قتل یا شہادت؟۔رابعہ احسن

16 دسمبر2014  کی صبح پاکستانیوں  کے لئے    دکھ کی تاریخ رقم کرگئی۔  اسی تاریخ کو  سقوط ڈھاکہ  سے  پاکستان  دو لخت ہوا تھا،تین سال پہلے اسی صبح   درجنوں ماؤں کی گود اجڑ گئی۔ماں کی گود اور  سردی کے خوف سے  لحاف سے نہ نکلنے والے بچے  بے رحمی سے بم سے اڑا دئیے گئے تھے،جن کے  جسم ٹکڑؤں میں بٹے ہوئے  فرش پر  بکھرے پڑے تھے۔ ان  معصوموں کے ساتھ   خون کی ہولی کھیلی گئی، اس وقت تو تکلیف سے دل اور پھٹتا ہے جب ہمارے نااہل لیڈرز  اس سفاکی اور بربریت کو شہادت قرار دیتے ہیں ۔

یہ کون سی شہادت تھی کون سا   قانون بچوں کو سفاکی سے قتل کرنے کو  شہادت کہتا    ہے ؟
اور حیرت اور تکلیف کا مقام تو یہ  ہے کہ  یہ قتلِ عام ایسے مقام پر ہوا جہاں عام حالات میں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی۔یہ معمہ ہے۔۔ ننھی جانیں کون سے بدلے کی بھینٹ چڑھ گئیں، ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں، باپوں کی کمر ٹوٹ گئی  اور ہم شہادت کا لیبل لگا کر انہیں ایصالِ ثواب کرتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اتنے بڑے سانحے سے بھی کوئی سبق حاصل نہ کیا گیا،کہ باقی بچوں کے لیے کچھ حفاظتی اقدامات کیے جاتے۔ملک میں آئے روز  سکول  اور مدارس میں بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اربابِ اختیار کو چاہیے کہ اس بارے واضح اقدامات کریں تاکہ یہ درندے کسی طور قانون کے شکنجے سے بچنے نہ پائیں ۔ معصوم جانوں  سے خون کی ہولی کھیلنے والوں کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ،یہ زمینی خدا ہیں ،جو جنت کے بہکاوے میں دوزخ کے حقدار ٹھہرتے ہیں ،دعا ہے کہ رب العزت ان شیطانی طاقتوں کو نیست و نابود کردے، ورنہ جانے  مزید کتنے ماں باپ کو اپنے جگر گوشوں کے لاشے اٹھانے پڑیں گے۔اور یہ ظالم دندناتے پھرتے رہیں گے۔ظلم کے نام پر یہ شہادتیں ہوتی رہیں توایک دن ایسا نہ ہو کہ ہم بے بسوں کے ساتھ ساتھ دھرتی بھی اس بوجھ کو  اٹھانے سے انکار کردے!

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply