اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے/عاصمہ حسن

زندگی ایک مشکل ترین امتحان کی طرح ہے جس میں سوال نامہ ہر بار اور ہر ایک کے لئے مختلف ہوتا ہے ـ جہاں پریشانیاں ‘ مصائب’ دکھ ‘ تکالیف’ ناکامیاں اور کامیابیاں اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں وہیں ہمیں یکسانیت سے بھی بچاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ  کا قرب حاصل کرنے کا بھی موقع فراہم کرتی ہیں۔

ہمارے  پیارے نبیوں اور پیغمبروں نے بھی دکھوں کے پہاڑ اُٹھائے اور مصائب جھیلے ـ ایسی مشکلات کا سامنا کیا جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی ہمت و حوصلے کو پست ہونے دیا ـ یہاں تک کہ اپنی جانیں تک قربان کر دیں لیکن چٹان کی طرح حق بات پر ڈٹے رہے۔ ؎

اللہ تعالیٰ نے  اس کائنات میں کوئی بھی چیز بے وجہ پیدا نہیں کی، ـ اُس کے ذمے کوئی نہ کوئی کام ہے جو اس کو متحرک رکھتا ہے ـ لہذا اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہمارا بھی اس دنیا میں آنے کا کوئی نا  کوئی مقصد ہے اور اس مقصد کو جان لینا ہی اصل کامیابی ہے۔ ـ

ہمیں اللہ تعالیٰ  نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے ،ـ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے ‘ اس پوری کائنات کو ہمارے لئے تخلیق کیا’ اپنے نبی اور پیغمبر اُتارے ‘ قرآن نازل کیا ،تاکہ ہمیں ہدایت مل سکے اور ہم اپنی زندگی کو بہتر طور سے گزار سکیں، ـ سائنس جس قدر ترقی کر لے یا وقت جتنا مرضی بدل جائے ،ہمارے لئے جو تعلیمات قرآن پاک میں بھیجی گئی ہیں، وہ آج بھی ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں ـ۔

اگر ہم اپنے اردگرد  کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنے تخلیق کئے جانے پر فخر محسوس ہو گا ،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جتنا ہمیں افضل بنایا گیا ہے اتنا ہی ہم ناشکرے ہیں ـ ،ایک چیونٹی جو ننھی سی ہے لیکن اس کا حوصلہ کسی پہاڑ سے کم نہیں ہوتا، ـ وہ ہمت نہیں ہارتی ‘ بار بار کی کوشش کے بعد بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہےـ تو ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ہم کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے،ـ ہم کیوں ایک ہی جھٹکے میں ہمت ہار دیتے ہیں اور اپنی قسمت کو کوسنے لگتے ہیں ،ـ پرندوں کی مثال لے لیں کہ وہ صبح سویرے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شام کے سائے گہرے ہونے سے پہلے اپنے گھونسلوں کا رخ کرتے ہوئے وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ رزق اللہ تعالیٰ  کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ پالنے والا ہے’ وہ ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے ،بس چہکتے ‘گاتے اور اللہ تعالیٰ  کی حمد و ثناء میں مصروف رہتے ہیں ـ
ہم انسان اشرف المخلوقات ہونے’ تمام مخلوقات سے افضل ہونے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ  کی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ـ

ہمیشہ یاد رکھیں کہ خود کو کسی سے کم تر محسوس نہ کریں ‘ کبھی خود کا کسی دوسرے سے موازنہ نہ کریں ـ اللہ تعالیٰ  نے ہمیں صحت و تندرستی ‘ دماغی و جسمانی طاقت عطا کی ہے پھر بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ،جن سے فائدہ اُٹھا کر ہم ایک بھرپور زندگی گزار سکتے ہیں ـ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان عطا کی گئی صلاحیتوں کی تلاش سے تراش تک کا سفر کیسے طے کرتے ہیں۔ ـ

اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کر لیں، پھر اس مقصد یا ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے محنت’ لگن اور سب سے بڑھ کر مستقل مزاجی سے کام کریں ـ ،ناکامی سے یا ناکام ہونے کے ڈر سے اپنے ہدف کو تبدیل نہ کریں، بلکہ لائحہ عمل میں ردوّبدل کریں ـ جب ایک واضح گول/ مقصد بنا لیں تو سب کچھ بھول کر اس کو حاصل کرنے میں لگ جائیں ،پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں، نظریں ہمیشہ اپنی منزل کی طرف رکھیں ـ ۔ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک وقت میں ایک ہی مقصد رکھیں، جب ہم بہت سارے کام ایک ساتھ شروع کر دیتے ہیں تو ہم اپنی توانائی اور وقت کا ضیاع کرتے ہیں اور حاصل مقصد کچھ نہیں ہوتا۔ ـ

زندگی میں کچھ بھی بغیر محنت کے حاصل نہیں ہوتا ـ۔ ایک سادہ سی مثال ہے کہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے کھانا کھانا پڑتا ہے اور جب تک ہم کھانا پکائیں گے نہیں ہم کیسے کھا پائیں گے ـ ۔کہیں سے بھی پکی پکائی کھیر نہیں ملتی، نہ ہی من و سلوٰی اترتا ہے اور اگر مل بھی جائے تو آخر کب تک ؟ ہمیں اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں ـ ہر کام محنت طلب ہوتا ہے ـ اگر ایک طالب علم پڑھے گا نہیں ‘ محنت نہیں کرے گا تو اس کے امتحانات میں نمبر کیسے آئیں گے۔ اس کو کامیابیاں کیسے ملیں گی ؟ صرف سوچنے اور خواب دیکھنے سے کامیابیاں نہیں ملتیں، ہمیں دل و جان سے تگ دو کرنی پڑتی ہے ‘ ساری کشتیاں جلانی پڑتی ہیں ‘ اپنے ڈروخوف پر قابو پانا پڑتا ہے، تب جا کر کہیں منزل ملتی ہے ـ کئی بار کشتی ڈگمگاتی بھی ہے لیکن ہمارا توکل اور مستقل مزاجی ہمیں پار لگا دیتی ہے۔ ـ

ہماری مثبت سوچ بہت اہمیت رکھتی ہے کہ کیسے ہم اپنے مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں ،ان کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں اور ان پر کیسے قابو پاتے ہیں ـ جس دن ہم اپنی سوچ کو قابو کرنا سیکھ لیں گے’ ناکامی کے ڈر اور خوف کو اپنی زندگی سے نکال دیں گے اسی دن ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ ـ

زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور کامیابی بھی انہی  کو ملتی ہے جو کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ـ جو لوگ مضبوط اعصاب اور مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں ،وہی آگے بڑھ کر مصائب کا سامنا کرتے ہیں اور ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں۔ ـ

ہم میں سے کوئی بھی مستقبل کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو سب جانتا ہے اور ہمارے لئے بہتر فیصلے کرنے والا ہے ـ ہمیں اس کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ وہ کبھی اپنے بندے پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا ـ یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ کبھی کسی کی محنت ضائع نہیں ہونے دیتا لہذا محنت کریں اور نتائج اس عظیم ذات پر چھوڑ دیں۔ ـ

جیسے قطرہ قطرہ پانی سخت سے سخت چٹان میں سوراخ کر دیتا ہے، بالکل اسی طرح ہماری مسلسل محنت’ جدوجہد اور لگن ہمیں کامیابی کے زینے چڑھا دیتی ہے ـ۔

بالکل اسی طرح ہمیشہ بڑا سوچیں ‘ ایک قطرے کی طلب میں سمندر سوچیں ـ ،ہمیشہ اپنا مقصد بڑا رکھیں پھر اس کو حاصل کرنے کے لئے پیاس پیدا کریں کیونکہ یہی طلب و بے تابی ‘ اضطراب ‘ بیداری و بے قراری ہمیں منزل تک پہنچا کر دم لے گی ـ۔

کہا جاتا ہے کہ پانی مت ڈھونڈ پیاس پیدا کر ـ جب پیاس ہو گی تو انسان خودبخود پانی تک پہنچنے کے راستے تلاش کر لے گا ـ۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ مشکل کے ساتھ ہی آسانی ہے، ـ جب ہم ناکامیوں ‘ مشکلوں اور مصائب کا سامنا بہادری سے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں اس کا مزہ اور سرور ہی مختلف ہوتا ہے ـ۔

دریاؤں کی روانی سے ملتا ہے یہ سبق
راہوں میں جو چٹان ملے توڑتے چلو

اللہ تعالیٰ  بھی انہی کا ساتھ دیتا ہے’ اپنے معجزے دکھاتا ہے اور بند دروازے کھولتا ہے، جو اس پر کامل یقین رکھتے ہیں ا،ور اپنی مدد آپ کے تحت محنت’ مستقل مزاجی اورصبر و استقلال کا دامن تھامے کمر کَس کر اپنی منزل کی طرف چلتے ہیں۔ ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
فرمانِ نبوی ہے کہ:
” بلاشبہ وہ جیسا چاہے’ جو چاہے’ جب چاہے کر سکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہےـ “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply