میرے نزدیک/رعایت اللہ فاروقی

تحریک انصاف کی خالی شدہ سیٹوں پر ضمنی الیکشن اپنے انجام کو پہنچا۔ دو سیٹوں کو چھوڑ کر نتیجہ لگ بھگ وہی آیا جس کی توقع تھی۔

میرے ہم وطنوں کو کرکٹ کے بعد جس کھیل میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے وہ سیاست ہی ہے، مگر کرکٹ کی نسبت ایک فرق یہ ہے کہ کرکٹ کا تو یہ کچھ نہ کچھ شعور بھی رکھتے ہیں، کیونکہ محلے کی سطح پر ہی سہی مگر یہ اسے کھیل رہے ہوتے ہیں یا جوانی میں کھیل چکے ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف سیاست میں ان کا عملی حصہ کوئی نہیں ہوتا۔ یہ بس اخبار پڑھ کر یا ٹی وی ٹاک شوز دیکھ کر سیاسی مبصر بن جاتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے سیاسی تجزیہ کاروں کے ٹوئٹر ہینڈلز، فیس بک پوسٹ یا یوٹیوب ویلاگز پر بونگیاں مارتے ہوئے بات کا آغاز ہی یوں کرتے ہیں “میرے نزدیک۔۔۔۔۔” یہ مسکین اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ جملہ کہنے کے لئے متعلقہ فیلڈ میں صاحب الرائے ہونا ضروری ہوتا ہے۔

اوپر سے ہمارے سیاستدان اور اینکرز بھی انہیں فریب دینے سے باز نہیں آتے۔ وہ انہیں گمراہ رکھنے کے لئے بکثرت کہا کرتے ہیں کہ پاکستان کا ووٹر بہت باشعور ہے۔

ذرا انصاف سے بتایئے عمران خان کے ساڑھے 3 سال میں ملکی معیشت کا جو حشر ہوا وہ 75 سالوں میں کسی بھی اور حکومت میں ہوا؟ اگر ایسی جماعت کسی ایسی قوم میں ہوتی جو پختہ سیاسی شعور رکھتی تو کیا اپنا وجود بھی برقرار رکھ پاتی؟ ایسا ہرگز نہیں کہ صرف یوتھیے ہی سیاسی شعور سے عاری ہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی یہی صورتحال ہے۔

آپ اس سادہ سے اصول کو دیکھ لیجئے کہ اگر ایک حلقے سے کسی بڑی جماعت کا لیڈر الیکشن کے لئے کھڑا ہو اور مقابلے میں دوسرا امیدوار کسی دوسری پارٹی قائد نہیں بلکہ عام ورکر یا دوسری تیسری صف کا لیڈر ہو تو 90 فیصد چانس یہی ہے کہ جیت قائد محترم کی ہوگی۔ جب پارٹی لیڈر خود کسی حلقے میں امیدوار ہو تو اس کا اس حلقے کا ورکر فطری طور پر ایکسٹرا چارج ہوتا ہے۔ لیکن ضمنی الیکشن کے نتائج پر بات کیا کی جا رہی ہے؟ یہی کہ عمران خان کی جیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت پاپولر ہے۔

جس نام نہاد سیاسی شعور کو اتنی سامنے کی بات بھی نظر نہ آسکے کہ عمران خان کے خلاف تو پی ڈی ایم نے سرے سے انتخابی مہم ہی نہیں چلائی، کوئی بڑے جلسے نہیں کئے۔ حتٰی کہ نون لیگ کی مریم نواز عین ان انتخابات سے قبل سیر سپاٹے کے لئے لندن چلی گئیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوئی میچ فکسنگ تھی۔ انصاف سے بتایئے، ایسے شعور کو سیاسی شعور کہا جاسکتا ہے؟ اور ایسے سطحی لوگوں کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی تجزیہ کاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر آکر بات کا آغاز میرے نزدیک سے کریں؟ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب دماغ چڑیا جتنا ہوتا ہے تو لوگ منہ بطخ جتنا کیوں کھولتے ہیں؟

لگ بھگ تمام سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ لانگ مارچ محض ایک پر فریب دھمکی ہے۔ 25 مئی کے بعد اخیرالمؤمنین نے یہ دھمکی بار بار دی ہے مگر اس کا رسک لینے کی وہ ہمت ہی نہیں کر پا رہے۔ اور اب وہ واضح طور پر اسمبلی میں واپسی کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ وہ باعزت واپسی کیلئے پس پردہ اپنے مطالبات میں سے کسی ایک آدھ مطالبے کو تسلیم کرنے پر زور دے رہے ہیں تاکہ کہہ سکیں کہ حکومت نے ہمارے فلاں مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے لہٰذا ہم اسمبلی میں واپس جا رہے ہیں اور اس حکومت کو باقی شکست ہم اسمبلی میں ہی دیں گے۔ مگر حکومت نے کوئی مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے ضمنی الیکشن کا میچ فکس کر لیا۔ تاکہ اخیر المؤمنین یہ کہہ کر قومی اسمبلی میں واپس آسکیں کہ ضمنی الیکشن میں عوام نے جس اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ میں اس عوامی وزن کے ساتھ اسمبلی لوٹ جاؤں۔

اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے اخیر المؤمنین کو واک اوور دیا؟ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے کوئی انتخابی جلسہ کیوں نہ کیا؟ مریم نواز نے عین ضمنی الیکشن سے قبل پتلی گلی سے لندن کی راہ کیوں لی؟ ایک اور چیز یہ کہ مردان اور صوابی جے یو آئی کا گڑھ ہے۔ یہاں سے پچھلے 40 سال کے دوران اس کی طلبہ تنظیم جے ٹی آئی کے 4 یا 5 مرکزی صدور اور جنرل سیکریٹری آئے ہیں۔ اس حلقے میں ضمنی الیکشن کا جو نتیجہ آیا ہے اس میں جے یو آئی کے مولانا قاسم صرف 8000 ووٹوں سے ہارے ہیں۔ اگر اس حلقے سے مولانا فضل الرحمان کھڑے ہوتے تو عمران خان کی واضح شکست یقینی تھی۔ اور یہ عمران خان کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا اندازہ مولانا کو نہ رہا ہوگا؟ یقیناً ہوگا مگر جب میچ ہی فکس ہو تو پھر؟ حقیقت یہ ہے کہ ان ضمنی الیکشنز کی پی ڈی ایم کیلئے کوئی اہمیت ہی نہ تھی لہٰذا اس کے لئے یہ میچ فکس کرنا کوئی گھاٹے کا سودا نہ تھا۔ اخیر المؤمنین کا 7 سیٹوں سے کھڑے ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ یہ سیٹیں ایک بار پھر خالی ہوں گی کیونکہ ایک سے زائد سیٹوں سے جیتنے والا امیدوار رکھ تو ایک ہی سیٹ سکتا ہے۔ سو اخیر المؤمنین کے ڈرامے پر سرمایہ کاری کیوں کی جائے؟

اگر وہ اس ڈرامے کے نتیجے میں سڑکیں جام کرنے کی دھمکیوں کی بجائے اسمبلی لوٹ آتا ہے تو یہ پی ڈی ایم کی تو جیت ہوئی۔ اس واپسی کا مطلب اخیرالمؤمنین کی بڑی سیاسی شکست کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ جو آدمی اپریل سے دھواں دھار جلسے کرتے ہوئے کہہ رہا ہو کہ آج حکومت گرے گی، کل گرے گی، پرسوں گرے گی اور اس کی دی ہوئی ہر تاریخ بخیر و عافیت گزرتی چلی گئی ہو اور آخر میں وہ حکومت گرانے کے بجائے اسمبلی میں لوٹ آئے تو یہ شکست نہیں تو اور کیا ہے؟

پی ڈی ایم نے اخیر المؤمنین کو یہی شکست دینے کے لئے میچ فکس کیا ہے۔ اور یہ اخیر المؤمنین بھی جانتے ہیں مگر ان کی عاقبت نااندیشی اور بڑی سیاسی غلطیوں کے نتیجے میں اب ان کے پاس سرے سے کوئی آپشن ہی نہیں بچا۔ یہ کڑوی گولی انہیں اب نگلنی ہی ہوگی ورنہ جنرل الیکشنز ایسی عبوری حکومت کرائے گی جو شہباز شریف اور پوسڑ پاڑا والے راجہ ریاض کی تشکیل دی ہوئی ہوگی، کیونکہ آئین کے مطابق عبوری حکومت وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے بنتی ہے۔

اخیر المؤمنین کی مقبولیت کا اصل امتحان تب ہوگا جب نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف میدان میں مقابل ہوں گے۔ اور پی ڈی ایم اپنے تمام بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں ہوگی۔ پی ڈی ایم اسی بڑے معرکے کی تیاری کیلئے اپنے بڑے پلیئرز کو آرام کروا رہی ہے۔ اور اخیرالمؤمنین ہانگ کانگ لیول کی ٹیم کو ہرا کر یوں باور کرا رہے ہیں جیسے کلائیولائیڈ والی ویسٹ انڈین یا سٹیو واہ والی آسٹریلین ٹیم سے کپ جیت گئے ہوں۔ اور ہمارا سوشل میڈیا کا صارف انگلی دانتوں میں دبائے یہ بونگیاں مار رہا ہے کہ میرے نزدیک تو خان ہی اگلا وزیر اعظم ہوگا اور یہ وہ صارف ہے جو کرکٹ کا کم از کم اتنا شعور تو رکھتا ہے کہ اگر بابر اَن فٹ ہوجائے تو یہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اب جیتنا مشکل ہوجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی ایک بڑے پلیئر کے اَن فٹ ہونے سے کرکٹ کا میچ اگر خطرے میں پڑ جاتا ہے تو سیاست کے ضمنی انتخاب والے میچ میں تو پی ڈی ایم کا ایک بھی مین پلیئر میدان میں نہ تھا۔ ایسی صورت میں جیت اخیر المؤمنین کی نہ ہوتی تو کس کی ہوتی؟ اگر میرے نزدیک کہنے والے عام شہری کے پاس سیاسی شعور ہوتا تو وہ اصل بحث یہ کر رہا ہوتا کہ شہباز شریف اور باقی وفاقی وزرا تو قانوناً انتخابی مہم چلا ہی نہ سکتے تھے۔ سو نون لیگ کے پاس وہی لوگ الیکشن مہم کے لئے موجود تھے۔ ایک مریم نواز اور دوسرا حمزہ شہباز۔ ان میں سے مریم لندن کیوں نکل گئیں اور حمزہ کس غار میں چھپا رہا؟ ان دونوں نے الیکشن مہم میں حصہ کیوں نہ لیا؟ایم ایم نیوز

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply