ایک پاکستانی نوجوان برطانیہ کے سکول میں/ڈاکٹر راحیل احمد

18 سال پہلے میں نے برطانیہ میں اپنی آٹھویں جماعت کی تعلیم شروع کی۔ اس سے پہلے میں سینٹ انتھونی کالج لاہور میں پڑھتاتھا۔ یہ وہی سکول ہے جہاں سے پاکستان کی کئی نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی ،جن میں تین بار وزیر اعظم نواز شریف،موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف، سابق آرمی جنرل راحیل شریف، ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سابق گورنر سلمان تاثیر،سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ، 65 جنگ کے ہیرو سیسل چوہدری اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ مجھے ایک پاکستانی طالب علم ہونےپر بہت فخر تھا۔

میرے برٹش  سکول کے پہلے دن جیسے ہی استاد کلاس میں آئے، میں نے کھڑے ہو کر کہا ’’گڈ مارننگ سر‘‘۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کلاس کے باقی بچے مجھ پر ہنس رہے تھے۔ استاد نے جلدی سے کہا راحیل بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ برطانیہ کے  سکولوں میں طلباء سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کھڑے ہوں یا اساتذہ کو گڈ مارننگ بولیں۔ درحقیقت اساتذہ کو کوئی سر ، یا میڈم بھی نہیں کہتا۔ کام کی جگہ پر بھی ایسا ہی ہیں۔ لوگوں کو ان کے پہلے ناموں یا سر نیم سے پکارا جاتا ہے۔ کسی شخص کوصرف اس وقت سر کہا جاتا ہے جب اسے ملکہ (یا اب بادشاہ) نے نائٹ کا اعزاز دیا ہو۔ صرف اس وجہ سے سر یا میڈم نہیں کہا جاتاکہ کوئی کسی تدریسی ادارے یا کام کی جگہ پر آپ سے زیادہ تجربہ رکھتا ہے۔ ہر جونیئر شخص کے بھی اپنے حقوق ہیں اور ان کےتاثرات اور فیڈبیک کی قدر کی جاتی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ اساتذہ طلباء کو مار بھی نہیں سکتے۔

دوسرا بڑا فرق جو میں نے برطانیہ کے  سکولوں میں پایا وہ یہ تھا کہ طلباء کو پوزیشنیں نہیں دی جاتیں۔ پاکستان میں ہمیں اپنےساتھی طلباء کے مقابلے میں درجہ دیا جاتا ہے جیسے کہ یہ لڑکا پہلی پوزیشن پر آیا اور یہ پچاسویں پر۔ اس سے مقابلہ اور بعض اوقات حسد پیدا ہوتا ہے۔ شاید پاکستان میں اس کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں زندہ رہنے کے لیے آپ کو اپنے ساتھیوں پر سبقت لیناضروری ہے، لیکن یہ چیز  طلباء کی دوستی کو متاثر کر سکتی ہے۔ برطانیہ میں، طلباء کی  ان کے ساتھیوں کے مقابلے میں درجہ بندی نہیں کی جاتی۔ لیکن سٹوڈنٹس کے لیے مختلف کلاسز ہیں جن کی مختلف ضروریات ہیں۔ پرائمری  سکول میں بنیادی طور پر زندگی گزارنےکے مختلف ہنر    سکھاۓ جاتے ہیں۔ میرا چار سالہ بیٹا یوسف، جس نے اس سال پریپ کلاس شروع کی ہے، مجھے بتا رہا تھا کہ انہیں سکول شروع ہونے کے دوسرے ہفتے میں ہی خواتین کے ووٹ ڈالنے کے حقوق کے بارے میں سکھایا گیا۔ وہ کس طرح سکھایا گیا؟اس کی کلاس میں ایک دن صرف لڑکوں نے ووٹ ڈالا اور دوسرے دن صرف لڑکیوں نے ووٹ ڈالے۔ یوسف کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ ایک دن اس کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔

پاکستان، بھارت اور چین کے طلباء ریاضی میں غیر معمولی ہوتے ہیں۔ میں بھی ایسا ہی تھا۔ برطانیہ میں سکول شروع ہونے کے ایک ماہ بعد ہی میں نے gcse maths کی پوری کتاب ختم کر دی تھی۔ جی سی ایس ای گیارہویں کلاس ہوتی ہے جبکہ میں آٹھویں میں پڑھ رہا تھا۔ میں اب کلاس کے دوسرے طالب علموں کے لیے قدرے پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ میں اپنی کلاس میں برطانیہ کے طلباء سے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہوں، اساتذہ نے میرے معاملے پر تبادلہ خیال کیا اور فیصلہ کیا کہ مجھے فوراً نویں جماعت میں ترقی دے دی جائے۔

میرا بڑا بھائی نبیل مجھ سے 11 مہینے بڑا ہے اور وہ ہمیشہ پاکستان میں سکول میں مجھ سے ایک سال آگے رہا اور اس وقت نویں جماعت میں تھا۔ مجھے ایک سال آگے کرنے سے پہلے، میرے برطانیہ کے اساتذہ نبیل کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ کیا راحیل کواپنی کلاس میں شمولیت سے آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں؟ انہوں نے یہ سوال نبیل سے پوچھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کچھ بہن بھائی نہیں چاہیں گے کہ ان کے چھوٹے بھائی ان کی کلاس کا حصّہ بنیں۔ نبیل اور میں زندگی میں ہمیشہ ایک دوسرے کی طاقت بن کر رہے ہیں۔ اس نے ایک منٹ نہیں لگایا اور سکول کے پرنسپل کو بتایا کہ راحیل کو اپنی کلاس میں شامل ہونے سے اسے کوئی مسئلہ نہیں اور درحقیقت وہ ایسا کر کے بہت خوش بھی ہو گا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ نبیل کلاس سے باہر آیا، مجھے گلے لگایا اور ایک بوسہ دیا اور کہا “راحیل میں نے کہہ دیا ہے کہ مجھے بہت خوشی ہو گی۔ راحیل کی کامیابی میری کامیابی ہے۔ ایک سال پروموٹ ہونے پر مبارکباد۔” اس طرح نبیل اور میں اب صرف بھائی اور دوست نہیں تھے، اب ہم اگلے چھ سالوں تک ہم جماعت بھی تھے۔ یہ ہم دونوں کے لیے بہت مددگار تھا کیونکہ مقامی طلباء سے دوستی کرنا شروع میں بالکل بھی آسان نہیں تھا۔ لیکن اب ہم ساتھ تھے اورہمیشہ ایک دوسرے کے لیے موجود تھے۔

جس چیز سے مجھے سب سے زیادہ مسئلہ آ رہا تھا وہ تھا گوری لڑکیوں سے بات کرنا۔ ہم تین بھائی تھے جو کہ لاہور کے ایک آل بوائز سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ قدرتی طور پر لڑکیوں کے ساتھ بہت کم ایکسپوژر رہا۔ ہمارا تعلق ایک آزاد خیال پاکستانی تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ تاہم، ہماری خواتین ہمیشہ دوپٹہ پہنتی تھیں اور مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک شائستہ حجاب ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا،اگرچہ اس کے لیے مجھے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،اور کلاس کی ساتھی لڑکیوں سے تعلقات نہ بنانے پر  اپنے لیےGay  کا خطاب بھی پایا۔۔لیکن وہ وقت بھی بہرحال گزر گیا۔

میرا چھوٹا بھائی سجیل خوش قسمت تھا۔ وہ مجھ سے ڈھائی سال  اور نبیل سے ساڑھے تین سال چھوٹا تھا۔ اس نےبرطانیہ میں چھٹی جماعت شروع کی تھی جو پرائمری  سکول کا آخری سال ہے۔ سیکنڈری  سکول ساتویں سے شروع ہوتا ہے۔ ہر روزسجیل گھر آتا اور اپنے تکیہ کلام سے بات کا آعاز کرتا، “ابو آج پھر سے بات چھڑ گئی!”
ابو: اب کیا ہوا چینے کاکے؟
سجیل (چینہ کاکا): ابو آج ہمیں گھوڑے کا بچہ پیدا ہونے کی ویڈیو دیکھائی سکول میں۔ اوئے ہوئے ہوئے ۔
ابو اور گھر والے (ہنستے ہوئے): پھر…
سجیل (چینہ کاکا): ابو آپ کو پتا ہے گھوڑے کا بچہ پیدا ہوتے ساتھ ہی چل پڑتا ہے؟

سجیل ایسی واہیات کہانیاں روز سناتا۔ گھوڑے کا بچہ پیدا ہوتے ہی چل پڑتا ہے،اور ابو کے ساتھ یہ سب بحث کرتے کرتے ہمیں بھی یوکے کے  سکول میں چلنا آ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں اب جنسی تعلیم دی جاتی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر آپ کے بچے برطانیہ میں بڑے ہو رہے ہیں، تو انہیں بہت چھوٹی عمر سے ہی سب کچھ سکھایا جائے گا  اور آپ کو اپنے بچوں کی ان چیزوں  کو سمجھنے میں مدد کرنا ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply