صبح سے ابر آلود تھا بلکہ صبح سے رم جھم جاری تھی۔ شام کو بادل گہرے سیاہ ہوگئے یعنی بارش کا سوفیصد امکان تھا۔ “آدمی” دلیپ کمار کی فلم تھی اور دلیپ کمار کی فلم قضا کرنا یاروں کے نزدیک ناقابل معافی گناہ تھا۔ ہم کوئی آدھے درجن کے قریب دوست النصر سنیما کی جانب رواں دواں تھے۔ اس سنیما کی چھت نہیں تھی۔ بارش کے امکان کے پیش نظر ہم سب نے چھتریاں ساتھ لے لی تھیں ۔ میں نے راستے سے ہی نئی چھتری خریدی جو دینار ڈیڑھ دینار میں مل جاتی تھی۔

راستے میں تو خیر رہی۔ فلم شروع ہوئی اور کہانی آگے بڑھنے لگی۔ فلم میں ایک سین کاروں کی ریس کا تھا۔ ریس شروع ہوتے ہی آسمان پر بادل گرجنے لگے اور موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ ہم کچھ آگے کی رو میں بیٹھے تھے۔ جھٹ سب لڑکوں نے چھتریاں تان لیں۔ پیچھے والے تماشائیوں نے شور مچانا شروع کیا کہ چھتریاں بند کرو، ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا، لیکن آدھے درجن لڑکوں سے ٹکر لینے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ لچھ دیر میں ریس ختم ہوگئی اور عین اسی وقت بارش بھی رک گئی۔ ہم نے بھی چھتریاں بند کرلیں۔

اوال سنیما جو کہ نیا سنیما تھا ( اب یہاں بھی شاپنگ سینٹر بن گیا ہے) یہاں “ شعلے” لگی جس کی ابھی تازہ تازہ ہندوستان میں نمائش ہوئی تھی اور اس کی شہرت یہاں بھی پہنچ چکی تھی۔ مراد علی کے ذریعے پورے بنک کے اسٹاف نے اس فلم کی بکنگ کروا رکھی تھی ۔ عارف صاحب اور دیگر افسران کی بیگمات بھی شامل تھیں۔ سنیما کی دو صفیں ( rows ) یو بی ایک کے اسٹاف سے پر تھیں۔ ہم نے سکون سے یہ فلم دیکھی اور واقعی بہت لطف اٹھایا۔ پھر ایک لطیفہ ہوا۔

بحرین میں اکثر سنیماؤں میں فلمیں صرف ایک دن کے لئے لگتی تھیں اور پرانے سنیماؤں میں صرف ایک شو ہوتا تھا۔نئی فلمیں صرف نئے سنیماؤں یعنی “ اوال” اور “ اندلس “ ( عیسی ٹاؤن) میں لگتی تھیں اور اکثر دو یا تین دن لگتی تھیں۔ شعلے شاید چار یا پانچ دن کے لئے لگی تھی۔ یہاں ایرانی لڑکے سنیماؤں کے ٹکٹ بلیک کیا کرتے تھے۔ شعلے کی نمائش کے پہلے تین دن چھ سو فلس والا ٹکٹ دو۔ ڈھائی دینار میں بلیک ہورہا تھا اور یہ لڑکے خوب کمار ہے تھے۔
اتفاق سے چوتھے دن زبردست بارش ہوئی اور بحرین کی کئی گلیوں میں پانی کھڑا ہوگیا۔ سب سے زیادہ یعنی گھٹنوں گھٹنوں پانی اوال سنیما والی گلی میں تھا۔سنیما تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہ آتا تھا۔ بہت سی فیملی جنہوں نے ایڈوانس بکنگ کروا رکھی تھی، سینما تک نہ پہنچ سکیں۔ بلیک کرنے والے لڑکوں نے پہلے دنوں کا رش دیکھ کر بہت سارے ٹکٹ خرید رکھے تھے لیکن یہاں تو کوئی آنے کوتیارنہیں تھا۔ گلی کے نکڑ پر یہ ایرانی ہر آنے جانے والی کی منت سماجت کررہے تھے کہ خدا کے واسطے ٹکٹ لے لو۔ چھ سو فلس کا ٹکٹ جو وہ دو ڈھائی دینار میں بیچنا چاہتے تھے اب چار سو بلکہ دو سو فلس میں بیچنے کو تیار تھے لیکن کوئی خریدار نہ ملتا تھا۔

یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں زندگی کی بہت سی حقیقتیں سکھا جاتی ہیں۔ یاد پڑتا ہے چند سال پہلے (شاید ۲۰۰۹ میں)جب دوبئی میں پراپرٹی کا کاروبار اپنے عروج پر تھا، ہمارے پاکستانی بھائیوں نے کروڑوں اربوں ڈالر ، زیادہ تر غیر قانونی طریقوں سے ،دوبئی پہنچائے تھے اور پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں زرمبادلہ کی تشویشناک حد تک کمی ہوگئی تھی۔ ادھر قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ دوبئی شدید کساد بازاری کا شکار ہوا۔ جن لوگوں نے تعمیراتی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کررکھی تھی انہیں مکانوں کے لئے خریدار نہیں مل رہے تھے۔ اکثر کا پیسہ ڈوب گیا۔ یہ وہ پیسہ تھا جو پاکستان کی معیشت کے لئے خون کا درجہ رکھتا تھا۔
اپنے بھائیوں کی بربادی پر دکھ ہونا چاہئیے تھا لیکن مجھے نجانے کیوں ایک کمینی سی خوشی ہورہی تھی۔
خیر یہ تو یونہی ایک بات یاد آگئی۔ بات تو بحرین کی ہورہی تھی۔ اگر بحرین کی یادوں کا یہ سلسلہ آپ کو پسند ہے تو اسے جاری رکھنے کی کوشش کروں گا۔ بصورت دیگر اجازت دیجئے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply