“تعلق کا ٹوٹنا” کِن باتوں پہ توجہ ضروری ہے/ابصار فاطمہ

تعلق ٹوٹنا بہت منفی اور تکلیف دہ لگتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں ہر دفعہ ایسا ہو۔ ہم اکثر تعلق ٹوٹنے پہ سب سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ دوسروں کو کیا بتائیں گے کہ فلاں سے تعلق کیوں ختم ہوا۔ پھر ہم معاشرتی نیک نامی برقرار رکھنے کی کوشش میں آپس کے تعلق میں آتے مسائل کو نظر انداز کرکے اسے بظاہر سب اچھا ہے کہہ کر چلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کوشش اکثر یا تو دونوں فریق کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی ایک۔ کبھی کبھی کوئی ایک فریق واقعی تعلق چلانا چاہتا ہے جب کہ دوسرا فریق جذباتی یا نظریاتی بنیادوں پہ بہت پہلے راہ الگ کر چکا ہوتا ہے۔ صرف اعلان کی دیر ہوتی ہے۔ اور اس کا احساس بھی فریقین کو ہوتا ہے۔
ہر دفعہ تعلق ختم ہونے کی وجہ کوئی تیسرا نہیں ہوتا۔ بلکہ یاد رکھیے اکثر کسی تیسرے کی گنجائش پہلے ہی تعلق میں فاصلے کی وجہ سے آچکی ہوتی ہے۔ یہاں ‘اکثر’ اس لیے کہا کیوں کہ ہم رومانوی ساتھی بلکہ دوست کو بھی ملکیت کی طرح استعمال کرتے ہیں اور اس کے جذبات پہ اکیلے دعوے دار بننا چاہتے ہیں حد یہ کہ یہ رویہ والدین کا اولاد کے لیے اور اولاد کا والدین کے لیے بھی ہوتا ہے۔ ہم اسپیشل بننا چاہتے ہیں۔ جو کہ ممکن نہیں ہر تعلق میں کوئی کسی کی جگہ نہیں لیتا بلکہ ہر نیا تعلق اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ بنتا ہے۔ یعنی ہم ویسے ہی اسپیشل ہیں مزید سو لوگ اور ہوں تو بھی۔
نکتہ یہ ہے کہ جب محسوس ہو کہ تعلق میں فاصلہ آرہا ہے تو بات کی جائے۔ آپ خود اس تعلق میں کہاں ہیں اور دوسرا فریق کہاں ہے یہ بات چیت سے احساس ہوجائے گا۔ اگر یہ فاصلہ مصروفیات یا کسی ایک فریق کے جذباتی، معاشی یا معاشرتی مسائل کی وجہ سے ہے اور دوسرا فریق اس میں ساتھ دینے اور سپورٹ کرنے کے لیے ذہنی اور اعصابی طور پہ تیار ہے تو مسائل ختم کرنے پہ بات کریں۔ اگر یہ مسائل تعلق میں کسی ایک فریق کی ذمہ داریاں اس کی ہمت سے زیادہ بڑھا رہے ہیں تو تعلق ختم کرنے پہ بات کریں۔ آپ بہت باوفا اور نیک نیت سہی لیکن کچھ جگہ دوسرے کی جذباتی ضروریات پہلے فریق کی جذباتی استطاعت سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داری بڑھنے پہ وہ فریق جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور بجائے سپورٹ مہیا کرنے کے مزید جذباتی صدمات دینے کا باعث بنتا ہے۔
ایک اور رویہ جو تعلق میں مسائل پیدا کرتا ہے وہ ایسی شخصیت کا حامل ہونا ہے جو شک و شبہ بنیادی خاصیت کے طور پہ رکھتی ہو۔ ایسے افراد یہ یقین نہیں کرپاتے کہ دوسرا شخص واقعی ان سے نیک نیتی سے جڑا ہے یا یہ واقعی محبت اور خلوص کے مستحق ہیں۔ ایسے میں انہیں شک پیدا ہوجاتا ہے کہ یقیناً دوسرے فریق کا کوئی تو مفاد ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی کسی حد تک معاشرے کی طرف سے بھی پھیلائی گئی ہے جہاں اس قسم کی باتوں کو بار بار دہرایا جاتا ہے کہ دنیا میں آپ کا واحد سہارا صرف والدین ہی ہوسکتے ہیں، یا کچھ والدین کو بھی نکال کے کہتے ہیں کہ صرف خدا ہی آپ کا سچا سہارا ہے باقی ہر تعلق وقتی اور جھوٹا ہے۔
والدین اور خدا کا سہارا ہونے کی بات اپنی جگہ لیکن اس کے علاوہ بھی آپ کے زندگی میں کئی افراد نیک نیت ہوسکتے ہیں حد یہ کہ آپ جس دکان سے روز سامان خریدتے ہیں، جس ہوٹل پہ دوستوں کے ساتھ چائے پیتے ہیں، جس پالر والی سے آئی بروز بنواتی ہیں یہ سب آپ کے ساتھ پرخلوص ہوسکتے ہیں صرف نکتہ یہ ہے کہ ان سے یہ امید نہ لگائیں جو ان کی ذمہ داری نہیں۔ مثلاً نیک نیتی اور خلوص کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کام والی سے مفت میں ایکسٹرا کام کروائیں اور اس کو اس کام کے پیسے نہ دیں۔ یا سبزی والے سے مفت میں ہرا مسالہ اپنا حق سمجھ کے دلوائیں۔ جب کہ آپ مفت میں اسے کوئی سروس دینے کے روادار نہیں۔ یہاں غیر مخلص آپ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے دوسروں کو مخلص نہ سمجھنے کی کیوں کہ آپ خود کسی سے اس خلوص سے نہیں مل رہے جس کی امید دوسرے سے لگارہے ہیں۔
خیر بنیادی نکتے پہ واپس آتے ہیں۔ جب ہم تعلق میں شک و شبے کا شکار ہوتے ہیں تو دوسرے کو بار بار پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی چپکے چپکے موبائل چیک کرکے، فیس بک پہ اس کی پوسٹس اور اس پہ آنے والے کمنٹس دیکھ کر ان پوسٹس کا اپنی مرضی سے مختلف معانی اخذ کرکے، کبھی یہ کہ وہ ہمیں کتنا مہنگا تحفہ دیتا/دیتی ہے، ہمارے ناراض ہونے پہ کیسے مناتی/ مناتا ہے۔ ہمارے گھر والوں کو اپنے گھر والوں کی طرح ٹریٹ کیاجاتا ہے کہ نہیں۔ (نوٹ، اپنے سگے گھر والوں کی طرح کوئی کسی تیسرے کو ٹریٹ نہیں کر سکتا بنیادی عزت و احترام کو معیار کے طور پہ لیں جیسا پہلے بھی لکھا ہر تعلق اپنے آپ میں منفرد ہوتا ہے) حد یہ کہ وقت بدلنے سے ایک ہی شخص سے تعلق کی ڈائنامکس بدل جاتی ہیں اور یہ مکمل طور پہ نارمل اور ضروری ہے۔
پھر سوال یہ آتا ہے کہ کیسے پتا چلے کہ دوسرا ہم سے مخلص ہے یا نہیں۔
نوٹ کیجیے کہ کیا وہ آپ کو بطور انسان برابر کی عزت دیتا/دیتی ہے۔
کیا وہ آپ کی جسمانی اور جذباتی ضروریات کا خیال رکھتا/ رکھتی ہے۔
کیا وہ آپ کی ذات پہ آپ کے اختیار کو تسلیم کرتا/کرتی ہے۔
کیا وہ آپ کو آپ کی موجودہ ظاہری شخصیت کے ساتھ قبول کر رہا/رہی ہے۔
کیا وہ طاقت کے زور پہ یا جذباتی حوالے سے تعلق میں غالب رہنے کی کوشش تو نہیں کررہی/ رہا۔
کیا وہ آپ کو آپ کی زیادہ یا کم ذہانت کی وجہ سے بار بار طعنوں کا نشانہ تو نہیں بنا رہا/رہی۔
کیا آپ کی جسمانی یا جذباتی یا معاشی کمزوری کے دور میں وہ شخص موجود ہے۔
کیا وہ حقیقی وعدے کرتا/ کرتی ہے اور سو فیصد نہ سہی لیکن کم از کم اسی فیصد اپنے وعدوں اور دعووں کو پورا بھی کرتا/کرتی ہے۔
کیا وہ آپ کو انہی حقوق کا حق دار/مستحق سمجھتا/سمجھتی ہے جو اپنے لیے سمجھے۔

یہ یاد رکھیے کہ یہ عمومی اصول عمومی روٹین میں ہی نوٹ کرنے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے خاص حالات پیدا نہ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ ہر شخص ہمیشہ ان معیارات پہ پورا نہیں اتر سکتا۔ کیوں کہ آپ جس حوالے سے مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں وہ صورت حال کو اس طرح نہیں دیکھ رہا/رہی۔
مثلاً کسی کے گھر میں والد یا والدہ کی ڈیتھ ہوگئی اور بہنیں یہ امید لگا کے بیٹھی ہیں کہ اب گھر کا بڑا مرد یعنی بڑا بیٹا ہم سب کو سنبھالے گا مگر وہ خود شدت جذبات سے بے ہوش ہوجائے۔ یہاں یہ پرکھنا بالکل غلط ہوگا کہ یہ بطور اچھا بھائی بہنوں کا سہارا بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
یا آپ معاشی مشکل میں کسی دوست سے مدد مانگیں اور اس کے خود کے قرضے لینے کی نوبت آئی ہوئی ہے تو وہ یہاں اس کے خلوص کا مسئلہ نہیں نہ یہ امید لگانی مناسب ہے کہ اسے خود بھلے مسئلے ہوں لیکن اگر وہ مجھ سے مخلص ہے تو کسی اور سے لے دے کر میرے لیے پیسوں کا بندوبست کرے گا۔
یہ توقعات معاشی حوالوں سے اکثر بیویاں شوہروں سے بھی لگاتی ہیں کہ وہ اپنی ضروریات محدود کرکے بھلے قرضہ لے گا لیکن ہماری کپڑے لتے اور بچوں کی ضروریات کا انتظام کرے گا دوسری طرف بیماری میں یہ توقعات گھر کی عورت سے ہوتی ہیں کہ بالفرض اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ بیمار پڑ گئے تو رو پیٹ کے بیوی ہی اٹھ کے سب کام نمٹائے گی۔ اور جب ایک فریق اس معیار پہ پورا نہ اترے تو ہم اسے غیر مخلص سمجھنے لگتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے یہ امید بھی لگائی جاتی ہے کہ اگر عورت کی کوئی جائیداد ہے یا وہ کماتی ہے تو وہ گھر کے مردوں کے لیے اس سے دستبردار ہوجائے۔ حد یہ کہ وراثت یا حق مہر میں ملنے والی جائیداد یا رقم بھی مردوں کے حوالے کردے۔
اب آتے ہیں جہاں سے بات شروع کی تھی کہ جب آپ نے تمام حوالوں سے جانچ لیا کہ تعلق میں مسائل ہیں تو بات چیت کرنی ضروری ہے نشاندہی کیجیے کہ تعلق میں مسائل کس نوعیت کے ہیں۔ کیا یہ مسائل حل کیے جاسکتے ہیں یا کیے جانے چاہئیں یا تعلق ختم کرلینا ہی دونوں کے لیے بہتر حل ہے تاکہ وہ اس سے بہتر تعلق کی طرف بڑھ سکیں۔
کسی تعلق کو صرف اس لیے چلانا کہ معاشرتی نیک نامی پہ حرف نہ آئے سب سے غلط فیصلہ ہوتا ہے کیوں کہ ایسے میں آپس میں تعلقات بگڑتے چلے جاتے ہیں یہاں جذباتی حوالے سے صرف دوری پیدا نہیں ہوتی بلکہ نفرت ہوجاتی۔
ہم اکثر تعلقات ختم ہونے پہ پہلے اسے زبردستی چلاتے رہنے کی کوشش کرتے ہیں جب اندازہ ہو کہ دوسرا اس تعلق میں جذباتی یا نظریاتی حوالے سے اب بالکل موجود نہیں تو ہم غصے کا شکار ہوجاتے ہیں اور لڑائی جھگڑوں تک بات پہنچ جاتی ہے۔ اور ہمیشہ کے لیے دونوں ایک دوسرے کے لیے نفرت پال لیتے ہیں اور نام تک سننا گوارا نہیں کرتے۔ یہاں یہ غلط فہمی کہ دوسرے کو حق ہی نہیں کہ اس کے جذبات میں کوئی تغیر آئے مسائل کو پیچیدہ کردیتا ہے۔
ضروری نہیں کہ دو لوگ جو بہت عرصے سے ساتھ ہیں وہ دونوں زندگی کو ایک ہی طرح سے جھیل رہے ہوں۔ بتدریج یہ الگ الگ تجربات ان کی شخصیات کو بہت مختلف بناتے چلے جاتے ہیں ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ اور اس کی بنیاد پہ جذبات بدل جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ افراد بدلتی شخصیت کے ساتھ بھی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں کمپنی انجوائے کرتے ہیں لیکن یہ دونوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ترجیحات الگ بھی ہوسکتی ہیں۔ اور جب دونوں کو اس کا احساس ہوجائے تو چپ چاپ طوفان بڑھتے رہنے کا انتظار مناسب نہیں بات چیت شروع کیجیے دیکھیے کہ معاملات کس طرف جارہے ہیں اور اگر تعلق ختم ہوتا نظر آئے تو افہام و تفہیم سے معاملات ختم کرلیں۔
اچھا اب کچھ لوگوں کے ذہن میں سوال آئے گا کہ جی باقی سب تعلقات کا تو سمجھ آتا ہے لیکن میاں بیوی الگ ہوں تو بچے تو دربدر ہوجائیں گے ان کا کون سوچے گا۔
بچے والدین کے الگ ہونے سے دربدر نہیں ہوتے بلکہ ہمارے اس رویے کی وجہ سے ہوتے ہیں کہ علیحدگی کے وقت فریقین لڑتے جھگڑتے ہیں، دشمنیاں پال لیتے ہیں عدالت تک معاملہ جانے پہ ایک دوسرے کے کردار پہ کیچڑ اچھالتے ہیں۔ اور دوبارہ ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھ سکتے۔ ساتھ ہی ہمارے جیسے معاشروں میں اولاد کو سوتیلے والدین کی ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے حوالے سے بالکل بات نہیں کی جاتی۔ ایک خوشحال گھرانے میں اس کی ضرورت نہیں لیکن کچھ حالات میں یہ ضروری ہوتا ہے۔ چلیے دونوں فریقوں نے روپیٹ کے زندگی تو ساتھ گزار لی۔ لیکن ایک فریق مر گیا تو دوسرا اسی سوتیلے والی غلط فہمی کے ڈر سے یا تو نیا تعلق بناتا نہیں یا بنا لے تو یہ پہلے سے سمجھ لیا جاتا ہے کہ سوتیلی ماں یا سوتیلا باپ برا ہی ہوگا۔ اس لیے جو واضح برے ہوتے ہیں انہیں بھی قبول کر لیا جاتا ہے۔ اور اصل والدین اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے۔
بچے ایسی سچویشن میں بھی رپ اعتماد شخصیت کے ساتھ بڑے ہوسکتگ ہیں جہاں والدین اپنے نئے شریک حیات کے ساتھ ایک خوش زندگی گزار رہے ہوں۔ اور بچوں کی ذمہ داریاں اچھے انداز میں نبھا رہے ہوں اور بچوں کو سوتیلے رشتوں سے بھی مثبت منفرد تعلق بنانے کا موقع دیا گیا ہو۔ دوبارہ یاد رکھیے یہ اصل والدین کی جگہ نہیں لے سکتے ان سے بچوں کا منفرد تعلق ہے۔
کسی ایک فریق کی ڈیتھ یا دونوں کی علیحدگی کی صورت میں بچوں کی ذمہ داریاں بانٹنے پہ بات کرنا ضروری ہے بچے چیز نہیں جن کی کسٹڈی سو فیصد کسی ایک کو مل جائے اور دوسرے سے ساری زندگی چھپایا جائے۔
ہمارے یہاں مسائل زیادہ اس لیے آتے ہیں کہ ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے کہ مسئلہ ہے مگر ہم اس پہ بات نہیں کرتے اور بری سچویشن کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے اور جب وہ حالات سامنے آجاتے ہیں تو ہم صرف ٹینشن لیتے ہیں اور دوسروں کو ٹینشن دیتے ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ نیا تعلق بنا رہے ہیں یا ختم کر رہے ہیں دونوں دفعہ سوچیے، ہر جہت پہ غور کیجیے منصوبہ بندی کیجیے پھر عمل در آمد کریں ایسا نہیں کہ پھر جذباتی صدمہ نہیں ہوگا۔ ہوگا، لیکن کم ہوگا اور وقتی ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابصار فاطمہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply