زما نے بیت چکے ہیں,کئی موسم آ کر گزر گئے …کئی پھول کھل کر مرجھا گئے،کئی رنگوں کی چمک مدھم پڑ گئی کئی شاہکار چیزوں کو زوال آیا، کئی لوگ نا صرف صفحہ ہستی سے مٹ گئے ،بلکہ لوگوں کے ذہن, گمان اور سوچوں سےبھی غائب ہو گئے ۔۔۔مگر اک عظیم الشان ہستی جو عمل و کردارمیں آج بھی زندہ ہے، جو اخلاق کے زیور کے طور پر آج بھی ہر شخص کے ساتھ منسلک ہے،جو مثال بن کر ہر زباں ہر لب پر مچل رہی ہے،جن کی سیرت کا ہر ہر پہلو ضابطہ حیات ہے۔
وہی یسین، وہی طہ،وہی قرآن ، وہی فرقان،وہی مدثر،وہی مزمل۔
آپ ص کی ذات ہے وہ دائرہ وصف و کمال
جو تصور میں سماۓ نہ گماں میں آۓ
اتنا آساں تو نہیں آپکی سیرت کا شعور
روح کی راہ سے گزرے تو گماں میں آۓ
آج تک محمدﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر مصنفین نے قلم کی نوک سے تبصرہ آرائی کرنے کی کوشش کی ہے،ہاں مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ صفات میں سمندر ہیں، اور قلم کی اتنی اوقات کہاں کہ وہ سمندر برابر صفات کے حامل شخصیت کو الفاظ کے روپ میں صفحہ قرطاس پر بکھیر سکیں، جن کی سیرت اور جن کا عملی کردار قرآن کے عین مطابق ہے،جن کا ضابطہ حیات قرآن کا عملی نمونہ ہے، انکی سیرت کی عکاسی کرتے ہوۓ میرا یہ چند سطروں اور الفاظوں پر مشتمل مضمون کیا حیثیت رکھتا ہے مگر اس نا چیز نے پروردگار سے حوصلہ مانگ کر سیرت کے ایک پہلو کا چناؤ کیا ہے، جس پر آج میں روشنی ڈالنا چاہتی ہوں ۔۔ رسول اللہ ایک مثالی طالبعلم اس لئے بھی ہیں کہ انکے معلم پوری کائنات کے خالق و مالک تھے، انکی تعلیم کا آغاز ہی وحی اللہ سے ہوا۔اور رب تعالی نے قرآن کے ان الفاظ کے ساتھ تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا۔۔۔”اقراء بسم ربک الذی خلق”۔انہوں نے تعلیمات خدا کو سینے میں سمویا اور انسانیت تک پھیلایا،نا صرف بتایا ،عمل کے اس پیرائے پر جا کر عملی نمونے دئیے کہ آج تک انکی طرح کوئی بھی شخص اپنی تعلیمات کو اپنے پیروکار کو اس طرح سے عملی اور وضاحتی طور پر آشنا نہیں کر پایا۔
لہذا قارئین! اگر ہم احمد مصطفی رسول اللہﷺ کی طالبعلمی کے دور کا مطالعہ کریں تو ہمیں مندرجہ ذیل طریقے ملتے ہیں کہ جن پر عمل کر کہ ہم دنیاو آخرت کے کامیاب ترین طالبعلم بن سکتے ہیں.۔
1. اخلاص و للہیت
2. مسلسل محنت
3 . طلب علم کے لیے اسلاف کی قربانیاں
4. بلند ہمتی
5. ادب
اخلاص و للہیت
اللہ کی ازلی صفات میں سے ایک صفت علم ہے جسکا کچھ حصہ اللہ نے نبی ﷺ کے ذریعے انسانیت کو تحفے میں دیا۔
اور قارئین یاد رکھیے یہ دنیا دار الاسباب ہے اور اللہ مسبب الاسباب ہے لہذا اللہ نے نبی ص کو ہمارے علم کا سبب بنایا اور آقاۓ دو جہاں نے نہایت خلوص ایمانداری اور خندہ پیشانی کے ساتھ باری تعالی کا اک اک حکم ہم تک پہنچا دیا۔اور نہایت اخلاص کے ساتھ تعلیمات ربی کو اپنے سینے میں اتارا،شب و روز اسی جدو جہد میں قیام کیا لہذا طالب علم کا پہلا فرض خلوص ہے۔
مسلسل محنت!
اللہ کے رسول نے تعلیمات ربی کے ساتھ نہایت محنت کی اسکے دروس دئیے ..نہ صرف خود یاد کیا بلکہ صحابہ کرام کو بھی یاد کروائے بارہا اسکو دہرایا پھر عملی کردار کے ساتھ واضح کیا لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبعلم کے لیے محنت کامیابی کی کنجی ہے۔
طلب علم کے لیے اسلاف کی قربانیاں!
شافع محشر ہمارے محسن کائنات نے حصول علم کے لیے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، وحی اللہ کے انتظار میں شب و روز غار میں گزارے…کھانا پینا بھول گئے،آرام کو نظر انداز کر دیا۔لہذا محترم طالبعلم تعلیم قربانی بھی مانگتی ہے، یہ تعلیمات جو ہم تک پہنچی ہیں خون وجگر کی قربانی کے بعد ہی ہم تک پہنچیں ،انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب وآلام جھیلے اور ایسے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی طاقت اور برداشت کے سامنے خود ”صبر“ بے چین اور بے قرار ہوگیا۔
بلند ہمتی!
ہمارے پیارے نبی یہ جانتے تھے کہ کسی بھی قیمتی چیز کے حصول کے لیے بلند ہمتی اور جدوجہد ضروری ہے،مسلسل محنت مسلسل تکرار اور لذتوں اور راحتوں کو چھوڑنے کے بعد ہی علم حاصل ہوتا ہے،جسم کی راحت کے ساتھ علم حاصل ہو ہی نہیں سکتا،نبیﷺ جب بھی وحی کے عمل سے گزر رہے ہوتے تو انکی کیفیت یوں ہوتی گویا کہ انکے جسم کا ہر عضو قوت سما ت حاصل کر کے علم کی بات سن رہا ہو، انہیں علم کی طلب بالکل ایسے تھی جیسے اک گمشدہ ماں اپنے کھوۓ ہوۓ بچے کی تلاش کر رہی ہو،سوچیے وہ کیا جان کنی کی کیفیت تھی جب اللہ کے رسول ص پر پہلی وحی اتری، مگر بلند ہمتی سے انہوں نے سب برداشت کیا۔
ادب!
اللہ کے رسول میں علم کے بادشاہ ہونے کے باوجود نہایت عاجزی و انکساری تھی،اللہ کے رسول کی عملی زندگی سے جو مثالیں ملی ہیں ان کے مطابق ،
1۔استاد کا ادب
2۔آلات علم (کاغذ, قلم, سیاہی,روشنائی , تپائی ) کا ادب
3 ۔ کتاب کا ادب
ان کے آداب کے بغیر علم حاصل کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے خالی کنویں سے پانی نکالنے کی کوشش کرنا!
مختصر یہ کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ کامیاب آخرت کے لیے ضروری ہے کہ دینی تعلیم حاصل کی جاۓ ،تبھی ہم اک کامیاب طالبعلم کہلائیں گے۔مثالی طالبعلم بننا ہے تو اللہ کے رسول کی بحیثیت طالب علم زندگی کا مطالعہ کرو جس میں انہوں نے تعلیم کو ذریعہ معاش نہیں بلکہ ذریعہ حصول جنت اور رب کی خوشنودی بتایا ہے… اور دیکھو کہ کیسے وہ اپنے دل کی گہرائیوں کے ساتھ خداکی خوشنودی حاصل کرنے اورحمد وثنا میں مصروف رہتے ، ہر وقت شکر گذاری ا ن کا امتیازی وصف تھا، ان کی قربانیوں نے انہیں دنیا میں بھی سرخ رو کیا ،اور قیامت تک آنے والے طالبان علوم کے لئے بہترین نمونہ بتادیا، سب کچھ انہوں نے صرف اور صرف کتاب وسنت کی خدمت اور اللہ کی رضاء کے لئے اور دین و دنیا کا کامیاب طالبعلم بننے کیلئے کیا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں