پیلی بارش- مصنف: خولیو لیامازاریس/تبصرہ:حمزہ یعقوب

مترجم: اجمل کمال
تنہائی کی کئی شکلیں ہوتی ہیں، گہری، دھندلی، اور کاٹ دار۔ آدمی کا تنہائی سے کسی بھی جگہ سامنا ہو سکتا ہے۔ اپنے آبائی گاؤں سے ہجرت کرتے ہوئے، کسی معمولی سے جرم میں جیل جاتے ہوئے یا بہار میں کھلے ہوئے پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے اس احساس کے ساتھ کہ پھولوں کی اس قدر فراوانی کے باوجود آپ کا ہاتھ کسی ایسی کلائی یا بالوں میں نہیں ہے جنہیں آپ پھولوں کے گجرے پہنا سکیں۔

تنہائی کا تجربہ بہت حد تک ذاتی ہوتا ہے، جیسے الٹراوائلٹ روشنی کے سپیکٹرم میں بہت سے ایسے رنگ دکھائی دیتے ہیں جو عام آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے، اسی طرح ہر آدمی کی تنہائی کا تجربہ دوسرے آدمی کی تنہائی جیسا بالکل نہیں ہوتا۔ دونوں میں اگر کوئی قدر مشترک ہوتی ہے تو وہ صرف ان کے تجربے کی اذیت ہوتی ہے جسے وہ اپنی اپنی جگہ پر اکیلے چکھ رہے ہوتے ہیں۔

خولیو لیامازاریس نے بھی اپنے ناول “پیلی بارش” میں اسی طرح تنہائی کی ایک قسم کا احوال بیان کیا ہے جو ایک ترک شدہ گاؤں “اینائی” کے آخری باشندے کی داستان ہے۔ ایک قدیم گاؤں کا خالی ہونا بے حد سفاک عمل ہے، جیسے رفتہ رفتہ ریت ہاتھوں سے پھسل رہی ہو۔

مجھے اس ناول کے مرکزی کردار آندریاس کے ساتھ کسی قسم کی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ میری تنہائی کی ایک ایسی شکل ہے جو مجھ پر بہت عرصے سے بیت رہی ہے لیکن میں اسے کسی قسم کا نام دینے یا بیان کرنے سے قاصر رہا۔

آندریاس کے پاس اس طویل تنہائی کا سامنا کرنے کے لیے اینائی کا باشندہ ہونا کافی تھا، اس کے پاس ایک شناخت تھی جس نے اسے ان دنوں میں بھی زندہ رکھا جب اینائی کی  ہر زندہ شئے  مرجھا گئی۔ بیسکوس کے مکان سے دکھائی دینے والے پیلے چاند کی وحشت کا سامنا بھی آندریاس نے اینائی سے اپنی گہری شناخت، وابستگی اور یادوں کی مدد سے کیا لیکن میرے پاس ایسا کوئی تجربہ، کوئی شناخت نہیں جو یورپ میں میری موجودگی کا جواز بن سکے۔

خود کو کسی قسم کی شناخت دینے کا عمل بے حد پیچیدہ ہوتا ہے، جغرافیائی محل ِ  وقوع سے لے کر زبان اور رسوم و رواج سے لے کر جینیاتی یادوں کا ہجوم سب مل کر اس عمل کی جزئیات کو شکل دیتے ہیں اور اگر سی ذرا تبدیلی بھی واقع ہو جائے تو وہ انسانی جسم میں موجود اینزایمز کی طرح احتجاجاً کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ ان سے ان کی پی ایچ یا درجہ حرارت سے منسوب خاص فضا کیوں چھین لی گئی ہے۔

اس کے باوجود خولیو لیامازاریس کے اس ناول نے میرے گزشتہ کئی برسوں کی تنہائی کا کتھارسس کرنے میں میری مدد کی ہے۔ میں اس وقت جس طمانیت اور سکون کی کیفیت محسوس کر رہا ہوں وہ بالکل آندریاس کی اس کیفیت کے مماثل ہے جو وہ ناول کے اختتام پر اپنے بستر میں لیٹ کر بربروسا سے آنے والوں کے انتظار سے کشید کرتا ہے۔ گو کہ مجھے یا میرے تنہائی کو کسی بیرونی وجود یا تجربے کے آنے کی امید نہیں ہے، لیکن مجھے خولیو لیامازاریس کے اس ناول کی طرح فکشن کی صورت میں نئی کہانیوں سے ملاقات کا امکان ضرور ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اجمل کمال صاحب کا بے حد شکریہ کہ انہوں نے نہایت ہی عمدہ ترجمہ کیا اور اس ناول کو اردو قارئین تک پہنچایا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply