ہالینڈ سے ایک عوامی خط/احمد صہیب اسلم

ڈئیر سفر پر پھرنے والے!

امید ہے بخیریت ہوں گے۔ آج پاکستان کے دی ہیگ والے دفتر میں کال کی تھی۔ ڈچ نام ”ماندائرین“ کے ذریعے وہ جو مالٹے فنکار پاکستان سے منگوائے ہیں، اس سے ایک سٹوری ہاتھ لگی تھی۔ اس پر رائے لینی تھی۔

لگتا ہے کہ پچھلی ای میل میں سادگی سے جو لکھ بیٹھا تھا کہ آفس کال کی تھی تو آفس میں نہیں تھے۔ اس بات پر کوئی سٹاف کی سرزنش کی ہے۔ بُرا لگا، آخر کو معصوم لوگوں پر غصہ نہیں ہونا چاہیے۔ خیر، آج انہوں نے آفس میں غیر موجودگی کا بالکل بھی نہیں بتایا بلکہ کچھ باتوں سے یہ آفس میں غیر موجودگی کی خود ہی سمجھ آ گئی۔

سوچتا ہوں تو یاد پڑتا ہے کہ اتنا بُرا وقت، اس دفتر پر کبھی بھی نہ آیا ہو گا کہ کال گھمانے کے لئے بھی سوچنا پڑتا ہو۔ لگتا ہے کہ بے مثال قیادت سے آفس کو بھی قلاش کر دیا ہے، کہتے  ہیں کہ بارہ دس بجے کے بعد دوبارہ کال کر لیجیے گا۔ کہا کہ پہلے بھی کال کر چکا، انور مسعود کے الفاظ میں ”دبرر، دبرر“ کال کی ذمہ داری کیا ہمی پر ہی ہے؟ جواب آیا کہ چلیں، کوئی نہیں، اتنا بھی کنگال اور قلاش دور نہیں آیا۔ کال ہو گی، ضرور ہوگی اور آپ کو ہی ہو گی مگر وہ مرزا اسد اللہ خان کا کیا غالب مصرعہ ہے۔

”وہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا“

عزیز! ٹھیک ہے کہ ایک پبلک آفس کو سراسر ذاتی سمجھ کر چلانے کے  سٹائل اور طریقے پر تنقید کرتا ہوں، یہ بھی درست ہے کہ یہ بھی کہا تھا کہ مشکل نام والے ”چاچا جی“ کے لئے ذاتی فائدہ تو جو لینا تھا، لے لیا ہے، ملک میں سیلاب آیا ہے، کوئی دو سال معیشت نہیں سنبھلنی، کچھ سوچ لیں، کچھ بڑوں سے بات کر لیں اور کوئی قومی فائدہ بھی کر دیں۔ یہ سب باتیں سوچتا ہوں تو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ”کانڑے“ ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے منہ کیا، گفتم بھی چھپائے پھرتے ہیں۔

پتہ نہیں، لکھتے لکھتے کیوں خواجہ وزیر لکھنوی کا شعر یاد آیا۔
اسی خاطر تو قتلِ  عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

خیر! اپنا خیال رکھیے۔ ابھی بھی اتنا وقت نہیں گزرا کہ کچھ بہتری کے لئے نہ ہو سکے۔
والسلام
احمد صہیب اسلم
لائیڈن
25، اکتوبر 2022

نوٹ: اس عوامی خط کی شخصیات کی نیدرلینڈ میں متعین سفیر پاکستان سلجوق حسین تارڑ اور ان کے والد سینئر ادیب مستنصر حسین تارڑ کی ایک ڈچ آرگنائزیشن کے ذریعے ہالینڈ آمد کے سوالات سے مماثلت بالکل بھی غیر اتفاقیہ ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(راقم، کافی سالوں سے نیدر لینڈ میں مقیم ہیں اور انٹرنیشنل جرنلسٹ کونسل آف پاکستان کے ساتھ ساتھ یورپ کی صحافتی تنظیم یورپیئن پریس فیڈریشن کے ممبر ہیں۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply