• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(بائیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(بائیسواں دن)۔۔گوتم حیات

آج تیرہ اپریل ہے، لاک ڈاؤن ختم ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں۔ افواہیں گرم ہیں کہ لاک ڈاؤن کی معیاد کو کچھ دنوں کے لیے مزید آگے بڑھا دیا جائے گا، لیکن حتمی طور پر نہیں معلوم کہ ایسا ہو گا بھی یا نہیں۔ مغرب کے وقت میں نے چند منٹوں کے لیے نیوز چینلز پر خبروں کا جائزہ لیا، لیکن اس بارے میں کسی بھی قسم کی کوئی خبر مجھے نظر نہیں آئی۔

پچھلے دو دن سے حیران کُن حد تک گرمی میں اضافہ ہوا ہے، اپریل کا مہینہ تو گرم ہی ہوتا ہے لیکن یہ گرمی معمول سے ہٹ کر ہے، اب تو رات کو بھی فضا میں حبس رہنے لگا ہے۔ گرمی کی شدت میں تیزی کی وجہ سے سکون سے بیٹھنا محال ہو گیا ہے، سُستی اتنی کہ سارا دن سو کر گزرتا ہے یا پھر بار بار نہانے کا جی چاہتا ہے، اگر میرے گھر پر پانی (بورنگ) کی مقدار زیادہ نہ ہوتی تو نہانا بھی مشکل تھا۔ شہر بھر میں پانی کی قلت عرصہ دراز سے ہے۔ ماہرین کے مطابق پانی کی یہ قلت فطری نہیں بلکہ مصنوعی ہے، اس کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت شہر پر حکومت کرنے والوں نے پروان چڑھایا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب شہری بھی یہ بات فراموش کر چکے ہیں کہ “ٹینکرز” جو شہر بھر میں پانی سپلائی کر رہے ہیں وہ کہاں سے آ رہا ہے۔۔۔ جانے کیوں مجھے اچانک اس لمحے پروین رحمٰن یاد آنے لگی  ہیں۔۔۔ پروین رحمٰن کو قتل کر دیا گیا تھا، ان کے قتل کے پیچھے کون لوگ ملوث تھے، حتمی طور پر کچھ کہنا مناسب نہیں، لیکن کچھ روایات ہیں جو اکثر مجھے اپنی طرف مائل کرتی ہیں،میرے کان میں سرگوشی کرتی ہیں اور ان سرگوشیوں میں پروین رحمٰن کی آواز مجھے کہتی ہے۔۔
“عاطف بہت کچھ تو تمہیں  بھی معلوم ہے، آخر تم نے بھی تو اسی شہر میں اپنی زندگی گزاری ہے، کیا روایات کا سہارا لے کر تم قاتلوں کی نشاندہی نہیں کر سکتے؟۔ آخر کب تک خاموشی کے لبادے میں اپنے آپ کو یوں چُھپا کر رکھو گے، آج میں قتل کر دی گئی، کل کوئی اور قتل ہو گا، کیا معلوم تم بھی کسی دن میری طرح دن دیہاڑے ۔۔۔۔ قتل ہونا تو اس شہر میں ایک عام بات ہے”۔

روایات تو بہت سی ہیں اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ “پروین رحمٰن” کو جن لوگوں نے قتل کیا ان کا تعلق پانی فراہم کرنے والے ٹینکرز “مافیا” اور “لینڈ گریبرز” سے تھا جنہوں نے بڑی تعداد میں غریب لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے انہیں ان کے جائز ملکیتی حقوق سے محروم کیا تھا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پروین رحمٰن کے پاس رینجرز کی سرپرستی میں ٹینکرز مافیا کی طرف سے پانی چوری کر کے فروخت کرنے کے باقاعدہ تصویری ثبوت بھی تھے اور یہ لاکھوں کروڑوں کا کاروبار تھا جو ان غاصبوں کو ہر گزرتے دن مالدار بنا رہا تھا، بلکہ یہی نہیں پروین صاحبہ کے پاس تو اُن بد نصیب لوگوں کی زمینوں کے ثبوت بھی تھے جن کو لینڈ گریبرز نے ہتھیا لیا تھا۔

اور وہ قتل کر دی گئیں، شہر میں ٹینکرز مافیا اور لینڈ گریبرز کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا۔ آج بھی شہر کی اکثریت واٹر ٹینکرز (مافیا) کی محتاج ہے لیکن کوئی ایسا شخص نہیں جو ان کو چیلنج کرے۔آج مشال خان کی برسی ہے، مشال کو 2017 میں یونیورسٹی میں ایک ہجوم نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔

دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہجوم میں سبھی شامل تھے، سکیورٹی پلک جھپکتے ہی بجلی کی طرح غائب ہو گئی تھی کہ جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ یونیورسٹی کے تمام لڑکے مشال پر اپنے فرسودہ عقائد کی تلوار یں لے کر ٹوٹ پڑے تھے۔ مشال کا نہتا  ، زخموں سے چُور بدن آخر کتنی دیر تک مدافعت کرتا، اس کو ڈھا دیا گیا تھا، اب لڑکے اس کے زخمی وجود کے اوپر مکمل طور پر قابض تھے۔ قتل کرنے والا ہجوم اور قتل ہونے والا وجود ایک ہی زبان، ثقافت، مذہب اور قوم سے تھے ،ان کے درمیان اگر کچھ مختلف تھا تو وہ محض مذہبی توجیحات کا فرق تھا۔

مذہبی تنگ نظری کی دلدل میں لتھڑا ہوا وہ ہجوم مشال کو بھی اپنے ہی جیسا بنانے کے لیے بےچین تھا۔ جب انہیں اس بات کا قوی یقین ہو گیا کہ اس کو اپنے جیسا بنانا ناممکن ہے تو انہوں نے اپنی تاریخی روایات کا سہارا لیتے ہوئے اسے بے دردی سے قتل کر دیا۔ مشال کو دن کی روشنی میں درسگاہ کی چار دیواری کے اندر قتل کیا گیا، اس کے قتل میں درسگاہ بھی برابر کی شریک تھی اور وہ اساتذہ بھی جو بڑے فخر سے ڈگریوں کے انبار تلے ایسے لڑکوں کی پرورش کرتے رہے جن کو درسگاہ میں نہیں بلکہ کسی جیل کی اندھی کوٹھڑی کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا۔

مشال ختم کر دیا گیا، اس کو بچانے کے لیے کوئی نہ آیا، مسیح کے زخمی وجود کو بھی جب صلیب پر چڑھایا گیا تو کوئی اس کی مدد کو نہیں پہنچا تھا۔ مسیح و مشال کے درمیان صدیوں کا فرق ہے، لیکن جو چیز مشترک ہے وہ ہجوم کی تنگ نظری اور شدت پسندی ہے۔
ہجوم کل بھی قاتل تھا، ہجوم آج بھی قاتل ہے۔
مسیح و مشال کل بھی تنہا تھے اور آج بھی تنہا ہیں۔
ان کے تنہا وجودوں کو کاش بروقت سہارا مل سکتا۔۔۔

شام کو میں سو کر اُٹھا تو صائمہ کی مِسڈ کالز اور میسیجز آئے ہوئے تھے۔ اس کے میسیجز دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی لیکن ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی کہ ان عذاب ناک دنوں میں کچھ اچھی چیزیں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ صائمہ نے راشن کے سامان کی کچھ تصویریں بھیجی ہوئی تھیں اور میسیجز میں لکھا تھا کہ
“عاطف یہ سب سامان ہمیں پاکستانی ایمبیسی کی طرف سے مفت فراہم کیا گیا ہے، وہ لوگ یہ سامان گھر پر خود دینے کے لیے آئے تھے”، میں نے صائمہ کو فوراً کال بیک کی تو اس نے مجھے بتایا۔۔
قونصل جنرل پاکستان میلان اٹلی کی جانب سے پاکستانی کمیونٹی خاص طور سے پاکستانی طلباء کے لئے گھر گھر راشن پہنچایا جارہا ہے۔ قونصل جنرل چودھری منظور احمد کے مطابق حکومت پاکستان وزیراغظم عمران خان کی ہدایات کےمطابق اٹلی میں “روم ایمبیسی” اور”میلان قونصلیٹ” اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستانی کمیونٹی اور تمام پاکستانی طلباء سے مستقل رابطے میں ہیں، مشکل کی اس گھڑی میں ان کے مسائل کو کم کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ قونصلیٹ نے بڑی تعداد میں  سٹوڈنٹس کو فوڈ پیکجز بھجوائے ہیں۔ میلان میں رہائش پذیر ہم طلباء حکومتِ پاکستان اور قونصلیٹ کے اس اقدام سے بہت خوش ہیں۔ کرونا وائرس کے خوف کی بدولت بہت سے طالبعلم خاص طور سے لڑکیوں کو اشیاء خورد ونوش کی خریداری کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ایسے میں قونصلیٹ کی جانب سے فوڈ مہیا کرنے کا اقدام قابل ستائش ہے”۔

صائمہ سے فون پر تفصیلی بات کر کے مجھے تسلّی ہوئی۔ یہ اطمینان بھی ہوا کہ وہاں پر پاکستانی ایمبیسی وبا کے دنوں میں متحرک ہو کر اپنے لوگوں کی بھرپور طریقے سے مدد کر رہی ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے ابتدائی طور پر اٹلی کے لومبارڈیا صوبے کو لاک ڈاؤن کیا گیا۔ 24 فروری کو لومبارڈیا ریجن کے 14 شہروں جن میں میلان، بیرگامو، بریشیا، مونزہ، دیزیو، ویرونا بلونیا جیسے شہر شامل ہیں۔ اس وائرس کی تباہ کن صورتحال کے پیش نظر تین مارچ کو پورے اٹلی کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی وجہ سے اٹلی میں سوگواریت کی فضا ابھی تک برقرار ہے اور لاک ڈاؤن کی مدت میں تین مئی تک توسیع بھی کر دی گئی ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply