دنیا کی نئی قیادت ۔۔۔ ڈاکٹر اختر علی سید

آپ نے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی تجزیے پڑھے اور سنے ہونگے۔ اس سے پہلے ہندوستان میں نریندرا مودی کی سیاست اور بعدازاں ان کے وزیر اعظم بننے پر اشیش نندی اور ارون دھتی رائے جیسے دانشوروں اور اہل قلم کے خیالات بھی آپ نے پڑھے اور سنے ہونگے۔ پاکستان میں عمران خان کی انتخابات میں کامیابی پر ان کی شخصیت بھی موضوع گفتگو رہی ہے۔ اب گفتگو کا موضوع انگلستان کے وزیراعظم بورس جانسن کی شخصیت ہے۔ یہ حال ہی میں تھریسا مےکے بعد برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے ماضی، حال اور مستقبل پر ہمیشہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان رہا ہے۔لیکن امریکہ، ہندوستان اور انگلستان میں جمہوریت اور جمہوری اقدار اپنے تسلسل کے حوالے سے نہایت ہی بے داغ شہرت رکھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے ساتھ اتنی طویل اور بے داغ وابستگی کے باوجود ان ملکوں کے عوام نے اس قدر متنازعہ شخصیات کو اپنا قائد کیسے منتخب کرلیا۔ یہاں پر یقینا ان شخصیات کے متنازعہ ہونے کی نوعیت بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم شاید یہ یاد دلانا مناسب ہوگا کہ ان تینوں شخصیات نے مختلف سیاسی اور سماجی گروہوں کے بارے میں نہ صرف نفرت انگیز بیانات دیے ہیں بلکہ اقدامات بھی کیے ہیں۔اگر آپ ان تینوں کے ساتھ پاکستانی وزیراعظم کو بھی شامل کرلیں تو وہ اس فہرست میں آسانی سے شامل کیے جاسکتے ہیں۔ جن سیاسی گروہوں اور افراد کو وہ ناپسند کرتے ہیں ان کے بارے میں ان کے نظریات اور اظہار بیان سے ایک زمانہ واقف ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ مسلمان ملکوں کی اکثریت جمہوری نظام سے محروم ہے۔ بادشاہ جو بھی پالیسی بنائیں عوام پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر امریکی اور برطانوی حکومتیں عراق میں 15 لاکھ سے زائد افراد کے قتل کا سبب بنیں تو اس کی ذمہ داری ان ملکوں کے ہر ووٹر پر عائد ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ جمہوری معاشروں میں ایسے متنازعہ اور انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے افراد کا انتخاب یقینا قابل توجہ ہے۔
اس سے پہلے کہ اس سوال پر اپنی گزارشات عرض کروں شاید ایک مختصر سی تمہید اس طالب علم کے بیان کی تفہیم کے لئے ضروری ہو۔ میں مختلف حوالوں سے یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ہم ایسے زمانے اور ایسے نظام میں رہ رہے ہیں جس کو Hyper-Colonialism کہا جانا چاہیے یا کہاجاسکتا ہے۔ اردو کے ممتاز ناول نگار جناب مرزا اطہر بیگ اور ماہرنفسیات مارک بورگ نے اس اصطلاح کو بیان کیا ہے۔ اگر ان دونوں حضرات کی رائے کو ملا کر بیان کیا جائے تو موجودہ نظام کے بارے میں مندرجہ ذیل باتیں کی جا سکتی ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں نو آبادیاتی استعماری نظام موجود ہے
اس نظام کی شکل اور خدوخال اس نو آبادیاتی نظام سے سے ملتے جلتے ہیں ہیں جو مثال کے طور پر 1947 تک برصغیر میں موجود تھا۔
یہ نوآبادیاتی نظام Decolonisation کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے صرف اپنی شکل بدلی ہے یہ پوسٹ کولونیل، نیو کولونیل اور اب ہائپر کولونیل ازم کی شکل میں موجود ہے۔
پہلے نوآبادیاتی نظام حکومتیں مسلط کرتی تھیں مثلا برطانوی حکومت کے نوآبادیاتی نظام سے ہم سب واقف ہیں۔ فرانس، بیلجیم، جاپان، اٹلی اور پرتگال کے نوآبادیاتی نظام سے ہماری واقفیت ذرا کم ہے۔
موجودہ صورتحال میں نوآبادیاتی استعماری نظام حکومتوں کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں، افواج اور غیر حکومتی مسلح گروہوں (ملیشیا) کے مفادات کی نگرانی اور حفاظت کرتا ہے..
موجودہ دور میں نو آبادیاتی نظام اور اس کے چلانے والوں کی شناخت آسان نہیں رہی۔ نظام کو چلانے والی قوتیں پس پردہ رہ کر اپنے افعال سرانجام دیتی ہیں اب یہ نظام افراد کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے بنیادی خدوخال کے ذریعے ہی شناخت کیا جا سکتا ہے۔
یہ نظام اب اپنے چار افعال کے ذریعے قابل شناخت ہے۔
ہر دور کی طرح آج کا نو آبادیاتی استعمار جن معاشروں پر اپنا تسلط استوار کرتا ہے وہ وہاں کے اقتصادی ڈھانچے کو مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان معاشروں کی افراد کی جان، مال، عزت اور صلاحیت کو نہ صرف ذلت آمیز رویوں کا نشانہ بناتا ہے بلکہ ان معاشروں کو اپنی کم مائیگی اور بے حیثیتی پر ایمان لانے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ تیسرے ان معاشروں کے لئے دوست اور دشمن کا تعین کرتا ہے اور چوتھے ان معاشروں کو تقسیم در تقسیم کے مسلسل عمل سے گذارتا رہتا ہے۔ تقسیم در تقسیم کے اس عمل کو ہم عام زبان میں Divide and Rule کے مقبول عام جملے کے ذریعے جانتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام پر کام کرنے والے اسکالرز نے تقسیم در تقسیم کے اس عمل کو بہت تفصیل سے بیان کرکے ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ عمل اتنا سادہ نہیں ہے جتنا اس جملے سے لگتا ہے۔ اس عمل میں معاشروں میں موجود پرانے اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے اور معاشرے میں نئے اختلافات پیدا کئے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اختلافات حل ہو سکنے والے موضوعات پر نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلق ایسے موضوعات سے ہوتا ہے جن کا کوئی حل ممکن نہیں ہوتا اسی لئے ان اختلافات کو ہوا دینے کے لیے مذہبی موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ مذہبی اختلافات میں انسانی تفکر اور مکالمہ دائروں میں گھومتا ہے۔ برصغیر میں موجود مسلکی اختلافات اس بات کی زندہ مثال ہیں۔ گزشتہ چار سو سالوں سے مختلف مسالک اختلافی موضوعات پر مسلسل مناظرے کیے جارہے ہیں۔ اتنے عرصے میں نہ سوال بدلے اور نہ جواب۔۔ ایسے اختلافات پر مکالمہ کرنے والے معاشروں میں ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ دوسرے، ان اختلافات کا مرکز انسانی عقل نہیں بلکہ جذبات ہوتے ہیں۔ ہر مکالمہ ان اختلافات کو حل کرنے کے بجائے ان اختلافات کو پہلے سے زیادہ شدید، ناقابل حل اور مزید پرتشدد بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں جدید نو آبادیاتی استعمار کے شکار معاشروں میں پرتشدد فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ (کیا اس بات کی وضاحت کے لیے مثالوں کی ضرورت ہے؟) ان معاشروں کے لئے ایسے اختلافات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر انہی میں الجھائے رکھنے سے استعماری قوتوں کو بیک وقت بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مثلا زندہ مسائل نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان کے حل کے لیے نہ مکالمہ ہوتا ہے اور نہ کوئی سنجیدہ کوشش۔۔ ایسے معاشروں میں ان اختلافی موضوعات پر تربیت کرنے والے ادارے نہ صرف وجود میں آتے ہیں بلکہ ان کا پھیلاؤ غیر فطری ہوتا ہے اور ان اداروں کا حکومتی ایوانوں پر اثرورسوخ ناقابل یقین حد تک زیادہ ہوتا ہے۔ یہ موضوع معاشروں میں اختلافات کی ناقابل عبور خلیج پیدا کرکے ان معاشروں کی یکجہتی کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔
جیسا کہ میں اپنی طالب علمانہ گزارشات میں عرض کرچکا ہوں کہ جدید نوآبادیاتی استعمار اب صرف غیر ترقی یافتہ ملکوں اور معاشروں کو کنٹرول نہیں کرتا بلکہ دنیا کے تمام معاشرے اب اس نظام کی لپیٹ میں ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں تقسیم در تقسیم کا یہ کام مذہبی موضوعات کے ساتھ ساتھ لسانی، قومیتی اور جغرافیائی شناخت سے متعلق موضوعات پر بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ معاشرے جہاں مذہب اپنی وہ حیثیت کھو بیٹھا ہے جو پاکستانی معاشرے میں آج تک موجود ہے وہاں تقسیم در تقسیم کا یہ کام اقتصادی ثقافتی اور قومی موضوعات پر کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا اپنی سرحدوں پر دیوار تعمیر کرنے کا منصوبہ اور برطانوی بریگزٹ اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
اب تک کی اس گفتگو میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل کس طرح جدید نو آبادیاتی استعمار کو اس کے مقاصد کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہے اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے استعمار کو ایسے قائدین کی ضرورت پڑتی ہے جو حقیقت سے نظریں ہٹانے والے اختلافات کو موضوع بنا کر ان کو ہوا دیتے رہیں۔ ان اختلافات کو اپنے تمام تر مسائل کی واحد وجہ قرار دے کر عوام کے جذبات برانگیختہ کریں۔ ایسا کرنے کے لئے سچ اور جھوٹ کا ایک ملغوبہ بنا کر پیش کریں ان مسائل کے ذمہ داروں کا تعین اپنی مرضی سے کر کے کچھ خاص لوگوں کو نشانے پر رکھ لیں۔ عوام کو یقین دلائیں کہ جیسے ہی یہ ذمہ دار افراد اپنے کیفرکردار کو پہنچیں گے یہ معاشرے جنت ارضی کا نمونہ بن جائیں گے۔ ان قائدین کے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ اپنی قیادت کے حوالے سے یقین دلائیں کہ جیسے ہی وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لیں گے خراب معاملات درست ہونا شروع ہوجایں گے۔
موجودہ دنیا کے جن چار قائدین کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک قائد (نریندرا مودی) حال ہی میں دوسری مرتبہ منتخب ہوئے ہیں. دوسرے صاحب (ڈونلڈ ٹرمپ) دوسری مدت کے انتخاب کی تیاریوں میں مصروف ہیں تیسرے صاحب (عمران خان) کو اقتدار سنبھالے ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ جب کہ چوتھے لیڈر (بورس جانسن) نے ابھی کچھ ہفتوں قبل ایوان اقتدار میں قدم رکھا ہے۔ بورس جانسن کو کچھ دیر کے لئے گفتگو سے اس لیے باہر رکھیں کہ چند ہفتوں کی کارکردگی پر تبصرہ شاید مناسب نہ ہو۔ تاہم پہلے تین قائدین کی حد تک دو باتیں بہر طور کہی جا سکتی ہیں۔ نمبرایک۔۔ ترقی کے وہ وعدے جو ان تینوں نے مختصر مدت میں پورے کرنا تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوسکے نریندرا مودی وعدوں کے پورا نہ ہونے کے باوجود دوبارہ منتخب ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات بھی کم نہیں ہے۔۔ عمران خان کے حامی بھی معاشی ترقی کو کرپٹ حکمرانوں کی پھانسی سے مشروط کیے بیٹھے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی ان تینوں ملکوں میں پہلے سے زیادہ مشکل ہوئی ہے لیکن ان تینوں قائدین کی گفتگو کا موضوع بھی وہی ہے اور زور خطابت بھی اسی طرح اور بدستور جاری و ساری ہے۔ یعنی نہ وعدے پورے ہوئے اور نہ گفتگو کا اسلوب بدلا۔
دوسرے، سب سے اہم کارنامہ جو ان تینوں کے ساتھ ساتھ بورس جانسن جیسے قائدین نے انجام دیا ہے وہ معاشروں کو تقسیم در تقسیم کے ایسے پیچیدہ مرحلے میں داخل کر دینا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ کم ازکم مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔
معاشرے کے مختلف گروہ اپنی زندگیوں کی خراب صورتحال کا ذمہ دار اسی معاشرے میں رہنے والے دوسرے افراد کو ٹھہرا کر ان سے قطع تعلق کی راہ پر گامزن ہیں۔ سیاسی اختلافات نے آج جیسی شدت، تلخی اور بد تہذیبی ماضی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میری اس بات کا ثبوت معاشرے کے ہر گروہ میں سکڑاؤ کا عمل ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ ہر گروہ چاہے وہ سیاسی ہو مذہبی ہو یا سماجی مسلسل چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا جارہا ہے۔ سکڑاؤ کے اس عمل میں اختلافات کو ہوا دینے والے قائدین عوام کی جذباتی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ اس عمل میں مخدوش اقتصادی صورتحال (جس کو جان بوجھ کر خراب رکھا جاتا ہے) کہ مبینہ ذمہ داروں کے خلاف زور خطابت کو عوام اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں اپنے غصے کو نام اور سمت دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی عوام جب یہ سنتے ہیں کہ ان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار کرپٹ سیاستدان ہیں تو انکی راحت دیدنی ہوتی ہے اس طرح کم از کم انہیں یہ علم ہو جاتا ہے کہ ان کو اس حال تک کس نے پہنچایا ہے۔ یہاں کچھ دانشوروں کو یہ گمان گزرا کہ شاید یہ عمل پوسٹ ٹروتھ ہے۔ یہ طالب علم اس ضمن میں گزارش کر چکا اور اب مزید وضاحت کر رہا ہے کہ یہ پوسٹ ٹروتھ سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ عوام کو فراہم کی جانے والی ان معلومات کے درست یا غلط ہونے پر نہ کسی کا دھیان ہوتا ہے اور نہ توجہ۔۔۔ کیوں کہ صحیح حقائق کا ادراک ان کے غصے کو بے سمت کر سکتا ہے اور وہ دوبارہ بے بسی کے اس احساس میں ڈوب سکتے ہیں کہ جہاں نہ قاتل کی خبر ہوتی ہے اور نہ انتقام کا یارا۔۔۔ جذباتی تسکین اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نو آبادیاتی استعمار وقتا فوقتا جن معاشرتی گروہوں کو ان قائدیین کے ذریعے خراب صورتحال کا ذمہ دار قرار دے ان گروہوں کے خلاف یہ معاشرے ہمہ وقت آمادہ جہاد رہیں۔ ہندوستان امریکہ اور اب پاکستان میں ایسے قائدین نے معاشی ترقی کے جو اہداف حاصل کیے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ لیکن ان ملکوں کی عوام کو یہ یقین ضرور دلاں دیا گیا ہے کہ ان کی خراب صورتحال کے ذمہ داروں کا تعین کرلیا گیا ہے اب عوام کم ازکم اس سرشاری میں ضرور مبتلا ہیں کہ ذمہ داروں کا تعین ہو چکا ان کے کیفر کردار تک پہنچتے ہی اچھے دن ضرور طلوع ہوں گے۔ یہ دن نہ بھی آئے تو کم از کم ان مذکورہ قائدین نے اپنے ملکوں کے عوام کے لئے غصے کی سمت کا تعین بہرحال کر دیا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ جدید نو آبادیاتی استعمار میں ایسے قائدین عوام کی جذباتی ضرورت کو پورا کرنے کا کام اسی طرح سر انجام دیتے رہیں گے۔ اس لئے بجا طور پر یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اسی قبیل کے قائدین کی کامیابی کے امکانات روشن رہیں گے۔
خلاصہ کلام کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید نوآبادیاتی نظام کو ایسے قائدین کی ضرورت رہتی ہے کہ جو معاشروں میں انتشار پیدا کرتے رہیں۔ مذکورہ چار قائدین کے علاوہ بھی اسی طرح کی مزید قیادت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔۔ ایسی قیادت جو معاشروں کو اتحاد اور اتفاق کی جانب لے جا سکے بتدریج منظر سے غائب ہوتی چلی جائے گی۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply