دعا کی اہمیت و فلسفہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔سیدہ ماہم بتول

 ﷽
انسان کی انفرادی اور اجتماعی عبادت اس کے باطن کی اس تمنا سے عبارت ہے کہ کوئی اس کی پکار کا جواب دے ۔ یہ دریافت کا ایک منفرد عمل ہے جس میں خودی اپنی مکمل نفی کے لمحے میں اپنا اثبات کرتی ہے اور یوں کائنات کی زندگی میں ایک متحرک عنصر کی حیثیت سے اپنی قوت اور جوازکی یافت کرتی ہے“۔ (اقبالؒ)
ہر قوم، گروہ اور انسان کا آخری سہارہ خدا عزوجل کی ذات ہے۔ جب احتیاج انتہا کو پہنچ جائے، اور مشکلات و مصائب سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے، تو ایسے میں دعا ہی سے دل کی تسکین ہوتی ہے۔ اضطراب، بے چینی اور بے چارگی ختم ہونے لگتی ہے اور بے ساختہ دست دعا بلند کرتے ہوئے خدا کو مخاطب کر کے کہتا ہے۔
أَمَّنْ يُجيبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوء” (النمل: 62)
ترجمہ: بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے۔
امام صادق (؏) اور امام باقر(؏) سے نقل کیا گیا ہے کہ اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں فرمایا ہے: وہ خدا جو مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے، یعنی وہ، جو شخص شدید مشکلات کی وجہ سے اس کا سہارا لیتا ہے اور وہ، جو انسان کو تکلیف پہچانے والی چیز کو دور کرتا ہے۔ (1)
 لہذا بے چارگی کی اس منزل پر جہاں قدرت اور طاقت جواب دے جائے، کوئی حل نظر نہ آئے، کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہو، مایوسیوں کے اندھیرے پھیلنے لگیں تو ایسے میں دعا ہی امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے۔ اور دعا کی حالت میں جب انسان سراپا التجا بن جائے اوراس کے فقر کے ثبوت میں آنسو ٹپکنے لگیں تو یہ کیفیت قبولیت دعا کے قریب ہوتی ہے۔ اور اس عالم بیچارگی و بے چینی میں مضطر و پریشان انسان خود کو تمام قوتوں کی مالک ہستی کے قریب محسوس کرتا ہے۔ جس سے اس کا احساس تنہائی ختم ہو جاتا ہے۔ مایوسیوں کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں اور وہ اپنی نا توانیوں کوامید ورجاء کی قوتوں میں بدلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر اس کے پاس دنیاوی عارضی سہارے نہیں تو کیا ہوا، مجھے تو قادر مطلق ذات کا سہارا حاصل ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام قوتیں اور نعمتیں ہیں، جو ہر مصیب اور مشکل کو دور کرنے والا ہے۔ خالق سے یہ رابطہ اس جینے کی نئی امید عطا کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اسے سکون، اطمنان اور راحت نصیب ہوتی ہے اور وہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے۔
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
ترجمہ: بیشک اللہ کی یاد سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں۔ (الرعد: 28)
دعا کی حقیقت، اس کی روح اور اس کے تربیتی اور نفسیاتی اثر سے بے خبر لوگ دعا پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔
 کبھی کہتے ہیں: یہ اعصاب کو کمزور اور بے حس کردیتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں دعا لوگوں کو فعالیت، کوشش، ترقی اور کامیابی کے وسائل کے بجائے اسی راستہ پر لگا دیتی ہے، اور انھیں سعی و کوشش کے بدلے اسی پر اکتفا کرنے کا سبق دیتی ہے۔
 کبھی کہتے ہیں: دعا اصولی طور پر خدا کے معاملات میں بے جا دخل اندازی کا نام ہے، خدا جیسی مصلحت دیکھے گا اسے انجام دے گا، وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمارے مصالح و منافع کو بہتر جانتا ہے، پھر کیوں ہر وقت ہم اپنی مرضی اور پسند کے مطابق اس سے سوال کرتے رہیں؟۔
 کبھی کہتے ہیں: ان تمام چیزوں کے علاوہ دعا؛ ارادہٴ الٰہی پر راضی رہنے اور اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے منافی ہے!۔
جو لوگ اس طرح کے اعتراضات کرتے ہیں وہ دعا اور تضرع و زاری کے نفسیاتی، اجتماعی، تربیتی اور معنوی و روحانی آثار سے غافل ہیں، انسان ارادہ کی تقویت اور دکھ درد کے دور ہونے کے لئے کسی سہارے کا محتاج ہے، اور دعا انسان کے دل میں امید کی کرن چمکا دیتی ہے، جو لوگ دعا کو فراموش کئے ہوئے ہیں وہ نفسیاتی اور اجتماعی طور پر ناپسندیدہ عکس العمل سے دوچار ہوتے ہیں۔
ایک مشہور ماہر نفسیات کا کہنا ہے: ”کسی قوم میں دعا و تضرع کا فقدان اس ملت کی تباہی کے برابر ہے، جس قوم نے دعا کی ضرورت کے احساس کا گلا گھونٹ دیا ہے وہ عموماً فساد اور زوال سے محفوظ نہیں رہ سکتی“۔ البتہ اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ صبح کے وقت دعا اور عبادت کرنا اور باقی تمام دن ایک وحشی جانور کی طرح گزارنا، بیہودہ اور فضول ہے، دعا کو مسلسل جاری رہنا چاہئے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان اس کے عمیق اثر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ (2)
 جو لوگ دعا کو کاہلی اور سستی کا سبب سمجھتے ہیں وہ دعا کے معنی ہی نہیں سمجھے، کیونکہ دعا کا یہ مطلب نہیں کہ مادی وسائل و اسباب سے ہاتھ روک لیا جائے اور صرف دستِ دعا بلند کیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام موجودہ وسائل کے ذریعہ اپنی پوری کوشش بروئے کار لائی جائے اور جب معاملہ انسان کے بس میں نہ رہے اور وہ مقصد تک نہ پہنچ پائے تو دعا کا سہارا لے، توجہ کے ساتھ خدا پر بھروسہ کرے اپنے اندر امید کی کرن پیدا کرے اور اس مبداٴ عظیم کی بے پناہ نصرتوں کے ذریعہ مدد حاصل کرے۔
لہٰذا دعا مقصد تک نہ پہنچنے کی صورت میں ہے نہ کہ یہ فطری اسباب کے مقابلہ میں کوئی سبب ہے۔
”دعا انسان میں اطمینان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی فکر میں ایک طرح کی شگفتگی پیدا کرتی ہے، باطنی انبساط کا باعث بنتی ہے اور بعض اوقات یہ انسان کے لئے بہادری اور دلاوری کی روح کو ابھارتی ہے، دعا کے ذریعہ انسان پر بہت سی علامات ظاہر ہوتی ہیں ، جن میں سے بعض تو صرف دعا سے مخصوص ہیں، جیسے نگاہ کی پاکیزگی، کردار میں سنجیدگی، باطنی انبساط و مسرت، مطمئن چہرہ، استعداد ہدایت اور حوادث کا استقبال کرنے کا حوصلہ، یہ سب دعا کے اثرات ہیں، دعا کی قدرت سے پسماندہ اور کم استعداد لوگ بھی اپنی عقلی اور اخلاقی قوت کو بہتر طریقہ سے کار آمد بنالیتے ہیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری دنیا میں دعا کے حقیقی رخ کو پہچاننے والے لوگ بہت کم ہیں“۔ (3)
 مذکورہ بیان سے اس اعتراض کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ دعا تسلیم و رضا کے منافی ہے، کیونکہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکی دعا پروردگار کے بے انتہا فیض سے زیادہ سے زیادہ کسبِ کمال کا نام ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان دعا کے ذریعہ پروردگار کی زیادہ سے زیادہ توجہ اور فیض کے حصول کی اہلیت اور استعداد حاصل کرلیتا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ تکامل کی کوشش اور زیادہ سے زیادہ کسب کمال کی سعی قوانین آفرینش کے سامنے تسلیم و رضا ہے، اس کے منافی نہیں ہے۔ ان سب کے علاوہ دعا ایک طرح کی عبادت، خضوع اور بندگی کا نام ہے، انسان دعا کے ذریعہ ذات الٰہی کے ساتھ ایک نئی وابستگی پیدا کرتا ہے، اور جیسے تمام عبادات ؛ تربیتی تاثیر رکھتی ہیں اسی طرح دعا میں بھی یہی تاثیر پائی جاتی ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دعا امور الٰہی میں مداخلت ہے اور جو کچھ مصلحت کے مطابق ہو خدا عطا کردیتا ہے، چنانچہ وہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ عطیات خداوندی استعداد اور لیاقت کے لحاظ سے تقسیم ہوتے ہیں، جتنی استعداد اور لیاقت زیادہ ہوگی انسان کو عطیات بھی اس لحاظ سے نصیب ہوں گے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
إنَّ عِنْدَ الله عَزَّ وَ جَلَّ مَنْزِلَةٌ لَاتَنَالُ إلاَّ بِمَساٴلةٍ
ترجمہ: خداوندعالم کے یہاں ایسے مقامات اور منازل ہیں جو بغیر مانگے نہیں ملتے۔ (4)
اسی طرح ہمیں قرآن و احادیث میں دعا کی اہمیت کے بارے میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ حضرت یونسؑ، حضرت موسیؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یوسفؑ اور خاص کر سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں۔
امیر المؤمنین حضرت علی (؏) فرماتے ہیں خدا کے نزدیک زمین پر محبوب ترین عمل دعا ہے۔
قال الامام علی (؏): اَلدُّعُا تُرْسُ الْمُوُمِنْ
ترجمہ: دعا مومن کے لئے ڈھال اور نگہبان ہے۔
ایک دانشور کا کہنا ہے: جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی قوت سے متصل کرلیتے ہیں جس نے ساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر رکھا ہے“۔ (5)
آج کا جدید ترین علم یعنی علم نفسیات بھی یہی تعلیم دیتا ہے جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم تھی، کیونکہ نفسیاتی ڈاکٹراس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دعا، نماز اور دین پر مستحکم ایمان اضطراب، تشویش، ہیجان اور خوف کو دور کردیتا ہے جو ہمارے دکھ درد کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے“۔ (6)
? مآخذ:
(1) بحار الأنوار، جلد68، صفحہ118۔
(2) ”نیایش“ تالیف :طبیب و روانشناس مشہور ”الکسیس کارل“۔
(3) ایضا۔
(4) اصول کافی، جلد دوم، صفحہ466، “بابُ فَضْل الدُّعَا ء والحِثُّ عَلَیہ”، حدیث3۔
(5) آئین زندگی ، صفحہ159۔
(6) تفسیر نمونہ، جلد اول، صفحہ639۔
التماس دعا 

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply