مہنگائی اور ہماری عادات/محمد اسد شاہ

عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اقتدار کی باگ کس کے ہاتھ میں ہے اور سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے- اسے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے- اسے بجلی، گیس اور بڑے شہروں میں پانی کے بلز ادا کرنا ہیں- اسے سردی میں اونی کپڑے اور بخار میں دوا کی ضرورت ہے- اور حالت یہ ہے کہ دمِ تحریر یہ سب کچھ بہت مہنگا اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے – اس سب کی ذمہ داری عام آدمی نے حکومت کے کاندھوں پر ڈال رکھی ہے اور خود کچھ کرنا تو کجا، کچھ سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا-

غور کریں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہم بہت سے معاملات میں فضول خرچ اور کسی حد تک عیاش اور لاپروا ہو چکے ہیں- یہ خرابی ہماری زندگیوں میں انفرادی و اجتماعی، دونو لحاظ سے موجود ہے- ہمارا معاشرہ سادہ گھر بنانے یا سادہ زندگی گزارنے تک سے ایک قسم کی نفرت کرتا ہے- ہم گھر بنائیں تو پورا گھر بند کر دیتے ہیں کہ کہیں سے دھوپ اور ہوا بھی پوری طرح داخل نہ ہو سکے- پھر تازہ ہوا نہیں ملتی تو گرمی اور حبس سے بچنے کے لیے ایئر کنڈیشنر لگواتے ہیں- سردیوں میں ان بند گھروں میں دھوپ نہیں آتی تو بجلی اور گیس کے ہیٹرز خریدے جاتے ہیں- چوں کہ ہمارے گھر بند ہوتے ہیں تو روشنی کے لیے پورا سال ہی بلب اور ٹیوب لائٹس آن رکھنا پڑتی ہیں- سوچیے کہ اگر ہم گھر ہی ہوا دار اور روشن بنا دیں تو کتنے اخراجات سے ہماری جان چھوٹ جائے گی- بند گھروں کی وجہ سے بلب، پنکھے، ایئر کولرز، ایئر کنڈیشنرز، ہیٹرز وغیرہ کی قیمتیں مسلسل آسمان کی طرف اڑتی جا رہی ہیں- پھر ان چیزوں کے استعمال پر بجلی اور گیس کا استعمال بڑھتا ہے، اور نتیجتاً ان کے بل بھی بڑھتے جا رہے ہیں-

یہیں پہ بس نہیں، انھی بند گھروں کی وجہ سے بجلی اور گیس کے استعمال میں انتہائی اضافہ ہو چکا ہے- ملک گیس اور بجلی کی مسلسل کمی کا شکار ہے- اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ملکی وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ صرف کرنا پڑتا ہے- پھر ٹیکس بڑھتے ہیں- بجلی اور گیس کی قیمتیں پہلے ہمارے زیادہ استعمال کی وجہ سے بڑھتی ہیں، وہی قیمتیں وسائل کے بے دریغ ضیاع کی وجہ سے مزید بڑھتی جاتی ہیں- اب یہ بتائیے کہ کون سی ایسی حکومت ہے جو ہمارے ان سارے اللے تللوں سمیت ہمیں ہر چیز سستی مہیا کر سکے- کیا ہم روشن اور ہوا دار گھر نہیں بنا سکتے؟ ایسے گھروں میں ہر وقت برقی قمقمے جلائے رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی- گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر اور سردیوں میں دن رات ہیٹر چلانا بھی لازمی نہیں ہو گا- گرمیوں میں تازہ ہوا، اور سردیوں میں دھوپ میں بیٹھنا نصیب ہو گا- بجلی اور گیس کی کھپت کم ہو گی تو ہمارا بل بھی کم آئے گا- اگر پورا معاشرہ اسی طرح کرے تو قومی سطح پر بجلی اور گیس کی کھپت میں کمی آئے گی،اور ٹیکس بھی کم ہوں گے- بجلی کے بل مزید کم ہو سکیں گے- لیکن ہم ان باتوں کو پڑھنا، سننا اور سوچنا بھی شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں-

معاشرہ اس جہالت میں مبتلا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص بن سوچے سمجھے، عیاشی کی زندگی ضرور گزارے لیکن حکومت مہنگائی نہ ہونے دے- پھر اگر حکومت یہ کہے کہ دکانیں دن کے آغاز میں کھولیں اور رات کے آغاز میں بند کر دیں تو تاجر مافیا آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے- کتنا احمقانہ جواز ہے کہ لوگ راتوں میں شاپنگ کے عادی ہیں- منافع پرستو! اگر تم لوگ راتوں کو دکانیں بند رکھو گے تو لوگوں کی عادت خود بخود درست ہو جائے گی- لیکن خود کو درست کرنا بھی پسند نہیں-

ہماری خوراک دیکھ لیجیے- برائلر اور کولڈ ڈرنکس ہماری زندگیوں کا جزو لاینفک بن چکے ہیں- آخر کیوں؟ میں سکول کا طالب علم تھا جب برائلر کھانے کا رواج عام ہوا- میں نے کہیں اس کی پیداوار اور اسے کھانے کے اثرات پڑھے تو یہ کھانا چھوڑ دیا- ہمارے ملک میں ہمہ قسم تقریبات میں اندھا دھند برائلر کا گوشت پکایا، کھایا اور ضائع کیا جاتا ہے- پھر قیمتیں کیوں نہ بڑھیں؟ گھروں میں مرغیاں اور بکریاں پالنا ہمارے معاشرے کی صدیوں پرانی روایت ہے- ایک ڈیڑھ عشرے قبل تک دیہات میں تو سو فی صد گھروں میں یہ دو چیزیں بکثرت ہوتی تھیں- شہروں میں بھی تقریباً ہر دوسرے گھر میں چار پانچ مرغیاں اور ایک یا دو بکریاں ضرور ہوتی تھیں- اس وجہ سے دودھ، انڈوں اور مرغی کے گوشت کی بہت سی ضروریات گھروں میں ہی پوری ہو جایا کرتی تھیں- لیکن اب کتے، بلیاں اور طوطے پالنا تو فیشن بن چکا، لیکن مرغیاں اور بکریاں پالنا لوگوں کو پسند نہیں-

ایمان داری سے بتائیے کہ مرغی کے نام پر جو گوشت ہم کھاتے ہیں، انڈوں کے نام پر جو چیز ہم دکانوں سے خریدتے ہیں اور دودھ کے نام پر جو چیز ہم پیتے ہیں، ان کی حقیقت، افادیت اور اصلیت پر ہمیں کتنے فی صد یقین ہے؟ پھر جس طرح سے ہمارے ہاں کھانے پکائے جاتے ہیں، مسالے اور چٹخارے کی جو دیوانگی ہمارے ہاں رائج ہے، دکھاوے کا جو پاگل پن اس پورے معاشرے کو لاحق ہے، اس کے نتیجے میں معدے، دل، جگر، پٹھوں، ہڈیوں، گردوں، آنتوں اور دوران خون کے امراض کتنے عام ہو چکے ہیں- ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہیں نہیں، اور شہروں میں آبادیوں کا جنگل اس قدر گھنا ہوتا جا رہا ہے کہ نئے ہسپتالوں کے لیے بھی جگہ نہیں- پانچ پانچ مرلے پر بنے چار چار منزلہ نجی ہسپتال اب ہمارے ہر بڑے شہر میں عام ہیں- پھر ہماری خوراک کی انھی قبیح عادات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ، “انسانیت کی خدمت” کے بہت سے جھوٹے دعوے دار “انسانیت کے بدترین دشمن” بنے نظر آتے ہیں- بیمار ہونا ایک تکلیف تو ہے ہی ، اوپر سے نجی ہسپتالوں کے عملے اور اکثر ڈاکٹرز کے رویئے اور قارون بننے کی ہوس ایسی، کہ جیب سے اندھا دھند پیسے، اور دل سے لگاتار بدعائیں نکلتی ہیں- آپ نے دیکھا کہ آپ کی بدعائیں انسانیت کے دشمنوں کو نہیں لگتیں تو فکر مت کیجیے ، آخرت میں سارے حساب بے باق ہو جائیں گے-

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری سفری عادات بھی اب خراب ہو چکی ہیں- سکول کے زمانے میں، چھٹی سے دسویں جماعت تک میں اپنے گھر سے تقریباً دو کلومیٹر دور سکول تک گرمیوں اور سردیوں میں بھی پیدل جاتا اور آتا تھا- یہ ایک خوب صورت ورزش بھی تھی- میٹرک کے بعد اپنے گھر سے تقریباً 8 کلومیٹر دور کالج تک ہر موسم میں بائیسکل پر جانا معمول تھا- پنجاب یونیورسٹی کے ایام میں، میرے اکثر ہم جماعت یونیورسٹی کی بسز میں سفر کرتے، جب کہ بعض موٹر سائیکلز پر آتے جاتے تھے – چند ایک کے پاس کاریں بھی تھیں – لیکن میں تب بھی سمن آباد (لاہور) کے پہلے گول چکر سے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس تک سائیکل پہ آتا جاتا تھا- حال آں کہ موڑ سمن آباد سے یونیورسٹی کی بس مل جاتی تھی – لیکن مجھے اپنی بائیسکل کی سواری عزیز تھی- گھر سے نکل کے ڈونگی گراؤنڈ، این بلاک، پکی ٹھٹھی، سادات کالونی سے گھومتے ہوئے نیو کیمپس جانا بجائے خود ایک سیر اور تفریح بھی تھا – میں نے ایم فل کے لیے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لیا تو گول بھوانہ بازار میں ایک نجی رہائشی پلازے کی دوسری منزل پر کمرہ کرایہ پر لیا- تب وہ یونیورسٹی گورنمنٹ کالج فیصل آباد کی پرانی عمارت میں ہی قائم تھی – اس دو سالہ مدت میں پیدل چلنا ہی معمول رہا- پلازے کی سیڑھیاں اتر کر، بازاروں سے ہوتے ہوئے، دھوبی گھاٹ سے گزرتے ہوئے ، یونیورسٹی جانا اور اسی راستے سے واپس آنا دلکش لگتا تھا- کبھی کبھی گول بھوانہ بازار سے کوتوالی روڈ، وہاں سے جھنگ بازار اور ڈگلس پورہ گھومتے ہوئے ، امام باڑے کے سامنے سے سڑک عبور کر کے یونیورسٹی جانا بھی اچھا لگتا تھا – لیکن اب ہماری زندگیوں میں کیسا منفی انقلاب آ چکا ہے کہ پیدل چلنے یا بائیسکل پر سفر کرنے کو لوگ پسند نہیں کرتے- ماحول ہی ایسا بن گیا ہے- بچے دوسری گلی کی نکڑ پر بنی سبزی کی دکان تک پیدل چلنا دشوار گردانتے ہیں- ما شاء اللّہ ، میرا بیٹا محمد بن اسد شاہ او لیول کے آخری سال کا طالب علم ہے اور کالج کی بس میں ہی جاتا آتا ہے – جب کبھی وہ کار کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو سوچتا ہوں کہ میں اپنے بچوں کو رہائش، خوراک اور سفر کی سادہ عادات منتقل کرنے میں ناکام ہوں – اگر ہم سادہ اور صحت بخش طرزِ زندگی اپنا نہیں سکتے، تو کسی شکوے، احتجاج اور شکایت کا بھی ہمیں کوئی حق حاصل نہیں !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply