• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آزادی سے پہلے برصغیر کے مسلمان معاشرے میں فرقہ وارانہ تشدد۔۔۔حمزہ ابراہیم

آزادی سے پہلے برصغیر کے مسلمان معاشرے میں فرقہ وارانہ تشدد۔۔۔حمزہ ابراہیم

نوٹ: یہ ایک نقطہ نظر ہے جو باقاعدہ حوالوں سے مزیّن ہے۔ اس کا جوابی  مضمون کوئی صاحب اسی تحقیقی انداز میں بھیجیں  تو ادارہ اسے شائع کرے گا۔

پاکستان بننے کے بعد فرقہ وارانہ جرائم کے بارے میں بات  کرنے میں ہماری قوم کو ایک شرم کا احساس ہوتا رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جو برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور جانی و مالی تحفظ کو یقینی بنانے اور ہندوتوا کے فاشزم سے نجات پانے کیلئے بنایا گیا  تھا، اس میں اس معاملے پر بات کرنا شرمندگی کا باعث تھا کہ اس ملک میں  جغرافیائی طور پر بکھری ہوئی ایک مسلمان اقلیت کو اسی فاشزم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ میڈیا نے خود پر ایک سنسر شپ نافذ کر لی اور ایسے واقعات میں متاثرین اور حملہ آوروں کی شناخت، اعداد و شمار، اور جرم کے اہداف  کا ذکر چھپانا شروع کر دیا[1]۔ اس پر مستزاد یہ کہ قیام پاکستان کے بعد  سے ہی  تقسیم ہند کے مخالفین کی طرف سے اس قتل و غارت کو دو قومی نظریئے کا نتیجہ کہا جانے لگا، حالانکہ یہ بات  ایک طعنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ دو قومی نظریئے کی بنیاد ہندوؤں  سے نفرت  نہ تھی اور نہ ہندو مت کوئی منظم  مذہب تھا، نیز اس نظریے  کا مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ  کی ہندو دشمنی[2] سے بھی کوئی تعلق نہ تھا، نہ کبھی قائد اعظم نے ان لوگوں کا ذکر کیا۔ اسی لیے مولانا مودودی نے ان کو رجل فاجر کہا، اگرچہ پاکستان بننے کے بعد ان جیسے سیاسی علماء اپنا مذہبی منافرت کا سودا انہی کے نام سے بیچنے لگے۔ دو قومی نظریئے کی بنیاد مسلمانوں کا پاکستان کے علاقوں میں اور ہندوؤں کا ہندوستان کے علاقوں میں آبادی کی اکثریت رکھنا  تھا، جو وسیع علاقے تھے اور  جدید قومی ریاستوں کے تصور کے مطابق الگ قومی ریاستیں بن سکتے تھے۔  اسکے مطابق ہندو علاقوں میں بسنے والے مسلمان یا مسلمان علاقوں میں بسنے والے ہندو اپنے علاقوں کی قوم کا اقلیتی جزو تھے۔اسی لئے جب حسین شہید سہروردی اور صرات چندرہ بوس نے متحدہ بنگال کو ایک تیسری قومی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے برصغیر کے مشرق و مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے جغرافیائی اور ثقافتی فرق کو دیکھتے ہوئے  بنگال کی قوم کی تشکیل کے اس منصوبے کی حمایت کی۔ اسطرح وہ برصغیر میں تین قوموں، یعنی تین قومی ریاستوں،  کے وجود میں آنے کے  حامی تھے لیکن کانگریس اور ہندو مہاسبھا نے بنگال کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے پر زور دیا اور یوں مشرقی پاکستان وجود میں آیا۔

شیعہ سنی مسئلے کی بنیاد قومی نہیں تھی بلکہ یہ مذہبی منافرت کا  مسئلہ تھا جو پاکستان کو ورثے میں ملا اور اسکی جڑیں ان علاقوں میں گہری تھیں جہاں شاہ ولی اللہ  وغیرہ کے اثرات گہرے ہو چکے تھے۔  چنانچہ قیام پاکستان کے بعد   پختون  اور مہاجر آبادی والے علاقوں میں شیعوں پر زیادہ حملے ہوئے ہیں۔

بہر حال اس  شرمندگی کی وجہ سے  ہمارے معاشرے کے اس اہم مسئلے پر جدید سماجی   علوم کی روشنی  میں بحث نہ ہو سکی، اور آج بھی اس کو سعودی ایران پراکسی یا پاکستان کو بدنام کرنے کی انڈین یا  امریکی سازش کہہ کر چھپایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ قدیم ہے اور اسکی جڑیں اٹھارویں صدی میں شروع ہونے والے  تطہیر ِمذہب کے عمل (Islamic puritanism) میں ہیں ۔ میڈیا کا شیعہ کشی کے معاملے پر شرمانا  ایک طرح کا ” مٹی پاؤ “ رجحان ہے، لیکن اس سے حملہ آوروں کو کاروائیاں جاری رکھنے کا لائسنس مل گیا۔ ذیل میں قیام پاکستان سے پہلے اس مسئلے کی موجودگی اور اس کے عروج تک پہنچ جانے کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

 انیسویں صدی میں فرقہ وارانہ دہشتگردی

شمالی برصغیر  میں  شیعوں کے خلاف منظم حملوں کا آغاز 1802 میں کربلا پر نجد سے جانے والے وہابی  لشکر کے حملے[3] اور اس   کو نمونہ ءعمل سمجھ کر 1818 سے 1820 کے درمیان  اودھ ، بہار اور بنگال میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی  کی طرف سے تعزیے اور امام بارگاہیں جلانے سے ہوا۔باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:۔
” دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے اور جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:

’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہیے‘۔

سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کاذکر کیا ہے“[4]۔

انکی تحریک سیاسی تحریک نہ تھی بلکہ اسلحے کی مدد سے سیاسی اور مذہبی مقاصد کے حصول کی کوشش تھی جو دہشتگردی کی ہر تعریف پر پوری اترتی ہے۔ ان دو صاحبان نے 1826 میں پشاور میں ایک  طالبانی ریاست قائم کی جو 1831 میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہی انجام کو پہنچی[5] لیکن اس نے یہاں کے  مذہبی رویوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اس کے بعد سے جتھوں کی شکل میں جلوسِ عزا اور امام بارگاہوں پر حملوں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔   ایسے تنازعات پر دہلی اردو اخبار کی  22 مارچ 1840ء کی ایک خبر ملاحظہ کریں:۔

’’سنا گیاکہ عشرۂ محرم میں باوجود اس کے کہ ہولی کے دن بھی تھے اس پر بھی بسبب حسن انتظام صاحب جنٹ مجسٹریٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے بہت امن رہا۔ کچھ دنگا فساد نہیں ہوا ۔ صرف ایک جگہ مسمات امیر بہو بیگم بیوہ شمس الدین خان کے گھر میں، جو شیعہ مذہب ہے اور وہاں تعزیہ داری ہوتی ہے ،کچھ ایک سنی مذہبوں نے ارادہ ءفساد کیاتھا لیکن کچھ زبانی تنازع ہوئی تھی کہ صاحب جنٹ مجسٹریٹ کے کان تک یہ خبر پہونچی ۔ کہتے ہیں کہ صاحب ممدوح جو رات کو گشت کو اٹھےتو خود وہاں کے تھانہ میں جاکے داروغہ کو بہت تاکید کی اور کچھ اہالیان پولس تعین کیے کہ کوئی خلاف اس کے گھرمیں نہ جانے پاوے۔ سو خوب انتظام ہو گیا اور پھر کہیں کچھ لفظ بھی نزاع کا نہ سنا گیا ‘‘[6]۔

کنہیا لال نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“ میں لکھا ہے:۔

”1849ء میں اس مکان (کربلا گامے شاہ) پر سخت صدمہ آیا تھا کہ 10 محرم کے روز جب ذوالجناح نکلا تو رستہ میں، متصل شاہ عالمی دروازے کے، مابین قوم شیعہ و اہل سنت کے سخت تکرار ہوئی۔ اور نوبت بزد و کوب پہنچی۔ قوم اہلسنت نے اس روز چاردیواری کے اندرونی مکانات گرا دیئے۔ مقبرہ کے کنگورے وغیرہ گرا دیئے۔ چاہ کو اینٹوں سے بھر دیا۔ گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر ایڈورڈ صاحب دپٹی کمشنر نے چھاونی انارکلی سے سواروں کا دستہ طلب کیا تو اس سے لوگ منتشر ہو گئے۔ اور جتنے گرفتار ہوئے ان کو کچھ کچھ سزا بھی ہوئی“[7]۔

مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ”یادگار چشتی“ مطبوعہ 1859ء میں لکھتے ہیں کہ : ۔

”اور ہر بازار میں لوگ واسطے دیکھنے کے جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف سے گلاب کا عرق اس (ذوالجناح) پر چھڑکا جاتا ہے مگر بعض تعصب سے اس کو ہنسی کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو ”مدد چار یار“ کہتے ہیں اور اکثر اس پر کشت و خون ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جب میجر کر کر صاحب بہادر لاہور میں ڈپٹی کمشنر تھے، تب سنی شیعہ میں بہت فساد ہوا اور بہت لوگ مجروح ہوئے۔ تب سے اب ہمیشہ شہر لاہور میں ڈپٹی کمشنر صاحب اور کوتوال اور تحصیل دار اور سب تھانے دار لوگ اور ایک دو کمپنی پلٹن کی اور ایک ملٹری صاحب اور ایک رسالہ، شیعہ لوگوں کی محافظت کے واسطے گھوڑے کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ کوئی سنی دست درازی نہ کر سکے۔ مگر تو بھی وہ لوگ باز نہیں آتے“ [8]۔

یوں آج سے تقریباً  ڈیڑھ سو سال قبل ہی شہروں میں عزاداری کیلئے حفاظتی انتظامات کئے جانے لگے تھے، اور آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آج دیہاتوں تک بھی پہنچ گیا ہے۔ اس زمانے میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے پیروکاروں کےلیے ’وہابی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں یہ  مکتب فکر دیوبندی اور اہلحدیث میں تقسیم ہو گیا۔ انگریز دورمیں مرتب کردہ کچھ گزیٹئرز  موجودہ پاکستان کے علاقوں میں وہابیوں کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ درج ذیل جدول میں ان  گزیٹئرز   میں موجود اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔

انگریز دور کی مردم شماری کے مطابق   مسلمان آبادی میں وہابیوں  کا تناسب
سال ضلع وہابیوں کی تعداد گزیٹئر کے صفحے کا حوالہ
98–1897 پشاور 0.01% صفحہ 110
84 –1883 شاہ پور 0.07% صفحہ 40
84 –1883 جھنگ 0.02% صفحہ 50
94 – 1893 لاہور 0.03% صفحہ 94

جہاں یہ اعداد و شمار سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے پیروکاروں  کی ان علاقوں میں موجودگی کا پتا دیتے ہیں، وہیں ان میں بتائی گئی تعداد اصل تعداد سے کم ہے کیوں کہ اس زمانے میں وہابی کہلاۓ جانے والے لوگ انفرادی زندگی میں اپنے مسلک کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہابیوں میں تقیہ کے اس رجحان کی طرف لاہور کےگزیٹئرمیں ان الفاظ میں  اشارہ کیا گیا ہے:۔
”وہابیوں کی گنتی انکے اصلی تخمینے سے بہت کم ہے؛ شاید اکثر وہابی مسلمانوں نے اپنی وہابی شناخت کو ظاہر کرنا محفوظ نہ سمجھا“۔

اسکی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ انگریزوں نے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کو بنگال اور بہار میں لشکر بنا کر رنجیت سنگھ کے خلاف لڑنے میں مدد دی تھی، لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ ان مسیحیوں سے بھی نفرت کرتے ہیں اور انہیں حد سے زیادہ طاقتور نہیں ہونے دینا۔ لہذا جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا تو اس گروہ کے خلاف کاروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں یہ لوگ تقیہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ زمانہ حاضر میں بھی شام میں اسد کے خلاف داعش کی سہولت کاری اور ضرورت  ختم ہونے کے بعد اس کا ڈنگ نکالنے کی شکل میں وہی طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں  شیعہ مخالف تشدد

پشتو کے عظیم شاعر غنی خان اپنی  کتاب ”پشتون“ کے دسویں باب  ”سیاست“میں لکھتے ہیں:۔

”وادیٴ تیراہ میں سنی مسلمانوں کی  ایک وسیع ، متحرک اور نر آبادی ہے جبکہ  ایک چھوٹی، ذہین اور چالاک  شیعہ اقلیت بھی بستی ہے۔دونو ں فرقے خالص آفریدی خون اور وجود کے مالک ہیں۔ وہ (برطانوی) ہند اور افغانستان کے بیچ میں آ گئے ہیں اور انھیں اسکی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ جب (افغان بادشاہ) امان الله خان نے تھوڑا سر اٹھایا اور جیسا کہ وہ تھا، ایک لا پرواہ اور لاابالی پٹھان جو کود پڑتا ہو، گورے صاحبوں کو یہ پسند نہ آیا۔ اور جب امان اللہ اپنی ملکہ کے ہمراہ یورپ کے مراکز ِ اقتدار میں ڈانس کر رہا تھا، حسد اور مہم جوئی نے بھوک اور جہالت اور مسیحی سونے کی چمک کے ساتھ مل کر افغانستان کے مرکزِ اقتدار میں تباہ کن لشکر کی شکل اختیار کر لی تھی۔

تیراہ کے شیعہ اپنے پڑوسیوں سے زیادہ ذہین تھے۔ امان الله کھلے ذہن کا آدمی اور اسلام کے مختلف فرقوں کو برداشت کرنے والا شخص تھا۔ تیراہ کے شیعہ اس سے محبت کرتے اور اسکی حمایت کرتے تھے۔ وہ جوان بادشاہ کی حمایت میں جنوب سے دفاعی لشکر بھیجنے کو تیار تھے۔ لیکن ٹھہرئیے! افغان مولویوں  کی رنجش کے ساتھ ساتھ تیراہ میں بھی فصیح و بلیغ مولوی منظرِ عام پر آ ئے ، لیکن وہ شیعوں کے بجائے سنیوں سے مخاطب تھے۔  اور ایسے میں جب افغانستان کی علم میں ڈوبی داڑھیاں اور بھاری پگڑیاں نوجوان بادشاہ کے غیر اسلامی، غیر پختون اور  ”عیسائی“ طور طریقوں  کے خلاف تقدس  بھرےغیظ و غضب سے ہل رہی تھیں،  تیراہ میں وہ شیعوں کے خلاف جنبش میں آئیں، جنہیں حضرت عثمانؓ  ذوالنورین کا قاتل قرار دیا گیا۔  عشاقِ عثمان کی اکثریت برطانوی ہندوستان کے سیٹلڈ  ایریاز (پختون شہری علاقوں) سے آئی تھی۔ شیعہ قتل کرنے والے کو  جنت اور حوروں کی نوید سنائی گئی۔ آفریدیوں نے اس پر کان دھرے۔ سونے اور حوروں کی پیشکش ان کیلئے بہت پر کشش تھی۔ انہوں نے اپنی رائفلیں سنبھالیں اور جنت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف شیعوں ، بلکہ مویشیوں اور درختوں کی خوفناک تباہی تھی۔ جن وادیوں میں شیعہ رہتے تھے، وہ ویران ہو گئیں۔ ان کےمیوہ جات کے باغات کے بے شمار درخت کاٹ ڈالے گئے۔ سینکڑوں سال پرانے بادام اور چنار کے درخت  چلتی ہوئی آریوں کا شکار ہوئے۔ شیعہ ایسے تباہ ہوئے کہ انہیں امان الله خان کی حمایت کا خیال بھی بھول گیا۔

انہوں نے اپنے عقل کی قیمت اپنے خون اور آنسوؤں سے ادا کی، اور امان اللہ نے اپنی بصیرت کی قیمت اپنے تاج و تخت سے ادا کی۔ اپنی آزادی کے اظہار کی جرات کرنے کے جرم میں وہ اپنی واحد سلطنت سے اور افغانستان اپنے اکلوتے (صحیح معنوں میں) بادشاہ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اور ایک ارمان کی مدد کرنے کے جرم میں شیعہ اپنے بچوں اور باغات سے محروم ہو گئے۔ ایک بے حس ، زیرک اور موثر منصوبہ بندی کی مدد سے کیا گیا بے رحمانہ عمل!

میں یہ فیصلہ کرنا آپ پر چھوڑتا ہوں کہ اس خون ریزی ،  دہشت، سیاہی اور نفرت  سے کس نے فائدہ اٹھایا؟

یہ قبائلی علاقوں میں اس قسم کی ہزاروں داستانوں میں سے محض ایک داستان ہے۔ اسکا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ کچھ سنیوں کو شاید پتا نہ ہو کہ کس نے ان کو استعمال کیا لیکن شیعوں کو خوب معلوم ہے کہ ان پر کس نے ضرب لگائی۔ کچھ پختوں امان الله کو بچانے میں ناکام رہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ کیوں؟“ [9]۔

یہ مختصر  کتاب ”دی پٹھان“ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ بھی ہو چکی ہے۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا ایک پیمانہ اقلیت کا تقیہ کرنا ہے۔ اگر کمزور گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ انفرادی زندگی میں اپنا مذہب و مسلک یا دوسری شناخت چھپانے لگ جائیں تو یہ اس معاشرے میں ان کو برداشت نہ کئے جانے کی علامت ہوتی ہے۔ چنانچہ نارمن ہولسٹر اپنی کتاب “دی شیعہ آف انڈیا” کے صفحہ  181 پر لکھتے ہیں کہ: ۔

”کچھ عشروں تک مردم شماری میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کو الگ الگ گنا جاتا رہا۔ 1911ء اور 1921ء کی مردم شماری میں اکثرریاستیں اور  صوبے شامل تھے، لیکن نتائج غیر تسلی بخش تھے۔ مثال کے طور پر 1921ء میں بہار اور اڑیسہ کی مردم شماری میں صرف تین ہزار سات سو افراد نے خود کو شیعہ ظاہر کیا جبکہ مردم شماری کے سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ :’ یقینی بات ہے کہ یہ اعداد و شمار مکمل نہیں ہیں کیوں کہ بہت سے شیعوں نے اپنا مسلک ظاہر کرنے سے اجتناب برتا’۔  پٹنہ کی قانون ساز کونسل میں مردم شماری سے ایک دن پہلے ایک شیعہ رکن اسمبلی نے یہ اعلان کیا کہ شیعہ مسلکی بنیادوں پر اپنا الگ اندراج نہیں کروائیں گے۔ اس وقت لگائے گئے اندازے کے مطابق شیعہ آبادی  کم از کم سترہ ہزار، یعنی مردم شماری میں ظاہر ہونے والی تعداد سے پانچ گنا زیادہ تھی۔پٹنہ شہر میں اندازہ دس ہزار کا تھا جبکہ مردم شماری میں صرف ایک ہزار افراد نے اپنا شیعہ ہونا ظاہر کیا۔چنانچہ 1931ء اور 1941ء کی مردم شماری میں شیعوں کا الگ اندراج کرنے کی کوشش ترک کر دی گئی“۔

قیام پاکستان سے پہلے شمالی ہندوستان میں ہندو مسلم تصادم اتنا شدید نہیں تھا جتنا  کانگریسی علماء  کی کوششوں سے شیعہ سنی تصادم شدید  کر دیا گیا تھا[10]۔  1940 میں ہی بات بم دھماکوں تک پہنچ چکی تھی۔ نارمن ہولسٹر اپنی کتاب “دی شیعہ آف انڈیا” کے صفحہ 178 میں لکھتے ہیں:۔

” محرم میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔ شہروں میں پولیس کو جلوس  کے ساتھ جانا پڑتا ہے، جلوس بھی مخصوص راستوں سے ہی گزر سکتا ہے۔  محض  ایک دن کے   اخبارات میں چھپنے والے یہ جملے معاملے کی سنگینی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ اگر حکومت حالات کو کنٹرول میں نہ رکھے تو کیا کچھ ہو سکتا ہے:

‘مناسب اقدامات نے نا خوشگوار واقعات کو ہونے سے پہلے روک لیا’،’محرم پر امن طریقے سے گزرا’، ‘ سب دکانیں بند رہیں تاکہ امن برقرار رہے’ ، ‘ الہٰ آباد سے بیس کلو میٹر دور متعدد خواتین نے جلوس ِعزا کے سامنے ڈیرہ ڈال دیا، وہ اپنے علاقے سے جلوس گزرنے پر احتجاج کر رہی تھیں ‘، ‘  امن دشمنوں کی طرف سے متوقع فساد کو روکنے کیلئے پولیس نے مناسب اقدامات کئے’، ‘ مہندی کے جلوس پرپولیس کا  لاٹھی چارج ، مسلمان محرم نہ منا سکے، تعزیہ کا جلوس برآمد نہ ہو سکا، ہندو اکثریت والے علاقوں میں کاروبار جاری رہا ‘، ‘ جلوسِ عزا پر بم حملہ’،

اگرچہ اس قسم کے سب واقعات کی وجہ فرقہ وارانہ تعصب نہیں ، لیکن اکثر واقعات کے پیچھے فرقہ واریت ہی ہے۔ برڈ ووڈ کے بقول  بمبئی میں، جہاں ماہ محرم کے پہلے چار دن مختلف گروہ دوسروں کے تابوت خانوں میں جا کر سلام کرتے ہیں، خواتین اور بچوں سمیت لوگ وہاں جاتے ہیں، لیکن پولیس نے ہدایت کی ہے کہ سنیوں کو نہ آنے دیا جائے تاکہ کوئی دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو جائے ” [11]۔

مسلکی فتنہ انگیزی کے ساتھ ساتھ  کانگریس کے اتحادی علماء کی طرف سے جناح کے مسلک کوبنیاد بنا کر انکو سیاسی قیادت کیلئے نا اہل ثابت کرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ لیکن عوام اپنے مفادات کو مسلکی اختلاف پر ترجیح دیا کرتے ہیں۔  مسلمان عوام یہ بھی جانتے تھے کہ ہندو مسلم الگ قومیت کے برعکس شیعہ سنی میں الگ ثقافت اور الگ  جغرافیائی وحدت  کا سوال نہیں ہے۔ کانگریسی علماء اپنے کمزور سیاسی پروگرام اور تحریک خلافت میں ہونے والی حماقتوں کی  تاریخ کی وجہ سے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔  مسلم لیگ مسلمان عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ شیعہ سنی فساد بھڑکانے سے کانگریس کا مقصد  مسلمانوں کے آئینی حقوق کے معاملے کو  پس پشت ڈالنا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران آزادی کی تحریک نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تو شیعہ مخالف تشدد میں کافی کمی آ گئی لیکن   پاکستان بننے کے بعد شیعوں پر حملے دوبارہ شروع ہو گئے تھے[12] جس میں ”تنظیمِ اہلسنت“ اور ”مجلسِ احرار“ کا وہی کردار تھا جو   نوے کی دہائی میں سپاہِ صحابہ کے عنوان سے اور آج کل اہلسنت و الجماعت کے لیبل سے  پیش کیا گیا ہے۔ لکھنو کے شیعہ سنی  فسادات کے معمار، جعلی سیکولر نیشنلسٹ،  مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور شہر  بہ شہر فسادات بھڑکائے۔ ان شاگردوں  میں مولانا نورالحسن بخاری، مولانا عبدالستار تونسوی، مولانا سرفراز گکھڑوی، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا مفتی محمود وغیرہ شامل ہیں۔

1949ء میں چوٹی زیریں اور 1950ء میں نارووال میں محرم کے جلوس پر حملے ہوئے۔ 1955ء میں پنجاب میں پچیس مقامات پر عزاداری کے جلوسوں اور امام بارگاہوں پر حملے کیے گئے جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اسی سال کراچی میں ایک مولانا صاحب نے افواہ اڑائی کہ شیعہ ہر سال ایک سنی بچہ ذبح کر کے نیاز پکاتے ہیں، اس افواہ کے زیر اثر کراچی میں ایک بلتی امامبارگاہ پر حملہ ہوا اور بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے۔1957ء میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں محرم کے جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا۔جون 1958ء میں بھکر میں ایک شیعہ خطیب آغا محسن ؒکو قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے اعترافی بیان میں کہا کہ تنظیم اہلسنت کے مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر نے اس کو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے والے کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گئی تھی اور جنت کی بشارت دی گئی تھی۔3 جون 1963ء کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئی جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عاشورا کے دن120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا[12]۔

دو سو سالہ مسئلہ

مذہب کی بنیاد پر قتل کرنے والوں  کے    لیبل بدلتے رہے ہیں لیکن فکر وہی سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی ہے۔ وہ معاشرے میں اپنے مخالفین کا قتل عام کر کے ایک یو ٹوپیا قائم کرنا چاہتے تھے۔  چنانچہ شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں:-

“آن جناب (سید احمد بریلوی) کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہوگئی ہے۔ جس کسی نے آں جناب کی امامت قبول کرنے سے انکار کیا تو وہ باغی ہے، اس کا خون حلال ہے اور اس کا قتل کفار کے قتل کی طرح عین جہاد ہے اور اس کی ہلاکت تمام اہل فساد کی ہلاکت کہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔ چوں کہ ایسے اشخاص کی مثال حدیثِ متواترہ  کی رو سے  جہنم کے کتوں اور ملعون شریروں جیسی ہے۔ یہ اس ضعیف کا مذہب ہے، پس اس ضعیف کے نزدیک اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کا جواب تلوار کی ضرب ہے”[13]۔

اگرچہ دنیائے عرب میں داعش نے اب ظہور کیا ہے، لیکن ہمارے علاقے کے لوگ دو سو سال سے اس مصیبت میں مبتلا ہیں۔ اس وقت سے جب نہ حجاز میں سعودی عرب تھا نہ امریکا سپر پاور بنا تھا۔ یہ کہنا کہ یہ بیرونی قوتوں کی سازش ہے، اور افغان جہاد سے پہلے اس علاقے میں ایسا کچھ نہ تھا، دراصل غلط جگہ پر نشانہ لگانا ہے۔ بیرونی ہاتھوں پر ذمہ داری ڈالنے کا مطلب ہے کہ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے۔  اس سوچ کو بدل کر اس مسئلے کی مقامی حیثیت کو تسلیم کرکے اس کے حل کی ذمہ داری قبول کرنے  اور اپنی آنے والی نسلوں  کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب مرض کی تشخیص ٹھیک  ہو جائے تو علاج بھی ہو جایا کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات

  1. Zaidi, “Covering Faith–Based Violence: Structure and Semantics of News Reporting in Pakistan”, in: J. Syed, E. Pio, T. Kamran, A. Zaidi (eds), Faith Based Violence and Deobandi Militancy in Pakistan. Palgrave Macmillan, London, (2016).
  1. ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہٴ تاریخ“، باب9، 10؛صفحات82، 95۔105؛فکشن ہاؤس لاہور، (2012)۔
  2. Charles Allen, “God’s Terrorists: The Wahhabi Cult and the Hidden Roots of Modern Jihad“, pp. 63–64, Abacus, (2006).
  3. Metcalf, “Islamic revival in British India: Deoband, 1860–1900”, p. 58, Princeton University Press (1982(
  4. ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہ ٔتاریخ“، باب 11،صفحات 107 ۔ 121، فکشن ہاؤس لاہور، (2012).
  5. مرتبہ خواجہ احمد فاروقی، ’’دہلی اردو اخبار ‘‘، 22 مارچ 1840ء، شائع کردہ شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، جمال پرنٹنگ پریس دہلی،( 1972)۔
  6. کنہیا لال، ”تاریخ لاہور“، صفحہ 305، وکٹوریہ پریس لاہور، (1884)۔
  7. مولوی نور محمد چشتی، ”یادگارِ چشتی“، مرتبہ گوہر نوشاہی، صفحہ 237، مجلسِ ترقیٴ اردو ادب، لاہور، مطبوعہ (1859)
  8. Khan Abdul Ghani Khan, “The Pathans”, pp. 48 – 49.
  9. Dhulipala, “Rallying the Qaum: The Muslim League in the United Provinces, 1937–1939”. Modern Asian Studies, 44(3), 603–640, (2010).
  10. Hollister, ” The Shia of India“, p–178, Luzac and Company Ltd, London (1953)
  11. Andreas Rieck, “The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority“; pp. 94 – 97, 110; Oxford University Press, (2016).
  12. مکاتیبِ سید احمد شہید، مخطوطہ عکسی ایڈیشن، صفحہ 75۔

مآخذ:

قیامِ پاکستان سے پہلے پنجاب اور پختون خواہ میں فرقہ وارانہ تشدد

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply