میں نہ مانوں/محمد جنید اسماعیل

آج کل پاکستان میں “میں نہ مانوں “کا مقابلہ چل رہا ہے ۔حکومت اور پاکستان  تحریکِ انصاف کے درمیان یہ مقابلہ ابھی تک برابری کی سطح پر ہے لیکن جس انداز سے حکومتی ارکان ایک دوسرے کے ہی بیانات کو جھٹلا رہے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر وہ یہ مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ اگرچہ لانگ مارچ میں شرکاء کی تعداد کے حوالے سے متضاد بیانات موجود ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ طرفین کے بیانات محض مبالغہ آرائی  پر مبنی ہیں لیکن پھر بھی لانگ مارچ میں اتنی تعداد ضرور موجود ہے جو کہ نظام کو درہم برہم کرکے حکومت کو دباؤ میں ڈال سکتی ہے ۔اسی خدشے کے پیشِ نظر شاید شہباز شریف صاحب نے مذاکرات کی طرف ہاتھ بڑھائے ہیں لیکن ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اُن کی اپنی کابینہ ہی اس فیصلے سے خوش نہیں ۔اُن کی اتحادی کابینہ ارکان کی طرف سے تو ابھی تک کوئی  ایسا بیان سامنے نہیں آیا جس سے یہ تاثر جائے کہ وہ شہباز شریف کے فیصلے سے کوئی  اختلاف رکھتے ہوں لیکن مسلم لیگ (ن) کے ہی کئی  اہم رہنماؤں کی طرف سے مذاکرات کرنے کی تمام خبروں کی تردید کی گئی  ہے۔مذاکرات کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں میں رانا ثناءاللہ ،خواجہ محمد آصف اور مریم اورنگزیب صاحبہ پیش پیش ہیں ۔

میری رائے کے مطابق مذکورہ رہنما اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر لانگ مارچ اور اُس کی آواز کو دبادیں گے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہوگا ۔لانگ مارچ جہاں بھی ہوئے انہوں نے مُلکی مشینری کو ضرور متاثر کیا اور دیرپا نتائج کے حامل ٹھہرے ہیں ،آج کل سوشل میڈیا کے دور میں طاقت کا استعمال زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے ۔

جہاں ایک طرف حکومت غلط فہمیوں اور اختلافات کی زد میں ہے ،وہیں پر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماء بھی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے باز نہیں آرہے ۔لانگ مارچ کے آغاز سے ہی اسد عمر اور حماد اظہر کے درمیان ہوئی  تلخ کلامی کو حکومتی ارکان نے خوب اُچھالا اور یہ بیانیہ بنایا کہ پاکستان تحریک انصاف کئی  گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے جو کہ اُن کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے حالانکہ اسد عمر کے مطابق وہ فقط جنریٹر کی وجہ سے حماد اظہر سے طیش میں آکر بات کررہے تھے ۔صوبائی  اسمبلی کے رُکن خرم لغاری کی ویڈیو وائرل ہوئی  جس میں اُنہوں نے لانگ مارچ میں جانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا لیکن چند ہی لمحے بعد اُن کی اپنے بیان کی تردید اور لانگ مارچ میں جانے کی ویڈیو منظرِ عام پر آگئی  ۔لانگ مارچ کے دوسرے روز عمران خان مریدکے سے واپس لاہور چلے گئے تو اسد عمر نے شرکاء سے کہا کہ عمران خان ایک اہم ملاقات کے لیے لاہور چلے گئے ہیں ۔اس اعلان کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عمران خان نے فوری طور پر ٹوئیٹ کی کہ وہ کسی ملاقات کے لیے لاہور نہیں گئے بلکہ لانگ مارچ کے لاہور کے قریب ہونے کے سبب وہ زمان پارک میں موجود اپنے گھر چلے گئے تھے ۔عمران خان نے اپنی طرف سے تو وضاحت دینے کی کوشش کی لیکن اُلٹا یہ ٹوئیٹ اُن کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے ۔بہت سے تجزیہ کاروں کا یہ ماننا ہے کہ عمران خان اسد عمر کے مُنہ سے حادثاتی طور پر نکلے سچ کو چھپانے کے لیے ٹوئیٹ پر مجبور ہوئے اور دال میں ضرور کُچھ کالا ہے –

جلتی پر تیل ڈالنے کےلیے علی امین گنڈا پوری موجود تھے ،اُن کی ایک آڈیو لیک ہوئی  جس میں لانگ مارچ میں دنگا فساد کے لیے اسد نامی کسی شخص سے بندوقوں اورمسلح بندوں کی بات ہورہی تھی ،اس آڈیو کو رانا ثناءاللہ نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو سنادیا ،جب ایک ٹی وی چینل پر علی امین گنڈا پوری کو بلایا گیا تو انہوں نے اعتراف کرنے کے علاوہ رانا ثناءاللہ کے خلاف انتہائی  سخت زبان استعمال کرنے کے علاوہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر رانا ثناءاللہ انہیں تنگ کریں گے تو وہ واپسی جواب دیں گے ۔یہ بیان جذبات کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن سیاسی طور پر یہ بیان تحریکِ انصاف کے پُرامن لانگ مارچ کے بیانئے کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے ،ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ اس پر ایکشن لے اور حکومت کی پہلے دی گئی  درخواست پر سپریم کورٹ نے جس لانگ مارچ کو روکنے سے انکار کیا تھا وہ اب روکنے پر مجبور ہوجائے ۔عمران خان کے ایسے نادان دوستوں نے عمران خان کا بے تحاشا نقصان کیا ہے جن میں فواد چوہدری ،شہباز گل کے علاوہ علی امین گنڈا پوری بھی پوری شد و مد سے سامنے آئے ہیں ۔عمران خان کے خلاف ایک بیانیہ بنانے کی جو مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ انڈیا میڈیا اُنہیں مسلسل کوریج کیوں دے رہا ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اس بات کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بھارتی میڈیا ہر ہیجان خیز خبر کو وائرل کرتا ہے اور بے تُکے تبصرے بھی جاری کرتا رہتا ہے ،اس بنیاد پر کسی کو غدار یا مُحبِ وطن نہیں قرار دیا جاسکتا ،اگر ایسا ہو تو ہمارے کئی  سابقہ حکمرانوں کو بھی بھارتی میڈیا نے کوریج دی ہے جن میں نواز شریف سرِ فہرست ہیں اور تب عمران خان نے غدار اور چور والا بیانیہ خوب بیچا ۔بدقسمتی دیکھیے کہ عمران خان کا چلایا گیا ہر تیر اور کیا گیا ہر وار اُنہی کی طرف لوٹ رہا ہے ،وہ چاہے “چور “کا بیانیہ ہو ،کرپشن کا ہو ،اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ سایہ ہونے کا ہو یا کسی اور کا ایجنٹ ہونے کا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ایسے تمام اوچھے ہتھکنڈوں کی بجائے فریقین کو مذاکرات اور جمہوریت کے ذریعے ایک دوسرے کو شکست دینی چاہیئے اور عوام کا پسندیدہ ہونے کا نعرہ مارنا چاہیے ۔

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply