فلم ریویو/مولاجٹ-شاہین کمال

دوستوں کل ہم نے اپنی زندگی کی پہلی پنجابی فلم دیکھی۔ منجھلی اور اس کی دوستیں فلم دیکھنے جا رہی تھیں اور از راہِ  محبت امی کو بھی فلم بینی کی دعوت دی گئی اور امی مارے جوش کے سینگھ کٹا کر بچھڑو میں شامل ہو گئیں۔
فلم تھی دی” لیجنڈ آف مولا جٹ۔ ”

بلال لاشاری کی ہدایت تلے بنی کمال و شاہکار فلم ۔ فلم کی کہانی میں تبدیلی نہیں کی گئی تھی بلکہ وہی پرانی مولا جٹ والی کہانی تھی ۔ جٹوں اور نتوں کی نسل در نسل چلتی دشمنی، جس میں بلآخر مولا جٹ انصاف کا علم بردار بن کر ظلم سے ٹکر لیتا ہے ۔ فلم کا سیٹ شاندار تھا جس میں انگریزی فلموں ، گلیڈی ایٹر اور گیم آف تھرون جیسے سیٹ کی کاملیت اور جھلک تھی۔ تین چوتھائی فلم رات کے وقت فلمائی گئی ہے سو لائٹنگ ایفکٹ زبردست تھا۔ بیک گراؤنڈ میوزک اور لڑائی کے ساؤنڈ ایفیکٹ انتہائی معیاری ۔ وہ بچپن کے زمانے والا دھنشو دھنشو نہیں ۔ تکنیکی اعتبار سے یہ ایک شاندار فلم ہے ۔ ہمیں جو کمی لگی وہ اصلی لوکیشنز کی تھی کہ پاکستان لوکیشنز کے معاملے میں بہت ہی تحیر خیز ملک ہے۔ اگر فلم سیٹ کے بجائے اصلی لوکیشنز پر فلمائی جاتی تو اس کی خوبصورتی میں یقیناً چار چاند سج جاتے۔ ایک انتہائی بلند اور سنگلاخ حویلی کا بیرونی شاٹ بہت ہی متاثر کن اور پُرشکوہ تھا۔
فلم کے مکالمے ناصر ادیب نے تحریر کیے اور خوب کیے۔ فلم کی پنجابی اس قدر آسان تھی کہ ہم سب ٹائٹلز پڑھنے کی زحمت سے بچ گئے ۔
کاسٹ بہت بھرپور تھی مگر یقیناً نگینے کی طرح پیوستہ و آرستہ نہیں ۔
فواد خان ، مولاجٹ کے روپ میں زیادہ نہیں جچے، گو کہ ان کا، کاسٹیوم اور گیٹ اپ اچھا تھا مگر نہ بدن کسرتی اور نہ ہی آواز میں سختی اور کھردرا پن ۔ بلکہ ہمیں تو جگہ جگہ داستان اور ہمسفر کا وہی نرم گفتار دلوں کو لبھاتا ہوا دلبر جوان رعنا ہی نظر آیا۔ اردو کی نرمی، پنجابی کی کھردرے پن پر حاوی رہی۔

اس فلم میں سِرے سے کسی ہیروئن کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ماہرہ بھرتی کا کردار تھیں سو انہوں نے محض خانہ پوری ہی کی۔ پنجابی زبان دانی میں بُری طرح فیل اور اداکاری بھی بیلو ایوریج ۔

حمزہ عباسی نے بلاشبہ اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا اور اداکاری میں مصطفیٰ قریشی کو کہیں پیچھے چھوڑ گئے ۔ ان کا میک اپ، لہجہ ، چلت پھرت اور باڈی لینگویج سب کے سب کمال تھے۔ حمزہ عباسی اور فواد خان کے فٹ ورک    کی  تعریف نہ کرنا شدید زیادتی ہو گی۔ ان دونوں کی دو بدو لڑائی کا  سین بلاشبہ کمال اور فلم کا کلائمیکس تھا ۔ad

فلم کا  پہلا  سین، بابر علی اور ریشم سے شروع ہوتا  ہے اور منٹوں  میں ناظرین کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتا  ہے۔ بابر علی ایک بہترین اور منجھے ہوئے اداکار ہیں اور ہر کردار کو بخوبی نبھاتے ہیں ۔ شفقت چیمہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا کردار عمدگی سے نبھایا ۔

اب بات اس کردار کی جس نے اسکرین پر آگ لگا دی، جو آیا اور چھا گیا کے مصداق تھا ۔
ماکھا کا پاور فل کردار ادا کرنے والے “گوہر رشید ” کی اداکاری کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کی اداکاری ،گیٹ اپ ، باڈی لینگویج ، زبان دانی ، ڈائیلاگ ڈلیوری اور چہرے کا تاثر ایسا مکمل اور بھرپور کہ کہیں ایک آنچ کی بھی کسر نہیں ۔ ایسی شاندار پرفارمنس کہ پلکیں جھپکنا دشوار۔ یہاں اس کردار کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جیسے فلم میں ماکھا( گوہر رشید) نے اغواء کیا تھا، اس اداکارہ کی اداکاری کو سراہنا بے حد ضروری  ہے کہ اس کی اداکاری بڑی جاندار اور غضب کی تھی، خاص طور پر اس کے چہرے کے تاثرات بڑے پُر تاثیر۔ ڈھول کی تھاپ پر کیا گیا اس کا والہانہ رقص نا  صرف کہ شاندار بلکہ فلم کی جان بھی ہے۔ حمائمہ ملک نے ” دارو نتنی” کا کردار خوبصورتی سے نبھایا بس پنجابی لہجے میں ذرا کسر رہ گئی ۔

وہ کردار جس کے ضائع جانے کا ہمیں شدید قلق ہے وہ میرے پسندیدہ اداکار ” نیّر اعجاز “ہیں ۔ یہ وہ اداکار ہیں جو اپنے کردار میں ڈوب ڈوب جاتے ہیں اور ان کا محض ایک شوٹ پوری فلم پر حاوی رہتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس فلم میں ان کی وہ جادوگری مفقود تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بحیثیت مجموعی فلم بہت اچھی تھی۔ پاکستانی سنیما کی واپسی پر دِلی مبارک باد ۔ بلال لاشاری اور ان کی ٹیم کا بہت بہت شکریہ کہ عرصے بعد انہوں نے عوام کو ایک معیاری اور بین الاقوامی درجے کی فلم سے نوازا اور ہمیں عمدہ تفریح فراہم کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply