تعلیم نسواں اور اقبالؒ۔۔۔سیدہ ماہم بتول

شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؔ کی نظر میں تعلیمِ نسواں کی بہت اہمیت تھی، اور وہ اسے ضروری سمجھتے تھے۔ اقبالؔ عورت کی ایسی تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے جو دین پر مبنی ہو، اور وہ تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی طرف مائل کرتی ہو اقبالؔ اسے بھیانک نتائج کی حامل تصور کرتے تھے۔ اقبالؔ مغربی تہذیب کے برصغیر کی عورتوں پر اثرات کے بارے میں اپنی نظم “عورت اور تعلیم” میں فرماتے ہیں:

”تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت،
ہے حضرت انساں کے لئے اس کا ثمر موت“۔

علامہ اقبالؔ کے مطابق مغربی علوم و تہذیب کے اثرات کا اثر نہ صرف مردوں پر ہوتا ہے بلکہ عورتیں بھی اندھا دھند نقالی کر رہی ہیں۔ اقبالؔ اس تاثر کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اقبالؔ درحقیقت عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تھے۔ بلکہ وہ صرف ان طریقوں کے خلاف تھے جو آزادی نسواں کی تحریک نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اختیار کر رکھے تھے۔ اقبالؔ نے عورت کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ عورتوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کیونکہ ایک عورت سات خاندان (نسلوں) کو تعلیم یافتہ کرتی ہے۔ اور وہ ایک عورت ہی ہے جس کے وجود سے قوم بنتی ہے اور اگر عورت ہی تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو وہ پوری قوم تباہ وبرباد ہوجائے گی۔ اسی لیے اقبالؔ یہ درخواست کرتے ہے کہ عورتوں کو تعلیم سے مزین کرو۔

اقبالؔ عورت کی تعلیم کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں مگر وہ تعلیم ایسی ہونی چاہیے کہ جس سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس تعلیم سے مغربی تہذیب کو اپنایا جائے اور جس سے بے حیائی اور غیر ذمہ داری کو فروغ ملے۔

کیونکہ اقبالؔ خود ایک جگہ فرماتے ہے:
”لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی،
دیکھ لی قوم نے فلاح کی راہ،
یہ تماشا دکھائے گا کیا سین،
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ“۔

یہاں پر انگریزی سے مراد یہ نہیں ہے کہ انگریزی زبان میں کوئی خرابی ہے بلکہ اقبالؔ اس تہذیب وثقافت کے خلاف ہیں، جو اس انگریزی زبان سے وابستہ ہے۔ بلکہ اقبالؔ کا تویہ ماننا ہے کہ اگر کوئی اَن پڑھ، غیر مہذب ، مگر دین دار عورت بچے کی پرورش کرتی ہے اور ایک غیر ت مند مسلم وجود میں آجائے تو وہ اس موڈرن، تہذیب یافتہ اور بے دین عورت سے قدرے جہاں بہتر ہے۔ اقبالؔ عورت کی تعلیم، حقیقی آزادی، ترقی اور عظمت کے قائل تھے۔

عورتوں کی تعلیم سے اقبالؔ کا یہ ماننا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت سے ایک بہتر سماج کی تشکیل ہونی چاہیے۔ قرآن میں بھی ارشاد ہے: “مومن باندی مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمھاری نظر میں کتنی ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو”۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اقبالؔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے بھی حامی تھے۔ کیونکہ عورت کی تعلیم اگر اسے خاتونِ خانہ کی بجائے شمع انجمن بنائے اور وہ دفتروں، کارخانوں اور ہوٹلوں کی زینت بنے تو اس سے نئے معاشرتی مسائل پید اہوں گے۔ اقبالؔ عورتوں کی آزادی کے متعلق بھی اپنا ایک الگ اور پختہ نظریہ رکھتے تھے۔ آزادی سے مراد اقبالؔ کا ماننا یہ ہے کہ عورت کو سماج میں ہر طرح کی آزادی ملنی چاہیے مگر وہ آزادی ایسی نہ ہو کہ جس سے اپنی تہذیب اور اخلاق میں گراوٹ آجائے۔ یعنی مغربی تہذیب کے زیرِ اثر عورت معاشرے میں جو مقام تلاش کررہی ہے وہ مشرقی تہذیب کے منافی ہے۔ اور اس سے صرف بربادی وجود میں آتی ہے۔ اقبالؔ آزادئ نسواں کے پر زور حامی تھے۔ مگر اس آزادی کے خلاف بھی تھے جو مغربیت کے طرز پر ہو۔ مغر ب پرست پردے کو عورت کی ترقی کے راستے کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں لیکن اقبالؔ کا خیال ہے کہ:
’’عورت فاطرالسمٰوات والارض کی مقدس ترین مخلوق ہے اوراس کا جنسی وجود اس امرکا متقاضی ہے کہ اجنبی نگاہوں سے بہر نوع محفوظ رکھاجائے۔‘‘

عورت اور مرد معاشرے کے اہم ستون ہیں اور معاشرے کی بقاء کیلئے دونوں کا کردار بہت اہم ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے تعلیم لازمی ہے۔ اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا ہے اور عورتوں کی دینی ودنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے اپنے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر عورت کو تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت کا علم حاصل کر نا ضروری نہیں ہے۔ تعلیم تو ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اور انسان کو روشنی عطا کرتی ہے تاکہ وہ درست سمت کا تعین کر سکے ۔کوئی معاشرہ تعلیم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔

تعلیم نسواں پر توجہ مرکوز کرکے کسی ملک بھی ملک میں معاشی واقتصادی ترقی لائی جاسکتی ہے۔ لوگ اکثر کہتے ہیں لڑکی کو تعلیم کیوں دلوائیں اور اس پر اتنا خرچا کیوں کریں جب اس نے آگے جا کر ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت کے دم سے یہ معاشرہ قائم ہے جو اپنی گود میں نسلوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ اب جس نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے چل کر اس معاشرے کو سنبھال سکے جب وہ خود کسی قابل ہوگی تو ہی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھ پائے گی۔ سب سے بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اسی طرح تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی بہتر انداز میں پرورش کر سکتی ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی ڈھال بن سکتی ہے۔

ہمیں چاہئے کے ہم اپنے بیٹوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ برابر کی دینی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ وہ آنے والی نسلوں کی بہتر نگہداشت کر سکیں۔ مرد کی تعلیم تو صرف مرد کو فائدہ دیتی مگر عورت کی تعلیم اسکے ساتھ آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم بچیوں کی تعلیم کے لئے کوشاں رہیں۔ اور ایسا کرتے وقت حضور ﷺ کے عورتوں کی تعلیم بارے فرمان بھی ذہن میں رکھیں۔ اسلامی تاریخ میں اقبالؔ نے بار بار حضرت فاطمہ سلام الله علیہا کی مثال دی ہے۔ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کی پرورش کی اور انہیں تاریخ اسلام کی سب سے بڑی انقلابی قربانی دینے کے قابل بنایا۔

مآخذ:
(1) کلیات اقبال صفحہ 286 تا 288۔
(2) الف اعلان۔
(3) اقبال نامہ، حصہ اول۔

Advertisements
julia rana solicitors london

التماس دعا

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply