میرا دل بدل دے۔۔عینی علی

”میرا دل بدل دے ۔۔ میرا غفلت میں ڈوبادل بدل دے “
مدھر سریلی آواز والا خوبصورت سجیلا وجیہہ گلوکار،مبلغ،نعت خواں ” جنید جمشید”!
اور جب اللہ نے اس کا دل بدل دیا !
’دل دل پاکستان‘کا تحفہ دینے والے جنید جمشید 7 دسمبر 2016 کو طیارہ حادثہ میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کی یادیں مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں( شاہدہ  مجید )

جنید کی پوری زندگی کا گلوکاری سے لے کر نعت خوانی تک کا سفر شاندار رہا، ان کا دل دل پاکستان بھی دلوں کو گرماتا رہا اور ان کی نعت ’محمد کا روزہ قریب آرہا ہے‘ بھی دلوں میں گدازپیدا کرتا رہے گی۔(شاہدہ مجید)
خراج عقیدت
اللہ کریم جب کسی سے بہت خوش ہوتا ہے اور اسے کچھ بہت خاص نوازنا چاہتا ہے تو اس کو اپنے دین کی سمجھ عطا کرتاہے۔ ہدایت کی سعادت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی بھی نعمت بن مانگے عطا کردیتا ہے مگر ہدایت اس سے مانگنا پڑتی ہے۔ ہدایت نصیب کی بات ہے بلکہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ ایسے ہی نصیب والوں میں اک نام جنید جمشید کا بھی شامل ہے۔ جنید انتہائی بلند نصیب والے انسان تھے جب گلوکاری کرتے تھے تب بھی شہرت کے بام عروج پر رہے اور جب عشق نبی ﷺ میں مغلوب و سرشار ہوکر نعت خواں بن گئے توبھی اللہ کریم نے ان کے نام کو چار چاند لگا دیئے۔

گلوکاری سے نعت خوانی اور نعت خوانی سے تبلیغ اور تبلیغ سے شہادت تک کا یہ سفر محبت، عبادت اور سعادت کا سفر تھا۔ جنید جمشید کے بارے میں سوچوں  تو رشک آتا ہے کہ ان کے سفر حیات سے سفر آخرت تک قسمت ان پر کتنی محبت سے مہربان رہی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ہر دور میں توجہ اور محبتیں سمیٹیں ۔ آزمائشوں سے بھی گزرے مگر پھر بھی ان کی زندگی کا ہر دور ہی ان کےلئے وجہ شہرت بنا۔بظاہر ان کی زندگی کا سفر حویلیاں کی پہاڑیوں پر ختم ہوگیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ گزشتہ برس 7دسمبر کو چترال سے جماعت کی نصرت کے بعد واپس اسلام آباد آرہے تھے تو ان کا جہاز تباہ ہوکر پہاڑی سے جاٹکرایا۔ جنید جمشید سمیت اس حادثے میں سوارتمام مسافر بھی شہید ہوگئے۔ ان تمام انسانی جانوں پر جتنا بھی افسوس کیا گیا یا کیا جائے گا، کم ہے کہ جانیں تمام ہی قیمتی ہوتی ہیں لیکن اس حادثے کے بعد تمام فوکس جنید جمشید کی شہادت پر رہا۔ تمام ملک ایک صدمے کی کیفیت میں ڈوب گیا بلکہ اس دکھ اور رنج کی لہریں دنیا بھر میں ان کے مداحوں نے محسوس کیں اور کئی روز تک ٹی وی چینلز کے شوز میں اور لوگوں کے دل اور ذہنوں میں صرف جنید جمشید ہی چھائے رہے۔ ان کی زندگی کے تمام پہلو زیرموضوع رہنے لگے۔ ہر آنکھ نم اور ہر دل افسردہ ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیوں جنید کو اس قدر محبت اور توجہ ملی۔ اس کو جاننے کے لیے جنید کی زندگی کی کہانی کو ایک بارپھردہراتے ہیں۔

روداد حیات
3ستمبر1964ءکو پیدا ہونے والے جنید جمشید کی 52سالہ زندگی نشیب و فراز اور جدوجہد سے عبارت رہی۔ جنید جمشید کے والد کا تعلق پاکستان ائیرفورس سے ہونے کے باعث ان کے والد نے کوشش کی وہ بھی اسی شعبے سے وابستہ ہوں۔ جنید نے لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور پاک فضائیہ میں بطور کنٹریکٹراپنی سروس کا آغاز کیا۔ جنید کو دور طالب علمی سے ہی موسیقی سے لگاؤ  تھا۔ دوستوں کے ساتھ مل کر میوزیکل بینڈ بھی تشکیل دے دیا اور گلوکاری کرنے لگے۔ جنید جمشید نے اپنے بارے میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ گلوکاری میں منصوبہ بندی سے نہیں آئے بلکہ روحیل حیات کی ان پر نظر پڑ گئی جب انہیں ایک جگہ پر گاتے ہوئے سنا تو انہیں اپنے ساتھ گانے کی دعوت دی اور پھر انہیں گائیکی کی ایسی تربیت حاصل ہوئی کہ نامور موسیقار سہیل رعنا تک انہیں بے حد سراہنے پر مجبور ہوگئے۔

وائٹل سائنز میوزیکل گروپ انہوں نے 1980 کے عشرے میں بنایا جس میں جنید جمشید مرکزی گلوکار اور روحیل حیات اور سلمان احمد موسیقاروں میں شامل تھے۔ وائٹل سائنز کے گانوں کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی اور جب 1987 میں جنید جمشید نے دل دل پاکستان گایا تو یہ نغمہ ہر دل کی دھڑکن میں سما گیا اور پھرجنید کی شہرت کے ڈنکے چاروں طرف بجنے لگے۔ اس وقت کوئی ٹی وی پروگرام، ٹاک شو یا میوزیکل پروگرام ایسا نہ ہوگا جس میں اس نغمے کا ذکر نہ ہوتا ہو۔ ٹی وی سے لے کر نجی تقریبات، شادی بیاہ تک ان کا یہ ملی نغمہ چھایا رہا۔ یوم آزادی اور دیگر قومی دنوں پر اس نغمے کی دھنیں بجانا لازمی بن گیا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دل دل پاکستان دنیا کے پراثرترین قومی نغموں میں بھی شامل ہے جسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بھی کہا  جاسکتا ہے ۔ جنید جمشید کو 2007 میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ وائٹل سائنز نے دنیا بھر میں نام روشن کیا اور بہترین دھنیں پیش کیں۔90ءکے عشرے میں یہ گروپ باہمی اختلافات کا شکار ہوا لیکن جنید جمشید نے اپنا فنی سفر جاری رکھا۔ یہ خوبصورت سجیلا، وجیہہ و رعنا نوجوان ہر کسی کی نظروں سے دل میں جذب ہوتا گیا اور اس کی سریلی مدھر آواز ہر سماعت میں رس گھولتی گئی۔ اس کے گانوں کی شاعری کمال کی ہوتی اور اکثر گانوں کی شاعری میں سننے والوں کےلئے مثبت پیغام ہوا کرتے تھے۔’سانولی سلونی تیری جھیل سی آنکھیں‘ جیسے کئی نغمات سماعتوں میں رس گھولتے رہے۔

ایک نیا سفر
پھر اچانک جنید کاحلیہ اور طرززندگی بدل گیا بلکہ جنید کا دل بدل گیا۔ بقول جنید جمشید کہ وہ فائر فائٹربنناچاہتے تھے مگر نہیں بن سکے۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے مگر نہیں بن سکے، وہ گلوکار نہیں بننا چاہتے تھے مگر گلوکاربن گئے۔ گلوکاری سے انہیں عزت، شہرت، محبت اور دولت سب کچھ ملا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اتنی عزت و پذیرائی کے باوجود انہیں اپنے اندر کسی کمی کا احساس ہوتا تھا۔ یہی بے چینی اور بے قراری انہیں دین کی طرف کھینچ لے گئی اور بالآخر ان کے اندر کا ا ضطراب ایک روحانی انقلاب میں بدل گیا۔ اس تبدیلی پر کئی بار گفتگو کے دوران ایک واقعے کا بھی ذکر کرتے تھے کہ ایک میوزیکل شو کےلئے ان کی کار کی ٹکر سے ایک کتا جان سے چلا گیا۔ انہوں نے کار سے اتر کر کتے کو سڑک سے ہٹایا اور قریب ایک خالی پلاٹ میں دفن کردیا اور اللہ کو گواہ بنایا کہ وہ اپنی زندگی کوتبدیل کرلیں گے۔

جنید جمشید جب تک گلوکار تھے تب تک نوجوانوں اور بچوں کے دل میں بستے تھے جب گلوکاری چھوڑ کر دین کے لئے وقف ہوگئے تو ہر بچے، بڑے، نوجوان، بوڑھے غرض ہر انسان کے دل میں گھر کر گئے۔ جنید ایک انتہائی باوقار، بلند اخلاق اور مخلص انسان تھے۔ اخلاق اور اخلاص ان کی ہر ادا میں نظر آتا تھا۔ سعادت ان کی پیشانی پر لکھی تھی۔ قسمت روزاول سے مہربان تھی۔ اللہ کریم نے انہیں حسن وجاہت، دولت و شہرت جیسی نعمتوں سے تو پہلے ہی نواز رکھا تھا پھر دین ہدایت کی محبت دے کر اپنے خصوصی فضل سے نواز دیا اور جنید نے بھی راہ ہدایت پر قدم بڑھا دیے تو پھر پلٹ کر نہ دیکھا ۔ شہرت کی پرواہ کی نہ دولت کی۔ اللہ کے رستے پر چلنا اتنا آسان نہیں ہوتا اس رستے پر شیطان کے بہکاوے اور شاطرانہ چالیں بھی پیچھا کرتی ہیں۔ انسانوں کے دل شکن رویے اور کئی کئی طرح کی رکاوٹیں اور آزمائشیں بھی آتی ہیں اور یہ اللہ کا اپنے بندے سے امتحان بھی ہوتا ہے کہ وہ دی ہوئی نعمت کی قدر اور حفاظت کیسے کرتا ہے۔ آیا وہ استقامت سے نبھاتا ہے یا نہیں اور جنید نے استقامت اور اخلاص کا بہترین مظاہرہ کرکے دکھایا۔عجز و انکساری اور خوش اخلاقی کے علاوہ جنید جمشید کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبصورتی اور خوبی ان کی برداشت کرنے کی خوبی تھی۔ اس سفر میں اسی خوبی کی وجہ سے وہ ہر مصیبت اور تکلیف دہ سلوک اور ناروا رویوں کو بہت خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی سے جھیل گئے۔

راہ حق کے سفر میں کئی تنازعوں کاشکار ہوگئے۔ ملامت اور بدسلوکی کی گئی، طعنوں اور گالیوں سے نوازا گیا مگر آفرین ہے اس اعلیٰ اخلاق کے مالک آہنی اعصاب کے مرد ابریشم اور مخلص و عاجز و منکسر انسان پر کہ پلٹ کر کسی کو جواب نہیں دیا بلکہ معافیاں مانگتے رہے اور دلوں کو جوڑنے کی فکر میں رہے تاکہ رب کے ساتھ اپنا معاملہ درست رکھ سکیں۔ان کے منہ سے کبھی بین المسلکی ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے والے الفاظ نہیں نکلے۔ اس سلسلے میں گزشتہ برس ان کے کوسٹار وسیم بادامی بار بار میڈیا پروگرامز میں گواہی دیتے رہے کہ میں روایتی انداز میں نہیں کہہ رہا جیسے کہ مرنے والوں کےلئے اچھے جملے بولے جاتے ہیں، میں پورے ہوش و حواس سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر گواہی دے رہا ہوں کہ خدا کی قسم میں نے جنید جمشید سے زیادہ اچھا انسان اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا اور ہم پانچ برس اکٹھے کام کرتے رہے ان پانچ سالوں میں، میں نے انہیں پانچ سکینڈ بھی کسی کی غیبت کرتے ہوئے نہیں سنا۔جنید توڑنے والوں میں سے نہیں بلکہ جوڑنے والوں میں سے تھے وہ ہمیشہ دلوں کو جوڑنے میں لگے رہے۔اس سفر میں کسی ملامت نے انہیں بددل نہیں کیا بلکہ وہ اپنی عاقبت سنوارنے اور دین کی تبلیغ کرنے میں استقامت سے مصروف رہے جب ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کئے جاتے تھے تب دل میں خیال آتا کہ شاید اب جنید جمشید اپنے فیصلے پر پچھتاتے ہوں گے۔

ایسے ہی وقتوں کی بات ہے کہ ایک میڈیا پرسن نے ان سے سوال کر ڈالا کہ کیا آپ کے دل میں کوئی پچھتاوہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ پچھتاوہ کیسا بلکہ بے انتہا خوش ہوں، اتنا خوش ہوں کہ کوئی مصیبت آ بھی جائے تودل میں اللہ سکون بھر دیتا ہے۔
کلین شیو جنید پر کبھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا جب جنید دین کی طرف آئے تو ان پر اعتراضات کے دفتر کھول دیے  گئے، کبھی کسی قول کو لے کر کبھی کسی بیان اور کبھی کاروباری تنقید، تاہم جنید نے اپنی زندگی کے ہر دور میں صبر و تحمل اور رواداری کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ جنید کی پوری زندگی کا گلوکاری سے لے کر نعت خوانی تک کا سفر شاندار رہا۔ ان کا دل دل پاکستان بھی دلوں کو گرماتا رہا اور ان کا نعتیہ کلام ’میرادل بدل دے‘ بھی دلوں کو گداز کرتا رہے گا۔ کہاں دنیاوی شان و شوکت سے آراستہ زندگی اور کہاں پھر دین کی تبلیغ اور مبلغ بن کر گزارے جانے والی عجزوانکساری والی زندگی۔ کہاں جینز گٹار والا جنید اور کہاں داڑھی اور ٹوپی، تسبیح اور نور سے روشن چہرے والا جنید جمشید۔ بس یہی وہ خوبی اور قربانی جس نے جنید کو سب سے ممتاز کردیا اور اس کی استقامت صبرواخلاق نے دلوں کو فتح کرایا جو شخص خود کو اللہ کے راستے میں وقف کردے بلکہ فنا کردے تو پھر ایسے ہی دنیا بھر کی تمام عزتیں، برکتیں اس کا حصار کر لیتی ہیں۔ یہی ہمیں سمجھا گیا گزشتہ برس شہادت کا رتبہ حاصل کر کے جہان فانی سے رخصت ہونے والا جنید جمشید۔ ان کی زندگی نوجوانوں اور بزرگوں سب کےلئے قابل تقلید ہے۔ وہ موسیقی کے دلدادہ افرادکے دلوں میں بھی زندہ رہے گا اور آخرت کی فکر کرنے والوں کا محبوب بھی رہے گا۔

Save

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply