الیکٹرانک بمقابلہ سوشل میڈیا

چند دن قبل دنیا کے معروف باکسر عامر خان کی گھریلو زندگی میڈیا کی خبروں کی زینت بنی رہی۔ گھر کی چاردیواری کے اندر ساس، نند اور بہو کے جھگڑے کو خبرناموں کی ہیڈلائنز میں پہلا نمبر ملتا رہا۔ ملک کی دگرگوں سیاسی صورتِحال، وزیرِاعظم، وزراء ، اپوزیشن لیڈرز کے حوالے سے خبریں بھی تیسرے اور چوتھے نمبر پر چلائی گئیں جبکہ عامر خان کی گھریلو اور مکمل طور پر نجی زندگی ان تمام مسائل پر بھاری رہی اور پہلی اور دوسری ہیڈلائن میں جگہ پاتی رہی، لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی ہو یا میرا کے نکاح ہوں، ہمارا میڈیا ایسا ہی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ مجھے میڈیا کی ترجیحات پر حیرت سے زیادہ افسوس ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب جنرل(ر)پرویز مشرف نے میڈیا کو آزادی بخشی اور کیبل کے دور کا آغاز ہوا تو پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی جیسے ایک بہار سی آگئی۔ شام ہوتے ہی بھانت بھانت کے ٹاک شَوز سج جاتے اور خاص طور پر شام آٹھ بجے سے لیکر رات بارہ بجے تک مقبول ترین ٹاک شوز کا وقت ہوتا۔ عوام کیلیے یہ ایک نئی چیز تھی لہٰذا اسے پذیرائی بھی خوب ملی اور اخبارات میں کام کرنے والے صحافی جن کو شاید چند لوگ ہی جانتے تھے، عوام کے ڈرائنگ رومز اور ٹی وی لاؤنجز کا لازمی حصہ بن گئے۔ لوگوں نے پی ٹی وی کا آٹھ بجے والا اصل ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا اور یہ نئے “ڈرامے” دیکھنے لگے۔ اِن ٹاک شوز میں تین چار مہمان میز کے ایک طرف بٹھا دیے جاتے اور ایک میزبان میز کی دوسری طرف بیٹھ جاتا۔ مہمان ایشوز پر کم اور ذاتیات پر زیادہ گفتگو کرتے، ایک دوسرے کی پارٹی اور لیڈران پر کیچڑ اچھالتے، ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے اور ایک ہی حمام میں سب کے سب ننگے ہو کر سامنے آتے۔
میزبانوں کی اکثریت تیلی لگا کر خود خاموش بیٹھ کر تماشہ دیکھتی۔ عوام بھی یہ سب ایک تماشے کی طرح دیکھتے اور محظوظ ہوتے اور جن کو ووٹ دیا ہوتا انہی کے کرتوت سامنے آنے پر بجائے شرمندہ ہونے کے ہنسی اور ٹھٹھے اڑاتے۔ اِن ٹاک شوز کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کی آزادی نے خبر کی خبریت پر توجہ دینے کی بجائے بریکنگ نیوز کے کلچر اور “سب سے پہلے سب سے آگے ہمارا چینل”کی دوڑ کو فروغ دینے کے چکر میں سنسنی خیزی کو پروان چڑھایا۔ اس سنسنی خیزی نے تباہی مچا دی اور لوگ خبریں سننے کیلیے چینل ٹیون کرتے تو چکرا کے رہ جاتے۔ شیخ رشید جو خود بھی ان خبروں اور ٹاک شوز کی ریٹنگ کے حوالے سے میزبانوں کیلیے “ہاٹ کیک”کی حیثیت رکھتے ہیں، اکثر یہ کہتے پائے جاتے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انٹرٹینمنٹ چینلز سے زیادہ کرنٹ افیئرز کے پروگرام مقبول ہیں، لیکن یہ سب کچھ کتنا عرصہ چلتا!! رفتہ رفتہ عوام اس روز روز کی توتکار سے اکتانے لگے اور ٹاک شَوز کی ریٹنگ میں کسی درجہ کمی آنے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے دنوں میں، میں نے ایک مذاکرے میں حصہ لیا جس کا موضوع تھا “میڈیا کا کردار، مثبت یا منفی”۔ مذاکرے میں بحث کو میں نے اِن الفاظ میں سمیٹا کہ “میڈیا معاشرے میں ایک مداری کا کردار ادا کر رہا ہے جو ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کرتا ہے اور عوام تماش بینوں کی طرح تالیاں پیٹتے ہیں”۔ میڈیا کے اِس منفی کردار کی وجہ سے عوام کا سنجیدہ طبقہ میڈیا سے نالاں نظر آتا ہے۔ لہٰذا میڈیا کو اپنے لیے ایک code of conduct & ethics بنانے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی شدید ضرورت ہے”۔ اِن تماشوں سے تنگ آ کر عوام کی ایک بڑی تعداد ایک بار پھر ٹی وی کے اصل ڈراموں کی طرف لوٹنے لگی۔
الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک اور انقلاب آیا اور سوشل میڈیا نے بڑی آن بان کے ساتھ اپنی”انٹری” دی۔ الیکٹرانک میڈیا سے تنگ عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے مین سٹریم میڈیا کو بے نقاب کرنے کا ازخود بیڑہ اٹھایا اور الیکٹرانک میڈیا کو آئینہ دکھانا شروع کیا جس کا وہ برا مان گئے۔ الیکٹرانک میڈیا کے بڑے بڑے برج اس ساری صورتِحال سے بہت سیخ پا ہوئے اور آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر اسے درست کرنے کی بجائے آئینہ توڑنے کے مصداق سوشل میڈیا کو جھوٹا اور غیر مستند قرار دینے کیلیے کئی کئی خصوصی پروگرامز کیے۔ حالانکہ الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والی اکثر خبریں تحقیق کے بعد جھوٹ اور حتٰی کہ من گھڑت ثابت ہوتی رہی ہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کے عامیوں کے ہاتھ میں ہونے کے باعث اکثر اوقات تبصرے ناشائستہ اور below the belt پائے جاتے۔
سوشل میڈیا بھی جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، سنسنی خیزی کے نئے سے نئے باب کا اضافہ کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر مختلف نیوز ویب سائٹس کے فیس بک اور ٹوئٹر پر بنائے گئے پیجز اس سنسنی خیزی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں کی غالب اکثریت سفید جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے، اور اب میڈیا الیکٹرانک ہو یا سوشل، جھوٹ کے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سچائی ڈھونڈنے والےعوام ہر دو طرف سے سچ سے محروم ہیں۔ فیس بک پیجز پر اکثر ایسی پوسٹس نظر آتی ہیں جن پر کچھ اس قسم کے جملے لکھے نظر آتے ہیں “فلاں نے ٖفلاں کا بھانڈا پھوڑ دیا اور کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل بھی نہ چھوڑا”;”فلاں خبر سن کر آپ کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے گا یا آپ ہکا بکا رہ جائیں گے”۔”یا یہ خبر سن کر آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا”،”حیرت انگیز انکشافات کیلیے ابھی لنک پر کلک کریں” اور اسی قسم کے کئی اور جملے۔ اور جب ان لنکس پر کلک کریں تو نہ کسی کا بھانڈا پھوٹا ہوا نظر آتا ہے ،نہ پڑھ کر حیرت سے منہ کھلتا ہے اور نہ کوئی خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی انکشاف نظر آتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی طرف سے چلائے جانے والے پیجز اس سے سوا ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو برا بھلا کہنے کے لیے تصدیق کے بغیر جھوٹی خبریں، تصویریں اور الزامات کو پھیلانا سوشل میڈیا نے بے حد آسان کر دیا ہے۔ ابھی چند روز قبل ایک تصویر جس میں خیبر پختونخواہ کے گورنر ظفراقبال جھگڑا صدرِمملکت اور وزیرِاعظم کے درمیان خوشگوار موڈ میں بیٹھے دکھائی دے رہے تھے، اس تصویر میں گورنر کے پی کے کو نئے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار قرار دے کر اتنا شیئر کیا گیا کہ ہر کوئی ظفر اقبال جھگڑا کو ثاقب نثار ہی سمجھنے لگا۔ مقصد یہ تھا کہ نئے چیف جسٹس کی شہرت کو پہلے ہی داغدار کر دیا جائے اور اگر وہ کوئی فیصلہ حکومت کی حمایت میں کریں تو کہا جائے کہ وہ تو پہلے ہی حکومت کے آدمی تھے۔ اسی طرح کچھ دن قبل طارق اسد نامی کسی وکیل صاحب نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ عمران خان کی آفشور کمپنیز کا بھی جواب طلب کیا جائے تو سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا کہ جماعتِ اسلامی کے وکیل نوازشریف کو بچانے میدان میں آگئے جس سے جماعتِ اسلامی کا مکروہ اور دوغلا چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ کسی نے بھی یہ تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی کہ جماعتِ اسلامی کے وکیل کا نام طارق اسد نہیں بلکہ اسد منظور بٹ ہے۔ تحریکِ انصاف کے حامیوں کو تو اللہ دے اور بندہ لے، وہ ایسی پوسٹس دیکھتے ہیں اور تحقیق کے بغیر شیئر پہ شیئر کرنے لگتے ہیں، توجہ دلانے پر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے جب خان صاحب سپریم کورٹ کے کورٹ روم میں معزز جج صاحبان کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہیں کہ میرا کام تو الزام لگانا ہے تو پھر کارکنوں سے کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی خبر کی تحقیق کریں گے۔
میرا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کے لیے کانفرنسز اور ورکشاپس کا انعقاد کر کے انہیں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تربیت دینی چاہئے۔ ہر طرف سنسنی خیزی نے ذہنوں کو ماؤف کر کے منفی سوچ کو فروغ دیا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کو بھی جب توجہ دلائی جائے تو جواب ملتا ہے کہ پاکستانی میڈیا بہت دیر سے آزاد ہوا ہے اور اسے بالغ ہونے کیلیے وقت درکار ہے۔ یہ جواب اب پرانا ہو چکا ہے لہٰذا اس سے نکل کر ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دینے کیلیے اقدامات کرنا ہوں گے کہ میڈیا نابالغ سہی لیکن میڈیا کو چلانے والے تو بالغ ہی ہیں ناں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply