سماج (1) ۔ گروہ/وہاراامباکر

زمانہ قدیم سے انسانی سماج موجود رہے ہیں۔ اور انسان ایسے چند ایک جانداروں میں سے ہے جو اتنے بڑے گروہ بنا سکتا ہے۔ اور کسی فرد کے لئے یہ تعلق اسے طاقت بھی دیتا ہے اور شناخت بھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ، جو فرد “اپنوں” میں سے نہ ہو، اسے دیکھنے کا طریقہ الگ ہو جاتا ہے۔ “غیر” کئی بار انسانیت کے رتبے سے بھی گرا دئے جاتے ہیں۔ کسی کو دشمن سمجھنے کے لئے اس کا ناپسندیدہ معاشرے کا ممبر ہونا کافی ہوتا ہے جسے مسل دینا بھی جائز ہو جاتا ہے اور کئی بار پسندیدہ بھی۔ اور یہ تاریخ میں بارہا ہوتا آیا ہے۔

ہم میں فرق معمولی ہوتے ہیں۔ کئی بار بہت ہی معمولی۔ زبان کا لہجہ، رسم، لباس، جلد کی رنگت، قدیم تاریخ کے ہیرو، معیشت کا نظریہ، پیدائش کی جگہ ۔۔۔۔ یہ ہم میں بڑی خلیج پیدا کر دیتے ہیں۔ سیاست سے لے کر طرزِ زندگی میں، یہ ہر جگہ پر نظر آتے ہیں۔
قبیلے اور قومیں، ہمیں جوڑتی ہیں اور ہمیں توڑتی ہیں۔ لیکن کیا یہ انسان کے ساتھ خاص ہے؟
ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ اچھا نہ لگے نہیں، یہ انسان کے ساتھ خاص نہیں۔ کیڑوں سے لے کر انسانوں تک ۔۔۔ سماج بنانے کا قدرت کا نظام ایسا ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا میں بائیں ہاتھ سے کھانا دیکھنے والوں کی طرف سے مشکوک نگاہوں کا باعث بنے گا۔ بلغاریہ میں ہماری طرف سے سر سے کئے گئے انکار کو اقرار سمجھا جائے گا۔ نیوگنی میں سور کو دی گئی تقدیس دنیا کے باقی لوگوں کے لئے حیرت کا باعث ہو گی۔ تامل باغی سری لنکا سے اپنی آزادی کے لئے ہتھیار بلند کریں، سکاٹ لینڈ میں برطاینہ سے آزادی کے لئے تحریک چلائی جائے ۔۔۔ اس علاقے سے باہر والوں کو اس چیز کی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ گروہی شناخت ایک طرف ہمارے لئے اہم ہے اور دوسری طرف لچکدار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوبل انعام یافتہ فلسفی امرتیا سین حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ کسی وقت میں ہماری ایک شناخت کا ایک پہلو باقی سب سے زیادہ مقدم ہو جاتا ہے۔
روانڈا میں 1994 میں بدترین قتلِ عام ہوا۔ یہ دارلحکومت کیگالی سے شروع ہوا جہاں پر اکثریتی ہوٹو قوم کے لوگوں نے اقلیتی ٹوٹسی قوم کو نشانہ بنایا۔ یہ جلد ہی پورے ملک میں پھیل گیا۔ اگلے تین ماہ میں ہوٹو اور ٹوٹسی کے درمیان ہونے والے اس واقعے میں آٹھ لاکھ افراد مارے گئے اور بیس لاکھ بے گھر ہو گئے۔
اس دوران ڈنڈوں اور پتھروں سے عام لوگوں نے عام لوگوں کو قتل کیا۔ اپنے ہمسائے، استاد یا کسی اجنبی کو اس لئے مارا کہ وہ اس کی قومیت سے تعلق نہیں رکھتا۔
ایک ہوٹو مزدور نے ایک ٹوٹسی مزدور کو اس لئے قتل کیا کہ وہ ٹوٹسی ہے۔ لیکن ان کی شناخت کے بہت سے پہلو مشترک تھے۔ قاتل صرف ہوٹو ہی نہیں تھا بلکہ کیگالی کا رہائشی بھی ہے، روانڈا کا شہری بھی ہے، افریقی بھی ہے، مزدور بھی اور انسان بھی۔ اور ان حوالوں سے قاتل اور مقتول میں کوئی فرق نہیں تھا۔
شناخت کے محض ایک پہلو کے جدا ہونے پر یہ سب کچھ؟ ایسا ہونا بلاوجہ نہیں۔
(جاری ہے)

نوٹ: یہ سلسلہ مندرجہ ذیل کتاب کے چند حصوں سے لیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Human Swarm: How our Societies Arise, Thrive and Fall by Mark Moffett

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply