افغان خواتین کا تعلیمی استحصال/ محمد حسین ہنرمل

افغانستان میں خواتین کی تعلیم ہنوز ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اس معاملے کا حل نکالنے کے بجائے اتنا لیت و لعل سے کام لیا گیا کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے طالبان کی اس ہچکچاہٹ پر جملے کسنے شروع کیے۔ اس حوالے سے ایک مختصر ویڈیو کلپ تو اتنی وائرل ہوئی کہ ہر کسی کو موجودہ افغان حکومت کا مذاق اڑانے کا موقع مل گیا۔
ویڈیو میں ایک کامیڈین افغان شخص اپنے چنددوستوں کو خواتین کے لباس (بمع چادری کے) میں پیش کرکے ہاتھ کے اشارے سے ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں طرف چلتا کرتاہے اورساتھ ساتھ حکم صادر فرماتا ہے؛ ’’دا شزے دی خواتہ لاڑے شی اور دا دی دے خواتہ لاڑے شی‘‘ ( یہ خواتین اس طرف چلی جائیں اور وہ دوسری طرف چلی جائیں)۔
کامیڈین کا مطلب ہے کہ حکومت میں آئے سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود طالبان ابھی تک خواتیں کو تعلیم دینے اور ان کے حقوق سے متعلق شش وپنج میں مبتلا ہیں ۔ یہ لوگ کبھی توبعض بے چاری طالبات کو چھٹی جماعت تک تعلیم کا پروانہ جاری کرتے ہیںاور بعض کو سے روک دیتا ہے۔”
حالانکہ غور کیا جائے تو یہ سرے سے اتنا پیچیدہ مسئلہ تھا ہی نہیں ۔ اقتدار میں آتے ہی طالبان کو پہلے سولہ دن میں اس معاملے سے نپٹنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے سولہ مہینے بیت جانے کے باوجود بھی یہ معاملہ بدستور لٹک رہا ہے۔ابھی دو دن پہلے تو وزارت عالیہ نے اپنے اعلامیے میں واضح طور پر ملک میں اعلیٰ تعلیم کے تمام اداروں کو تاحکم ثانی بند کے احکامات صادر فرمائے ہیں۔
طالبان حکومت کی اس ہٹ دھرم پالیسی نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر ورطہ حیرت میں ڈال دیاہے۔خواتیں کی تعلیم کے معاملے میں طالبان کی اس غیر معقول پالیسی پرپہلے صرف اقوام متحدہ اور امریکہ احتجاج کررہے تھے ، اب طالبات کی یونیورسٹیوں کو تالے لگا کر طالبان اب پوری عالمی برادری اور اسلامی ممالک کے تنقید کا نشانہ بن گئے ہیں ۔ سعودی عرب سے لیکرمتحدہ عرب امارات، قطر، ترکیہ اور ایران تک اور پاکستان سے لیکر بنگلہ دیش تک سبھی اسلامی مملکتیں طالبان سے اس جاہلانہ پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
طالبان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ایسی سخت گیر پالسیوں کی وجہ سے اب ان سے پوری عالمی برادری بدظن ہونا شروع ہوگئی ہے بلکہ عوام میں بھی بے چینی کی لہر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔
جہاں تک میرا اندازہ ہے یا مجھے علم ہے توطالبان کے موجودہ سیٹ اَپ میں خواتین کی علمی استحصال کا ذمے دار صرف طالبان کی سپریم قیادت ہے ۔سپریم قیادت سے مراد ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ اور مولوی ندا محمد ندیم ، مولوی نور محمدثاقب اورمفتی عبدالحکیم وغیرہ ۔ دوسری طرف طالبان حکومت میںشیرمحمد عباس ستانکزئی، ملا عبدالغنی برادر، ملا یعقوب، ذبیح اللہ مجاہد، سراج الدین حقانی، انس حقانی، مولوی عبدالباقی حقانی اور بے شمار اہم رہنما ہیں جو امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی دقیانوسی سوچ سے قطعاً متفق نہیں ہیں۔ یہ لوگ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے واقف ہیں اور افغانستان کو ایک ترقی یافتہ اسلامی ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کے سیاسی امور کے مشیر اور قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں مسلسل انگیج رہنے والے ملا عباس ستانکزئی وہ پہلے طالبان رہنما ہیں جو کئی مرتبہ ’’امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ ڈاکٹرائن ‘‘کی واشگاف الفاظ میں مخالفت کرچکے ہیں ۔ستمبر میں صنعت وحرفت کے حوالے سے منعقد ایک تقریب سے خطاب کے دوران ستانکزئی نے مطالبہ کیا کہ جتنی جلد ممکن ہو حکومت بلا تفریق افغان مرد اور عورت کے لئے تعلیمی اداروں کے دروازے کھول دے۔ تعلیم حاصل کرنا مرد وں اور خواتیں دونوں پر فرض ہے یوں اس بارے میں کسی کی شخصی خواہش کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ ستانکزئی کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم کے حوالے سے مسائل سے نمٹنے میں جتنا تساہل سے کام لیا جائے گا اتنا ہی عوام اور حکومت کے بیچ فاصلے بڑھیں گے‘‘۔
اسی طرح طالبان کے اہم رہنماسراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی اپنے ایک تازہ ٹویٹ میں اس حوالے سے چند پشتو اشعار میں اپنی مایوسی کچھ یوں دکھایاہے:
سہ بہ نور ووایمہ، سہ د ویلو نشتہ
د قلم وینہ وچہ، رنگ د لیکلو نشتہ
لقمان پہ فکر کی ڈوب، د زڑہ ژور پرھر تہ
تار د پییلو نشتہ، ستن د گنڈلو نشتہ
ھسی خاموش کالبوت یم، سینہ خالی دہ یارہ!
زڑہ می پخوا خوڑلی، بل د خوڑلو نشتہ
ترجمہ: آخرکہوں کیا، کہنے کو کیا رہ گیا,
قلم میں خوں سوکھ چکا ،لکھنے کوکیارہ گیا ؟
محوِ حیرت ہیں لقمان زخم دیکھ دیکھ کر
تار اور سوئی کہاں، سلنے کوکیاگیا؟
محض خاموش قالب لئے پھر رہاہوں
دل پہلے کھا چکاہوں، کھانے کو کیا رہ گیا؟۔‘‘
یاد رہے کہ چند ہفتے پہلے کابینہ کے ارکان کی غالب اکثریت کا طالبات کوچھٹی جماعت سے اوپر بھی تعلیم جاری رکھنے پر اتفاق ہواتھا ،تاہم سمری جب امیرصاحب کو فارورڈ کی گئی تو انہوں نے اس کو بیک جنبش قلم ویٹو کر دیا۔ اس سے پہلے کہ افغان عوام مزید امارت اسلامی کے حکمرانوں سے متنفر ہوں، طالبان حکومت میں اہم عہدوں پر فائزاعتدال پسند اور علم دوست رہنماووں کو فی الفور اپنے امیر مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ سے پرزور مطالبہ کرنا چاہیے کہ ملک میں بغیر کسی جنسی امتیاز کے ہر ایک کیلئے تعلیم کے دروزے کھولنا ناگزیر ہے۔ ماضی کی طرح اب کی بار بھی اگر طالبان افغان عوام کے زخموں کا مداوا کرنے کے بجائے اس پر نمک پاشی کرنے پر مصر رہے تو تاریخ اور قوم کبھی بھی ان سے درگزر نہیں کرے گی______

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply