• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کمیونزم اور خاندان: الیکزنڈرا کولونتائی/حصّہ اوّل/مترجم:سحر راحت خان

کمیونزم اور خاندان: الیکزنڈرا کولونتائی/حصّہ اوّل/مترجم:سحر راحت خان

 الف۔ پیداوار میں خواتین کا کردار: خاندان پر اس کا اثر

کیا کمیونزم میں خاندان موجود رہے گا؟ کیا خاندان کی شکل یکساں ہی رہے گی ؟

یہ سوالات محنت کش طبقے کی بہت سی عورتوں کو پریشان کر رہے ہیں اور ان کے مردوں کو بھی ۔ زندگی خود ہماری آنکھوں کے سامنے بدل رہی ہے؛پرانی عادتیں اور رسم و رواج ختم ہو رہے ہیں، اور پرولتاریہ(مزدور) خاندان کی پوری زندگی اس طرزسےپروان چڑھ رہی ہے جو نئی اور ناواقف ہے اور بعض لوگوں کی نظر میں “عجیب” ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ محنت کش عورتیں ان سوالات پر سوچنے لگی ہیں۔ ایک اور توجہ طلب حقیقت یہ ہے کہ سوویت روس میں طلاق کو آسان بنا دیا گیا ہے۔18 دسمبر 1917ء کو عوامی وزیروں کی کونسل کے جاری کیے گئے فرمان کا مطلب ہے کہ اب طلاق کوئی ایسی پُرتعیش چیز نہیں جس کی سہولت صرف امیروں کے لیے ہو ؛اب کے بعدکسی مزدور عورت کو ایسے شوہر سے الگ رہنے کا حق حاصل کرنے کے لیے مہینوں یا حتی کہ سالہاسال عدالتی درخواست نہیں کرنی پڑے گی جو اسے مارتا ہے اور اپنے شرابی اور غیر اخلاقی رویے سے اس کی زندگی کومصیبت بنا دیتا ہے۔ باہمی رضامندی سے طلاق حاصل کرنے میں اب ایک یا دو ہفتے سے زیادہ وقت نہیں لگتا ۔جو خواتین اپنی ازدواجی زندگی سے خوش نہیں وہ اس آسان طلاق کا خیرمقدم کرتی ہیں۔ لیکن دوسری عورتیں، خاص طور پر وہ جو اپنے شوہر کو “روٹی کمانے والے” کے طور پر دیکھنے کی  عادی ہیں، خوفزدہ ہیں۔ وہ ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائی ہیں کہ عورت کو مدد حاصل کرنے کے لیے اجتماع اور معاشرے کی جانب دیکھنے کی عادت ڈالنا چاہیے، نا  کہ انفرادی مرد کی جانب۔

سچ کا سامنا نہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں: وہ پرانا خاندان جس میں مرد ہی سب کچھ تھا اور عورت کچھ بھی نہیں، وہ روایتی خاندان جہاں عورت کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی، اپنا کوئی وقت نہیں تھا اور اپنا پیسہ نہیں تھا ، وہ ہماری آنکھوں کے سامنے بدل رہا ہے۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صرف ہماری لاعلمی ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جن چیزوں کے ہم عادی ہیں وہ کبھی نہیں بدل سکتیں۔اس کہاوت سے زیادہ جھوٹ کچھ اورنہیں ہو سکتا کہ ’’جیسا تھا ویسا ہی رہے گا‘‘ ۔یہ دیکھنے کے لیے کہ ہر چیزتبدیلی کے تابع ہے اور کوئی رسم و رواج، سیاسی تنظیمیں یا اخلاقی اصول جامد اور ناقابلِ تنسیخ نہیں ہیں،یہ پڑھنا ہی کافی ہے کہ پرانے لوگ کس طرح زندگی بسر کرتے تھے ۔ تاریخ کے سفرمیں خاندان کی ساخت کئی بار تبدیل ہوئی ہے؛ ایک زمانے میں یہ آج کے خاندان سے بالکل مختلف تھا۔ ایک وقت تھا جب خونی رشتوں پر قائم خاندان کو معمول سمجھا جاتا تھا۔ ماں ایک ایسے خاندان کی سربراہی کرتی تھی جس میں اس کے بچے، نواسے اور پڑپوتے شامل تھے، جو ایک ساتھ رہتے اور کام کرتے تھے۔ ایک اور دور میں پدرانہ خاندان کا راج تھا۔ اس معاملے میں باپ تھا جس کی وصیت خاندان کے دیگر تمام افراد کے لیے قانون تھی۔آج بھی روسی دیہات میں کسانوں میں ایسے خاندان پائے جاتے ہیں۔یہاں خاندانی زندگی کی اقدار اور رسم و رواج شہری مزدوروں کےجیسے نہیں ہیں۔ دیہات میں وہ ان رواجوں پرعمل کرتے ہیں جنہیں مزدور بہت پہلے بھلاچکا ہے۔ خاندان کی ساخت اور خاندانی زندگی کے رسوم و رواج بھی قوم بہ قوم مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے درمیان جیسے کہ ترک،عرب اور فارسیوں میں ایک مرد کو کئی بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ ایسے قبائل تھے اور اب بھی ہیں جہاں عورت کے کئی شوہر ہو سکتے ہیں۔ ہم اس حقیقت کے عادی ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی سے شادی تک کنواری رہنے کی توقع کی جاتی ہے۔ تاہم، ایسے قبائل بھی ہیں جہاں بہت سے محبت کرنے والوں کا ہونا فخر کی بات ہے اور جہاں خواتین اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو اسی تعداد کے کنگنوں سے سجاتی ہیں۔ بہت سے اعمال جو شاید ہمیں حیران کر دیں اور جوہمیں غیر اخلاقی بھی لگ سکتے ہیں ، دوسرے لوگ انہیں معمولی سمجھتے ہیں اوران کے نزدیک ہمارے قوانین اور رسم و رواج “گنہگاری” کے زمرے میں آتے ہیں۔ لہٰذا، اس حقیقت سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ خاندان تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ فرسودہ اور غیر ضروری چیزوں کو ترک کیا جا رہا ہے اور مرد اور عورت کے درمیان نئے تعلقات جنم لے رہے ہیں۔ ہمارا کام اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے خاندانی نظام کے کون سے پہلو فرسودہ ہیں اور اس بات کا تعین کرنا ہے کہ مزدور اور کسان طبقے کے مردوں اور عورتوں کے درمیان کون سے تعلقات اور کون سے حقوق و فرائض مزدوروں کے نئے روس میں حالات زندگی کے ساتھ بہترین ہم آہنگی رکھیں گے ۔جو کچھ نئی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ ہے اسے برقرار رکھا جائے، جب کہ جو کچھ پرانا اور فرسودہ ہے اور غلامی اور تسلط کے لعنتی دورسے، زمینداروں اور سرمایہ داروں کے دور سے، تعلق رکھتاہے، اسے خود استحصالی طبقے اورمزدوروں اورغریبوں کے دوسرے دشمنوں کے ساتھ پرے پھینک دینا چاہیے۔

شہری اور دیہی پرولتاریہ(مزدور) خاندان کی جس قسم کے عادی ہو چکے ہیں، وہ ماضی کی انہی میراثوں میں سے ایک ہے۔ ایک وقت تھا جب الگ تھلگ،چرچ کی شادی پر مبنی، مضبوطی سے جڑا ہوا خاندان اپنے تمام ارکان کے لیے یکساں ضروری تھا۔ اگر خاندان نہ ہوتا تو بچوں کو کھاناکون کھلاتا، انہیں لباس پہناتا اوران کی پرورش کا خیال کون  رکھتا؟ انہیں کون مشورہ دیتا؟ گزرے دنوں میں یتیم ہونا سب سے بدقسمت تصور کیا جاتا تھا۔ پرانے زمانے کے خاندان میں شوہر کماتا تھا اور بیوی اور بچوں کی  کفالت کرتا تھا۔ بیوی گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی بہترین پرورش میں مصروف رہتی تھی ۔ لیکن پچھلے سو سالوں میں یہ روایتی خاندانی ڈھانچہ ان تمام ممالک میں ٹوٹتا جا رہا ہے جہاں سرمایہ داری کا غلبہ ہے اور جہاں اجرتی مزدوروں سے کام کرانے والے کارخانوں اور دیگر کاروباری اداروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔زندگی کے عمومی حالات کی تبدیلی کے ساتھ خاندانی زندگی کے رسم و رواج اوراخلاقی اصول بدل رہے ہیں۔ یہ عورتوں کی محنت کا عالمگیر پھیلاؤ ہے جس نے خاندانی زندگی کی بنیادی تبدیلی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ پہلے صرف آدمی کو کمانے والا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پچھلے پچاس یا ساٹھ سالوں سے (اور دوسرے سرمایہ دار ملکوں میں کچھ زیادہ عرصے سے) روسی عورت کو خاندان اور گھر سے باہر اجرت پر کام کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ “روٹی کمانے والے” کی اجرت خاندان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہونے کی وجہ سے عورت نے خود کو مزدوری تلاش کرنے اور فیکٹری کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور پایا۔ ہر سال مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والی ان عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جو دیہاڑی دار مزدور کے طور پر گھر سے باہر سیلزوومین، کلرک، دھوبی اور گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے لگیں ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1914 ءمیں پہلی عالمی جنگ شروع ہونے سے پہلے یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں تقریباً ساٹھ ملین(چھ کروڑ) عورتیں اپنی روزی خود کما رہی تھیں اور جنگ کے دوران یہ تعداد کافی بڑھ گئی تھی۔ ان خواتین میں سے تقریباً نصف شادی شدہ ہیں۔ان کی خاندانی زندگی کیسی ہوگی اس کا تصورآسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر بیوی اور ماں مزدوری کے لیے کم از کم آٹھ گھنٹے گھر سے باہر ہوں اور سفر کے دورانیےکے حساب سے دن میں دس گھنٹے گھر سے دور ہوں تو “خاندانی زندگی” کس قسم کی ہو سکتی ہے؟ اس کا گھر نظر انداز ہے،بچے ماں کی دیکھ بھال کےبغیربڑے ہوتے ہیں، زیادہ تر وقت باہرسڑکوں پر گزارتے ہیں اور اس ماحول کے تمام خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔وہ عورت جو بیوی، ماں اورمزدور ہے اسے ان کرداروں کو نبھانے کے لیے اپنی توانائی کی ہر رتی صَرف کرنی پڑتی ہے۔ اسے کسی فیکٹری، پرنٹنگ ہاؤس یا کمرشل ادارے میں اپنے شوہر کی طرح کام کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد اسے اپنے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ سرمایہ داری نے عورت کے کندھوں پرکچل دینے والا بوجھ ڈال دیا ہے۔اس نے گھریلو ملازمہ یا ماں کے طور پر اس کی دیکھ بھال کے کام کو کم کیے بغیر اسے اجرت پر کام کرنے والا مزدور بنا دیا ہے۔ عورت اس تین گنا بوجھ تلے لڑکھڑاتی رہتی ہے۔ وہ دکھ سہتی ہے، اس کا چہرہ ہمیشہ آنسوؤں سے تر رہتا ہے۔ عورت کے لیے زندگی کبھی بھی آسان نہیں رہی، لیکن فیکٹری کی پیداوار کے عروج کے اس دور میں سرمایہ دارانہ لعنت کے ماتحت کام کرنے والی لاکھوں مزدور عورتوں کی زندگی اس سے زیادہ مشکل اور مایوس کبھی نہیں تھی۔

مزدوری کے لیے زیادہ سے زیادہ عورتوں کے باہر جانے سے خاندان بکھر جاتا ہے۔ جب مرد اور عورت مختلف شفٹوں میں مزدوری کرتے ہوں اور جہاں بیوی کے پاس اپنی اولاد کے لیے اچھا کھانا تیار کرنے کا وقت بھی نہ ہو تو خاندانی زندگی کی بات کیسے کی جاسکتی ہے؟ جب ماں اور باپ سارا دن باہر کام کرتے ہیں اور ان کے پاس اپنے بچوں کے ساتھ چند لمحے گزارنے کا وقت بھی نہیں ہوتا تو کوئی والدین کی بات کیسے کرسکتا ہے؟ پرانے زمانے میں یہ بالکل مختلف تھا۔ ماں گھر میں رہتی تھی اورخود کو گھریلو کاموں میں مصروف رکھتی تھی۔ اس کے بچے اس کے ساتھ اس کی نگرانی میں ہوتے تھے ۔ آج کل مزدور عورت فیکٹری کی سیٹی کی آواز پرصبح سویرے گھر سے نکلتی ہے۔جب شام آتی ہے اور سیٹی دوبارہ بجتی ہے تو وہ گھر کی طرف دوڑتی ہے اورگھر کے ضروری کام نپٹانے کےلیے ہاتھ پیر مارتی ہے۔ پھر اگلی صبح دوبارہ کام کرنے کے لیے نکلتی ہےاور نیند کی کمی سے تھک چکی ہوتی ہے۔ شادی شدہ مزدور عورت کے لیے زندگی فیکٹری جیسی دشوار ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ خاندانی رشتے ڈھیلے پڑ جائیں اور خاندان ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔وہ حالات جنہوں نے خاندان کو اکٹھا جوڑرکھا تھا وہ اب موجود نہیں رہتے۔ خاندان اپنے ارکان کے لیے یا پھر قوم کے لیے بحیثیت مجموعی مزیدضروری نہیں رہتا۔ پرانا خاندانی ڈھانچہ اب محض ایک رکاوٹ ہے۔ پرانے خاندان کو کیا چیز اتنامضبوط بناتی تھی؟ سب سے پہلے یہ چیز کہ شوہر اور باپ خاندان کے لیے کمانے والے تھے؛ دوسری چیز یہ کہ خاندان کی معیشت اس کے تمام ارکان کے لیے ضروری تھی: اور تیسری یہ کہ بچوں کی پرورش ان کے والدین کرتے تھے۔ اس پرانی قسم کے خاندان کی کیا چیز باقی بچی ہے ؟ شوہر، جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا ہے، اب واحد کمانے والا نہیں رہا۔ بیوی جو اب کام پر جاتی ہے وہ پیسے کماتی ہے۔ اس نے اپنا گزارہ کرنا،شوہر کی مدد کے بغیر اپنے بچوں کی کفالت کرنا سیکھ لیا ہے ۔اب خاندان صرف معاشرے کی بنیادی اقتصادی اکائی اور چھوٹے بچوں کے معاون اور معلم کے طور پر کام کرتا ہے۔ آئیے اس معاملے کا مزید تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کہ آیا خاندان ان کاموں سے بھی فارغ ہونے والا ہے یا نہیں۔

ب۔ گھریلو کام کی ضرورت باقی نہیں رہتی

ایک وقت تھا جب شہر اور دیہات کے غریب طبقوں کی عورتیں اپنی ساری زندگی گھر کی چار دیواری میں گزارتی تھیں۔ ایک عورت اپنے گھر کی دہلیز سے آگے کچھ نہیں جانتی تھی، اور زیادہ تر معاملات میں اسے کچھ جاننے کی خواہش نہیں تھی۔ آخر کار، اس کے اپنے گھر میں، کرنے کو بہت کچھ تھا، اور یہ کام نہ صرف خودخاندان کے لیے بلکہ پوری ریاست کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور مفید تھا۔ عورت نے وہ سب کچھ کیا جو جدید مزدور اور کسان عورت کو کرنا پڑتا ہے، لیکن اس کے علاوہ کھانا پکانے، دھونے، صفائی ستھرائی اور مرمت کے علاوہ، اس نے اون اور سوت کاتا، کپڑا اورلباس بُنے، جرابیں بنیں، فیتے بنائے،اور جہاں تک اس کے وسائل نے اجازت دی، اس نے ہر قسم کے اچار، مربے اور سردیوں کے لیے دیگر محفوظ شدہ اشیاء، اور اپنی موم بتیاں بنائیں۔ اس کے تمام فرائض کی مکمل فہرست بنانا مشکل ہے۔ ہماری ماؤں اور دادیوں نے اسی طرح زندگی گزاری۔ آج بھی آپ کو ملک کے دور درازعلاقوں میں ایسے دیہات مل جائیں گے جو ریل کی سڑکوں اور بڑی ندیوں سے بہت دور ہیں اورجہاں پرانی زندگی کو اسی طرح محفوظ رکھا گیا ہے ،جہاں گھر کی مالکن ہر طرح کےایسے کاموں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہےجن کے بارے میں بڑے شہروں اور گنجان آبادی والے صنعتی خطوں کی مزدور عورتوں نے عرصہ پہلے پریشان ہونا چھوڑ دیاہے۔

ہماری دادی کے زمانے میں، یہ تمام گھریلو کام ضروری اور فائدہ مند تھا۔ اس نے خاندان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا۔ گھر کی مالکن جتنی مصروف رہتی تھی، کسان یا کاریگر کا خاندان اتنا ہی بہتر رہتا تھا۔ یہاں تک کہ گھریلو عورت کی سرگرمی سے ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوا، کیونکہ عورت نے خود کو یخنی بنانے اور آلو پکانے تک محدود نہیں رکھا (یعنی خاندان کی فوری ضروریات کو پورا کرنا)، بلکہ اس نے کپڑا، دھاگہ، مکھن وغیرہ جیسی ایسی چیزیں بھی تیار کیں جوجنس (کموڈٹی)کے طور پر مارکیٹ میں فروخت کی قدررکھتی تھیں ۔ اور ہر آدمی، خواہ وہ کسان ہو یا مزدور، ایک ایسی بیوی تلاش کرنے کی کوشش کرتا تھا جس کے پاس ’’سونے کے ہاتھ‘‘ ہوں، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس ’’گھریلو مزدوری‘‘ کے بغیر خاندان نہیں چل سکتا۔ اس میں پوری قوم کے مفادات شامل تھے، کیونکہ عورت اور خاندان کے دیگر افراد کپڑا، چمڑا اور اون (جس کا فاضل حصہ پڑوسی بازار میں فروخت کیا جاتا تھا) بنانے کے لیے جتنی محنت کرتے،مجموعی طور پر ملک کی معاشی خوشحالی اتنی ہی زیادہ ہوتی۔

لیکن سرمایہ داری نے یہ سب کچھ بدل دیا ہے۔ وہ سب کچھ جو پہلے خاندان کی گود میں پیدا کیا جاتا تھا اب ورکشاپوں اور کارخانوں میں بڑے پیمانے پر تیار کیا جا رہا ہے۔ مشین نے بیوی پر سبقت پا لی ہے۔ اب کون سا گھریلو ملازم موم بتیاں بنانے، اون کاتنے یا بُننے، کپڑا بنانے کی زحمت کرے گا؟ یہ تمام مصنوعات اگلے دروازے کی دکان سے خریدی جا سکتی ہیں۔ پہلے ہر لڑکی جرابیں سیناسیکھتی تھی۔ آج کل کونسی مزدورعورت اپنی جرابیں سینے کا سوچے گی؟ پہلے تو اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ وقت پیسہ ہے، اور کوئی بھی وقت کو غیر پیداواری اور بیکار طریقے سے ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ چند عورتیں ہی کھیرے کا اچار بنانا یا دیگر محفوظ چیزیں بنائیں گی جب کہ یہ تمام چیزیں دکان سے خریدی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگرا سٹور پرفروخت ہونے والی مصنوعات کا معیار گھر پردیکھ بھال سے بنائی گئی ایسی ہی چیزوں سے کمتر ہو گا تومزدورعورت کے پاس ان گھریلو کاموں کو انجام دینے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی توانائی۔ سب سے پہلے تو یہ کہ وہ اجرتی مزدورہے۔ اس طرح خاندانی معیشت بتدریج ان تمام گھریلو کاموں سے محروم ہوتی جا رہی ہے جن کے بغیر ہماری دادیاں شاید ہی کسی خاندان کا تصور کر سکتی ہوں۔ جو کچھ پہلے خاندان میں تیار کیا جاتا تھا وہ اب کارخانوں میں کام کرنے والے مزدورمردوں اور عورتوں کی اجتماعی محنت سے پیدا ہوتا ہے۔

خاندان اب پیداوار نہیں کرتا،یہ محض اصراف (کنزیوم)کرتا ہے۔ گھر کا جو کام باقی رہ گیا ہے اس میں صفائی (فرشوں کی صفائی، دھول مٹی کی صفائی، پانی گرم کرنا، لیمپ وغیرہ کی دیکھ بھال)، کھانا پکانا (رات کاکھانا اور کھانے کی تیاری)، دھلائی اورگھریلو کپڑوں کی دیکھ بھال (رفو گری اورمرمت)پر مشتمل ہے۔ یہ مشکل اور تھکا دینے والے کام ہیں اور یہ ان مزدورعورت کا تمام فارغ وقت اور توانائی جذب کر لیتے ہیں جسے ان کاموں کے علاوہ فیکٹری میں بھی لازما وقت صرف کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ کام ہماری دادیوں کے کام سے ایک اہم اندازسے مختلف ہے: اوپر درج کیے گئے چار کام، جو اب بھی خاندان کو اکٹھا رکھنے کے کام آتے ہیں، ریاست اور قومی معیشت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، کیونکہ وہ ملک کی خوشحالی میں کوئی حصہ نہیں ڈالتے اورکوئی نئی قدریں (مصنوعات) تخلیق نہیں کرتے۔ گھردارعورت سارا دن، صبح سے شام تک، اپنے گھر کی صفائی میں گزار سکتی ہے، وہ روزانہ کپڑے دھوسکتی ہے اور استری کر سکتی ہے، اپنے وسائل کے مطابق اپنےلباس کو اچھا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر سکتی ہے اور من پسند کھاناتیار کر سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے دن کا اختتام کوئی قدر(جنس-کموڈٹی) تخلیق کیے بغیر کرتی ہے ۔ اپنی صنعت کے باوجود اس نے کوئی ایسی چیز نہیں بنائی جسے ایک جنس (کموڈٹی-صرفے کی چیز)سمجھا جا سکے۔ اگر ایک مزدور عورت ہزار سال بھی زندہ رہے تب بھی اسے ہر دن نئے سرےسے شروعات کرنا ہو گی۔ آتش دان کے اوپرسے ہمیشہ مٹی کی ایک نئی تہہ ہٹانی ہوگی، اس کا شوہر ہمیشہ بھوکا آئے گا اور اس کے بچوں کے جوتے مٹی سے اٹے ہوں گے۔

خواتین کا کام کمیونٹی کے لیےمجموعی طورپر کم مفید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ غیر پیداواری ہوتا جا رہا ہے۔ انفرادی گھر مر رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ اجتماعی گھرداری کو راستہ دے رہا ہے۔ فلیٹ کی صفائی کے لیے مزدورعورت کے بجائے کمیونسٹ معاشرہ ان مردوں اور عورتوں کا انتظام کر سکتا ہے جن کا کام صبح کے وقت کمروں کی صفائی کرنا ہے۔ امیروں کی بیویاں عرصہ دراز سے ان پریشان کن اور تھکا دینے والے گھریلو فرائض سے آزاد ہو چکی ہیں۔ مزدورعورتوں پر ان کاموں کا بوجھ کیوں پڑا رہے؟ سوویت روس میں مزدور عورت کو اسی آسانی اور روشنی سے، حفظان صحت اور خوبصورتی سے گھرا ہونا چاہیے جو پہلے صرف امیر وں کے واسطے تھیں۔ کھانا پکانے کے لیے مزدورعورت کومصروف رکھنے کے بجائے اور رات کے کھانے اور کھانے کی تیاری میں اس کے آخری آزاد گھنٹے باورچی خانے میں اسے مصروف رکھنے کے بجائے، کمیونسٹ معاشرہ عوامی ریستوراں اور اجتماعی کچن کا اہتمام کرتا ہے۔

حتی کہ سرمایہ دارانہ دور میں بھی ایسے ادارے سامنے آنے لگے ہیں۔ درحقیقت پچھلی نصف صدی کے دوران یورپ کے تمام بڑے شہروں میں ریستوراں اور کیفے کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے؛وہ خزاں کی بارش کے بعد کھمبیوں کی طرح پھوٹ رہے ہیں۔ لیکن سرمایہ داری کے تحت صرف بھاری جیب والے لوگ ہی اپنا کھانا ریستوراں میں لے سکتے ہیں، جب کہ کمیونزم کے تحت ہر کوئی کمیونٹی کچن اور ڈائننگ رومز میں کھانا کھا سکے گا۔ کام کرنے والی عورت کو اب واش ٹب پر مزید غلامی نہیں کرنی پڑے گی، یا اپنی جرابیں صاف کرنے اور اپنے کتان کو ٹھیک کرنے میں اپنی آنکھیں خراب نہیں کرنی ہوں گی۔ وہ بس ہر ہفتے ان چیزوں کو مرکزی لانڈری میں لے جائے گی اور بعد میں دھلے ہوئے اور استری شدہ کپڑے وصول کرے گی۔ یہ ایک اور کام کم ہو جائے گا۔ کپڑوں کی مرمت کے خصوصی مراکز کام کرنے والی عورت کو مرمت پر خرچ ہونے والے گھنٹوں سے آزاد کر دیں گے اور اسے اپنی شامیں پڑھنے، مختلف اجلاسوں میں اورموسیقی کی محفلوں میں شرکت کے لیے وقف کرنے کا موقع دیں گے۔ اس طرح گھر یلو کام کی چاروں قسمیں کمیونزم کی فتح کے ساتھ ناپید ہو جائیں گی۔ اور مزدورعورت کے لیے اس پر افسوس کرنے کا یقیناکوئی سبب نہیں ہوگا۔ کمیونزم کیڑے کو اس کی گھریلو غلامی سے آزاد کرتا ہے اور اس کی زندگی کو امیرتر اور خوشگوار بناتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply