دورہ لیپہ۔۔رفاقت کاظمی

میری یہ تحریر پڑھنے والے تمام معزز قارئین کو ناچیز کا سلام .کل اور آج کا دن لیپہ میں موجود تھا۔دنیا پہ جنت کا مصداق اگر کوئی جگہ ہے تو وہ کشمیر ہے اور اس بات کا منہ بولتا ثبوت کشمیر کا یہ ٹکڑا یہ دھرتی جو غازیوں مجاہدوں اور شہیدوں کی سرزمین ہے جسے لیپہ کہتے ہیں۔گزشتہ روز میں پانچ گھنٹے کی مسافت طہ کر کے جس میں پچاس موڑ تقریباً دو طرفہ تھے ایک قافلے کے ہمراہ لیپہ کی سرزمین پر اترا۔ بہتا صاف اور شفاف پانی گھنا جنگل روڈ کے برے حال کی وجہ سے ہچکولے کھاتی ٹی زیڈ، میں اور اس کی یادوں پہ مشتمل سفر ساڑھے تین جلسہ گاہ پہنچنے پہ ختم ہواچونکہ میں تحریک انصاف کا ورکر ہوں اور یہ قافلہ بھی اسی کا تھا پارٹی پریزیڈنٹ کے قافلے میں ہم بڑے بھائی قائد تبریز کاظمی صاحب کی قیادت میں شامل تھے ۔ہٹیاں سے آگے ریشیاں بازار تک پکی روڈ اور اس کے بعد وہاں سے آگے کچی ہچکولے کھاتی موڑوں سے بھر پور(ریشیاں بازار سے اوپر جاتے ہوۓ اونچائی پہ انیس موڑ اور دوسری طرف اترائی میں لیپہ شہر کوٹچ کرتے ہوۓ بتیس موڑ ہیں اور ہر موڑ پہ موڑ نمبر کے ساتھ نشاندہی کی گئ ہے) گھنے جنگل سے گزرتی روڈ سے ہوتے ہوۓ ہم ساڑھے تین لیپے پہنچے۔ہماری گاڑی میں تبریز بھائی کے علاوہ نہایت ہی ملنسار آدمی انکا ڈرائیور زبیر اعوان یوتھ رہنما ناصر حیدری ثقلین کاظمی اور وحدت المسلمین کے سابقہ نامزد امیداوار افتخار کاظمی بھی ہمراہ تھے۔سفر خوش گپیوں میں گزرا۔میرے لیۓ یہ سیاسی دورے سے بڑھ کے تفریحی دورہ تھا شاید اس وجہ سے میری خوشی دیدنی تھی۔میں پھولے نہی سما رہا تھا جلسہ گاہ پہنچنے پہ وہی روایتی کام تھا جو ایک سیاسی جلسے میں ہوتا ہے چھ بجے جلسہ ختم ہوا کھانے کی دوڑ شروع ہو گئ جس کی ٹانگوں میں جتنا دم ہو وہ اتنی ہی تگو دو کر کے کھانا حاصل کرتا ہے اور ایک سیاسی ورکر کی تربیت میں یہ چیز شامل ہوتی ہے کہ سیاسی جلسوں میں پیٹ پوجا کیسی کرنی ہے ۔رات لیپہ گزارنی تھی وہاں نہایت ہی ہر دل عزیز شخصیت اور اس جلسے کے روح رواں سابقہ صدر انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن سید امتیاز علی شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی ۔وہ انتہائی متحرک سیاسی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی پاۓ کے اخلاق کے حامل شخص ہیں۔انھوں نے اعلی قسم کا عشائیہ دیا۔اگلے دن یعنی آج صبح ناشتے کے بعد ہمیں وہ اپنی بہک منڈا کلی کی سیر کرانے لے گے جس کے لیۓ ہم یونین کونسل نوکوٹ کے گاؤں چنننیان سے نکلے اور نالہ قاضی ناگ کا پل کراس کر کے بل کھاتی کچی روڈ پہ تقریباً بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد نہایت پر فضا مقام درختوں کے جھنڈکے درمیان سیدھے میدان منڈا کلی پہنچ گے۔وہاں پہنچ کے ایسا لگتا تھا جیسے جنت میں اتر آۓ ہیں چاروں طرف ہریالی فلک بوس درخت درمیان میں سرسبز خشکی کا خطہ قدرت کے مظاہر کو بیان کر رہا تھا اور موسم سرما کا تصور ایک علیحدہ رنگ پیش کر رہا تھا کہ کیسے سردیوں میں برف سے لدے یہ درخت حسین منظر پیش کرتے ہوں گے جس کے نظارے کا اپنا ہی ایک مزہ ہو گا۔چار سو قدرت کا حسن نچاور تھا کہیں دور دور کچھ لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ نظر آ رہے تھے۔اور ایک جگہ ایک لڑکا اپنی کتابوں کے مطالعہ میں گم نظر آیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے لوگ تعلیم کے معاملے میں کتنی دلچسپی لے رہے ہیں۔ہم کچھ دیر اس میدان میں قدرت کے مظاہر سے لطف اندوز ہوۓ اور یاداشت کے لیے فوٹو گرافی کرتے رہے۔
واپس آنے کا تو دل نہی کر رہا تھا لیکن واپس لوٹنا پڑتا ہے۔اس کے بعد اور مختلف گاؤں کی سیر کی اور دوپہر کو ایک دفعہ پھر امتیاز بھائی کی طرف سے دیۓ گے پرتکلف ظہرانے کے بعد تین بجے ہم نے گھر کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔
لیپہ میری اچھی یادوں کا محور رہے گا کافی سارے لوگوں سے ملاقات ہوئی ۔لیپہ کے لوگ انتہائی مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں۔
لیکن لیپہ جیسی جنت میں سہولتوں کا فقدان ہے۔لیپہ پہنچنے کے لیۓ دو روڈز ہیں ایک براستہ موجی ہے جو ریشیا بازار سے اوپر مڑ جاتی ہھ اور سیاحتی مقام داؤکھن سے ہوتی ہوۓ لیپہ جاتی ہے اس روڈ کا کام لگا ہوا ہے لیکن اکثریت سے استعمال ہونے والی روڈ ہے جو ہمارے استعمال میں رہی اس کا برا حال ہے پوری روڈ کچی ہے۔اور برف پڑنے کی وجہ سے یہ روڈ بند ہو جاتی ہے اور چھے ماہ لیپہ کا دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے اور برف زیادہ پڑنے کی وجہ سے روڈ کو شاید پکا نہی کیا جا رہا شنید ہے کہ برف کی وجہ چین والی گاڑیاں چلنے کی وجہ سے سے تارکول اٹھ جاتی ہے۔اس وجہ سے لیپہ کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ہٹیاں سے اندرون زمین سرنگ بنائی جاۓ جو لیپہ کو باقی دنیا سے جوڑے رکھے اس وجہ سے کافی جگہ لیپہ ٹنل بنانیں کے حوالے سے وال چاکنگ بھی دیکھنے کو ملی۔ اندرون لیپہ بھی روڈیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ایک دو جگہ روڈ کا کام بھی لگا ہوا دیکھا۔اس کے علاوہ صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے علاوہ ازین بھارت کی طرف سے اکثر بلا اشتعال فائرنگ بھی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے زیر زمین مورچوں کا کام بھی لگا ہوا ہے اور کچھ تیار ہو گے ہیں۔لیپہ ایک سیاحتی مقام ہے حکومت وقت کو چاہیے کہ یہاں سہولیات مہیا کریں اور اس کے بعد سیاحوں کے لیۓ یہ علاقہ کھول دیا جاۓ تاکہ لوگ جنت نظیر کے اس ٹکڑے کی سیر کریں اس کا فائدہ یہاں کے لوگوں کے لیۓ روزگار کے مواقع بڑھنے کی صورت میں ہوگا اور معیار زندگی مزید اچھا ہو سکے گااور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی خزانے پہ بھی ٹورزم کے مثبت اثرات پڑیں گے۔ لیپہ کی تعریف کرنا میرے بس کی بات نہی ہے کیونکہ مظاہر قدرت کی جتنی تعریف کی جاۓ اتنی ہی کم ہے لیکن مجھے اگر کوئی لیپہ کے بارے میں پوچھے تو میں اتنا کہنا پسند کرونگا کہ دنیا پہ جنت ہے لیپہ اور جنت سے ہو کہ آیا ہوں۔ اس طرح حسین یادوں سے بھرا یہ سفر آج اختتام پزیر ہوا میرے گھر پہنچنے پر۔اک تھکا دینے والے سفر کے بعد گھر پہنچا ہوں آتے ہی لکھنا شروع کیا اور لیپہ کی حسین یادوں کو قلمبند کرنے سے تھکاوٹ میں کمی محسوس کر رہا ہوں کیونکہ جب میں یہ لکھ رہا تھا تو میں پھر اس حسین جنت نما وادی میں کھویا ہوا تھا اور جنت میں سنا ہے آرام ہی آرام ہوتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply