کائنات ہمیں کیوں میسر ہے؟/ادریس آزاد

کوانٹم فزکس نے گزشتہ ایک صدی سے جس طرح فزکس اورریاضی کے میدان میں رہتے ہوئے فلسفے کے نئے نئے سوالات کو جنم دیا ہے، اس کی مثال تاریخِ علم میں کہیں نہیں ملتی۔یہ سوال کہ، یہ کائنات جسے ہمیں دیکھ رہے ہیں، حقیقی ہے یا فقط نظرکادھوکا، فلسفے میں تو بہت پرانا ہے، لیکن کوانٹم فزکس نے اس سوال کو معروضی تجربات کی روشنی میں دوبارہ اُٹھایا اور تاریخِ علم کے لیے وقت کے سب سے بڑے سوالات کے  طورپر پیش کردیا۔

کوانٹم فزکس کا سب سےمشہور تجربہ ڈبل سلِٹ ایکسپری منٹ ہے۔ ڈبل سلِٹ ایکسپری منٹ گزشتہ دس بارہ سال میں، یوٹیوب اور سوشل میڈیا کی وجہ سے عام لوگوں میں بہت مقبول اور مشہور ہُواہے۔اس تجربے میں ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی کے فوٹان ہوں یا مادے کے الیکٹران، ہردوطرح کے پارٹیکل صرف اُس وقت پارٹیکل ہوتے ہیں جب اُن کی پیمائش کی جارہی ہو۔ یعنی جب کوئی سائنسدان یا کوئی کیمرہ یا کوئی اور آلہ اُنہیں دیکھنے لگ جائے، تو وہ پارٹیکل ہی نظر آتے ہیں نہ کہ ویو۔ اگر اُن کی پیمائش نہیں کی جارہی ، تو ایسے وقت میں وہ پارٹیکل نہیں بلکہ موج(wave) کی صورت میں موجود ہوتے ہیں۔یہ تجربہ اتنا سادہ اور آسان ہے کہ کوئی بھی عام سا شخص یہ تجربہ گھر پر انجام دے سکتاہے۔اورسوسال سے یہ بات پوری تسلی کے ساتھ پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ ، ہاں! ایسا ہی ہے۔ جب پارٹیکلوں کی پیمائش کی جارہی ہو تو وہ پارٹیکل ہوتے ہیں اور جب اُن کی پیمائش کا عمل روک دیا جائے تو وہ موج ہوتے ہیں۔

جب پہلی بار کوانٹم فزکس نے فطرت کا یہ مظہر(phenomenon) دیکھا تو سائنسدانوں نے اس کی تشریح(interpretation) کرنے کی کوشش کی۔ اور اُنہوں نے کہا،
The act of measurement collapses the wave function of a particle
یعنی پیمائش کا عمل پارٹیکل کا ویوفنکشن کولیپس کردیتاہے اور اس لیے پارٹیکل موج کی بجائے پارٹیکل بن کرظاہر ہوتاہے۔

جب نیلز بوہر اور ہائزن برگ کی یہ تشریح یا اِنٹرپریٹیشن سامنے آئی، تو اس پر بھی طرح طرح کے سوالات اُٹھائےگئے۔اِن سوالات میں سب سے دلچسپ سوال یہ تھا کہ،
پارٹیکل کے کولیپس کا عمل کس مرحلے پر واقع ہوتاہے؟
۱۔ کیا پیمائش کرنے والے آلے میں یہ عمل پیش آتاہے؟
۲۔ یا جب پیمائش کرنے والا آلہ پارٹیکل کی معلومات وصول کرلیتاہے، تو سائنس دان کی آنکھ تک پہنچنے سے پہلے راستے میں کسی وقت یہ کولیپس کا عمل واقع ہوتاہے؟
۳۔ یا سائنس دان کی آنکھ میں یہ عمل واقع ہوتاہے؟
۴۔ یا سائنس دان کے دماغ میں یہ عمل واقع ہوتاہے؟

فزکس کی دنیا میں اِن سوالات سے اُٹھنے والے مسئلے کو ’’پیمائش کے مسئلہ(measurement problem)‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔
دوسائنسدان، وان نیومین اور وِگنر نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ،
’’پارٹیکل کے ویو فنکشن کے کولیپس ہونے کا عمل سائنسدان کے دماغ میں پیش آتاہے۔‘‘اس تشریح کو ’’نیومین وِگنر اِنٹرپریٹیشن‘‘ کہا جاتاہے۔
۱۹۴۰ میں ایک نوجوان ماہرِ طبیعات ہیوایورٹ نے ایک نئی تشریح پیش کی اور کہا کہ دراصل ویو فنکشن کہیں بھی اور کبھی بھی کولیپس نہیں ہوتا۔ پارٹیکل کے ویوفنکشن کا مطلب ہے کہ پارٹیکل سُپر پوزیشن پر ہے۔ یعنی ابھی وہ کولیپس نہیں ہُوا اور اس لیے پارٹیکل، پوری ویو پرابیبلٹی میں ہر ایک پوزیشن پر موجود ہے۔اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ جب تک ہم نے نہیں دیکھا پارٹیکل ویو تھا اور ویو تو ایسی شئے ہے کہ وہ اپنے پورے امکان میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے، نقطہ اے پر بھی اور بی پر بھی اور سی پر بھی اور تمام نقاط پر، حتیٰ کہ لامتناہی نقاط پر۔اور سپرپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ زمان و مکاں میں پارٹیکل کا اصل نقطہ یا مقام کیا ہے؟ اُس کے چونکہ لامتناہی مقامات ہیں، اس لیے دراصل حقیقتیں ہی لامتناہی ہیں۔ہم چونکہ ایک حقیقت یا رئیلٹی میں رہتے ہیں اِس لیے صرف ہماری رئیلٹی میں کولیپسڈ نظر آنے والا ویوفنکشن، فقط ایک ہی رئیلٹی کا رزلٹ ہے۔ ہم چونکہ کائنات کی دوسری رئیلٹیوں میں جانہیں سکتے ، اِس لیے جان بھی نہیں سکتے کہ آیا وہاں کوئی دیکھنے والا موجود تھا یا نہیں اور وہاں ویوفنکشن کولیپس ہوا ہے یا نہیں۔چنانچہ یہ کہنا کہ ویوفنکشن کولیپس ہی نہیں ہوتا زیادہ درست تشریح ہوگی۔

اب اگر آپ غور کریں تو یہ تمام تشریحات فزکس کو یکایک فلسفے کے میدان میں داخل کردیتی ہیں۔ فلسفے کی پہچان یہ ہے کہ فلسفے میں اُٹھایا جانے والا ہر سوال ہمیشہ کسی حتمی جواب کے بغیر وجود رکھتاہے۔ جونہی جب کبھی کسی ایسے سوال کا حتمی جواب مل جاتاہے تو وہ سوال مزید فلسفے کا سوال ہی نہیں رہتا۔ جیسا کہ زمین گول ہے یا چپٹی، جب تک یہ سوال حل نہیں ہوگیا، یہ سوال فلسفے کا سوال تھا۔ اور جب حل ہوگیا اور پتہ چل گیا کہ زمین گول ہے تو یہ سوال فزکس کا سوال بن گیا اور فلسفے سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا۔ فلسفے میں ہمیشہ ہی ہرسوال کے ساتھ یہی ہوتاہے۔ جونہی وہ حل ہوتاہے وہ کسی اور ڈسپلن کا حصہ بن جاتاہے۔

چونکہ ویو فنکشن کے کولیپس ہونے کا سوال ابھی حل نہیں ہُوا اِس لیے یہ ابھی فلسفے کا سوال ہے۔بے شک اِس سوال کو اُٹھانے والے اور آگے بڑھانے والے فزکس کے لوگ ہیں لیکن یہ سوال اپنی ہر تعریف کے اعتبار سے فلسفے کا ہی سوال ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سوال کو اٹھا کر رکھنے والے ماہرینِ فزکس فلسفی بھی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کائنات میں موجود تمام مادہ ایٹموں سے مل کر بناہواہے، اور ایٹم الیکٹرانوں کی وجہ سے اپنی شکل و شباہت رکھتے ہیں۔ اب اگر الیکٹران ہی، جب تک کہ ان کو دیکھا نہ جارہاہو، ویوفنکشن کی حالت میں رہتے ہیں تو یہ سوال پید اہوتاہے کہ،
کیا کائنات محض اس وجہ سے ہمیں بطور کائنات نظر آتی ہے کیونکہ ہم اِسے دیکھ رہے ہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply