جاوید کاجاوید نامہ۔۔ پروفیسر ذوالفقار احمد ساحر

کسی نے کہا تھا کہ آپ چند گھڑیاں خوشی کی گذارنے کے خواہش مند ہیں تو ایک خوب صورت سہ پہر کو برآمدے میں بیٹھ کر ایک کپ  چائے پی لیں۔اوراگر کئی سال خوش رہنا چاہتے ہیں تو ایک باغ لگائیں اور پھولوں پودوں کے ساتھ خوش رہیں۔لیکن اگر ساری زندگی کی خوشی مْقصود ہو تو کتابیں پڑھیں،کتابیں جمع کریں،ان کو سلیقے سے رکھیں،ہمیشہ خوش رہیں گے۔لیکن کہنے والااگر یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنے علاوہ اور لوگوں کو خوش کرنا چاہیں تو کتاب لکھ کر اپنا زندہ جاوید کام لوگوں کے حوالے کر دیں،توشاید یہ خوبصورت قول مکمل ہوجاتا۔عزیزی جاوید خان نے اپنا”جاوید نامہ“ تحریر کر کے یہ وظیفہ باحسن طریق انجام دیا ہے۔جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

۴مارچ ۰۲۰۲؁ء کو جب جاوید نے مجھے اپنی تصنیف ”عظیم ہمالیہ کے حضور“اپنے ہاتھوں سے عنایت کی تو ایسے لگا کہ یہ میری اپنی کوئی تصنیف ہے جو مجھے ملی ہے۔یعنی اتنی خوشی ہوئی جتنی اپنی کتاب کے منظر عام پر آنے سے ہوسکتی تھی۔اگرچہ اس کتاب کاپروف پڑھتے ہوئے اس کی خوب صورتی کاتجربہ کرچکا تھا۔مگر پھر بھی اس کو ورق بہ ورق پڑھا۔شاعرانہ سطور کو ہائی لائیٹر سے نمایاں کیا۔بعض جگہوں کو انڈر لائن کیا۔پھر ایسے ہواکہ ذاتی مصروفیات کے باعث اس پر کچھ لکھنے کے لیے سکون قلب و یکسوئی کاسامان پیدانہ کر سکا۔چنانچہ یہ قرض دوگنا،تگنا ہوتا اور بڑھتا چلا گیا۔اور پھر سفر نامہ نگار کے نصف بہتر کابھی باقاعدہ انتظام ہو گیا۔پہلے وہ فون پر یا مسیج پر آسانی سے ہاتھ آجاتے تھے۔اب زندگی کے سب سے حسین خواب کالطف اٹھانے میں مصروف ہیں تو دل نے کہا انھیں جگائے بغیر ایک حرف تحسین کہنے کی جسارت کر ہی لوں۔سوارض ِ پونچھ کے ایک روشن مستقبل رکھنے والے قلم کار اور ادیب کی پہلی کاوش پر خامہ فرسائی کامرتکب ہو رہاہوں۔

خطہ پونچھ شہیدوں،غازیوں کی سرزمین تو تھی ہی۔پچھلی صدی میں تاج ِبرطانیہ کے جھنڈے تلے لڑی جانے والی دو عظیم جنگوں میں پونچھ (جو اب سدھنوتی اورپونچھ میں تقسیم ہے)کے اس خطے کے ہزاروں سپوت افریقہ  سے لے کر برما کے محاذوں پر داد شجاعت دے چکے ہیں۔پھر آزادی کشمیر کے لیے لڑی جانے والی1947ء کی جنگ میں ننگے،بھوکے رہ کر تلواروں،کلہاڑیوں اور توڑے دار بندوقوں سے اس علاقے سے رام را ج کاخاتمہ کیا1965 ء اور 1971 کی جنگوں میں بھی قربانی کی روایت برقرار رہی۔جب سعودی عرب میں ملازمت کے در کھلے تو اس علاقے کے لوگوں نے اپنی بھوک اورننگ کو اپنی محنت سے خوش حالی میں بدل دیا۔1980؁ ء کے بعد تعلیمی میدان میں جب ایک مسابقت اور دوڑ کاآغاز ہو ا تو بھی پونچھ اور خصوصاً راولاکوٹ کے نئے خون نے اعلی ٰ شرح تعلیم کامقام حاصل کیا۔آج اللہ کے فضل سے پی ایچ ڈی،ایم فل،بی ایس،ایم ایس،انجنیئرنگ اور ڈاکٹری،ایم بی اے،سی اے وغیرہ کی ڈگریاں لیے ہوئے نوجوان طلباء وطالبات اس خطہ کے ماتھے کاجھومر ہیں۔لکھنے لکھانے کامیدان بھی اب اس مردم خیز علاقے کے لوگوں سے آباد ہورہا ہے۔صحافت،شاعری،تنقید،ادب،تحقیق و تخلیق ہر میدان میں باصلاحیت لوگ آگے آرہے ہیں۔جو ایک خوش آئند بات ہے۔

جاوید خان نے لکھنے کاآغاز کالم نگاری سے کیا۔”میرے اندازے“کے عنوان سے ان کے کالم اور مضامین روزنامہ ”پرل ویو“”روزنامہ ”دھرتی“کے علاوہ غیر مقامی پیپرز میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کالموں میں انھوں نے کہیں تو ہلکے پھلکے انداز میں معاشرتی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے تو کہیں طنز و تفنن کارنگ بکھیرا ہے۔کہیں لہجہ تلخ اور غمزدہ ہے کہ سوسائٹی کی ناہمواری کامنطقی ردعمل ہے۔تو کہیں علمی انداز میں باتیں کہی ہیں۔وہ کسی منظر پر لکھتے ہیں تو لفظی تصویر،قاری کے ذہین اور شعور پر نقش کر دیتے ہیں۔قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلنا انھیں خوب آتا ہے۔ان کی تحریروں میں شائستگی کاعنصر بہ درجہ اُتم موجود ہے۔البتہ خوب سے خوب تر کایہ کام ابھی ناتمام ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ آبلہ پائی (محاورہ کے لحاظ سے) کی رسم و ریت نبھانے کاارادہ کیا تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔سفر تو امیر کبیر لوگوں کامشغلہ ہے۔ہم جیسے لوگ جن کی آمدن محدود اور وسائل ناکافی ہوتے ہیں،اس عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔مگر آفرین ہے اس نوجوان پر جس نے رخت سفر باندھتے ہوئے اپنے معدے کی خرابی اور محدود تنخواہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فلک بوس پہاڑوں،عمودی چٹانوں،کھسکتے ہوئے گلیشئر ،بل کھاتی ندیوں گاتے ہوئے جھرنوں،خاموش جھیلوں،کھنکھناتی آب شاروں اور الف لیلوی منظر رکھنے والے کسانوں کے سادہ جھونپڑوں کے ساتھ وقت بتانے کو ترجیح دی۔ان منظروں کے ساتھ سرگوشیاں کیں۔راز کہے،راز سنے۔زندہ دل جاوید نے ان مناظر کی زندگی اور دھڑکنوں کو محسوس کیا۔سکوت لالہ و گل سے کلام کیا۔کہیں تریچھون کے کھلنڈرے پن کو دیکھ کر خود کھلنڈرے پن پر اتر آیا۔تو کہیں یخ بستہ صبح کو سورج کی پہلی کرن کی ٹکور لیتے ہوئے آنکھیں موند کر  نندیاپور جانکلا۔یہ بھی نہ سوچا کہ سونے کے لیے بستر کی ضرورت ہوتی ہے۔ٹھنڈی ٹھار چٹان پر کرنوں کی دھیمی دھیمی گرمائش میں لیٹنے کاسواد وہی جانتا ہے جو اس تجربے سے گذرا ہو۔حتی ٰ کہ اپنے قافلہ ِسالار کی گرم نگاہوں کو بھی خاطرمیں نہ لاتے ہوئے انھیں اپنا منتظر رکھے رکھا۔چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہوٹلوں میں گرم،سرد کھانا،سردی میں اکڑوں بیٹھ کرمقامی چرواہوں سے باتیں۔جگہ کی کمی کی وجہ سے لشتم پشتم کہیں پڑ کرنیند پوری کر لینا۔کبھی چاندنی رات میں برفانی مناظر کی خاطر دوستوں سے الگ ہو کر فلک اور زمین کے مابین گفتگو سننے کی کوشش کرنا شاید جاوید کے ہم سفروں کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو۔مگر اسی لیے اس گروہ میں سوا دوسو صفحات کاسفرنامہ جاوید کے سوا کوئی اور لکھ نہ سکا۔باقیوں نے صرف سفر کیا۔جاوید نے اس سفر کو وقت کے گذران کاایک تاریخی لمحہ بنادیا۔اس ہمت والے کردار پر محترم کبیر خان نے اپنے تبصرے میں کیا خوب جملہ کہاہے۔
”جاوید خان کھڑی چڑھائیاں بھی کھڑے کھڑے چڑھتا ہے،ترائیاں بھی کھڑے کھڑے اترتا چلاجاتاہے“(ملاحظہ ہو ہمالہ بچشم و قلم جاوید خان28 نومبر2020)

کبیر صاحب نے اپنے تبصرے کاآغازالف لیلوی کردار سند باد کے ایک واقعے کاذکر کرتے ہوئے کیاہے۔شاید اس سفرنامے کی مجموعی فضا پر ہلکاساتاثر الف لیلہ کابھی ہے۔جو ہر اس قاری کو نظر آئے گا۔جس نے الف لیلہ اور کچھ سفر نامے پڑھے ہوں۔ویسے سفرنامے میں داستانی رنگ کاغالب ہوناایک فطری سی بات ہے۔مگر اسی داستانی رنگ کی دلچسپی میں حقائق کارنگ بھر کر قاری کو اپنی گرفت اور تحریر کے سحر میں گرفتار کرنا ایک مہارت ہے۔جاوید خان کو یہ فن خوب آتا ہے۔اپنا پہلا سفر نامہ اس کامیابی کے ساتھ لکھ کر انھوں نے جہاں اپنی نو آموزی کو استادی کارنگ دیاہے۔ وہاں معاصرانہ چشمک پر یقین رکھنے والوں کو خم ٹھونک کر للکارا ہے کہ
اب جگر تھام کر بیٹھو کہ میری باری آئی
بات ’میں تیرا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو‘کارنگ نہ اختیار کر لے اس لیے آئیے سفرنامے کی چیدہ چیدہ شاعرانہ سطور کامعجزہ دیکھنے چلتے ہیں۔یہ سطور دلوں کو گرماتی بھی ہیں اور طبعیت کو بہلاتی بھی ہیں۔مزاج کو لبھاتی بھی ہیں اور ذہن کو للچاتی بھی ہیں۔

اس شاعرانہ نثر کے چند نمونے ملاحظہ ہوں جو کہیں اپنے اندر فلسفہ کی نکتہ آفرینی کہیں منظر کشی کے لفظی کینوس،کہیں مزاح اور کہیں معلومات،جغٖرافیائی اور تاریخی حقائق کو اپنے اندر سموئے ہوئے بے ساختگی سے بہہ رہی ہے۔پوری کتاب پڑھ جائیے آورد کااحساس تک نہیں ہوتا۔
۱)سڑک دبلی مگر جان دار تھی۔(صٖفحہ ۶۲)
۲)دونوں اطراف سر بہ فلک پہاڑوں نے دریائے کنہار کو سکڑ کر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔(صحفہ ۷۲)
۳) ایک لکڑی کاپل اپنا ٹوٹا ہواانگ اگلے کنارے سے جوڑنے کی جدوجہد میں تھا،مگر شاید اب مزید جان نہیں رہی تھی۔(صفحہ نمبر ۸۲)
۴)ایک ننگی چوٹی پر برف کاآدھا گلیشر نیم درازتھا۔بالکل ایسے جیسے کوئی سفید شیر نیم جان ہو کر کسی چٹان پر اپنی ٹانگیں پھیلائے غنودگی میں چلا گیا ہو (صفحہ نمبر ۵۳)
۵)عبادت گاہیں پہلے صرف اللہ کی ہوتی تھیں اب بندوں اور مسلکوں کی ہیں۔ہرعبادت گاہ کااشاروں کنایوں میں اپنی مسلکی شناخت کااظہار ایک فیشن بن گیا ہے۔جب تک کوئی عبادت گاہ مسلک کو چُولا نہیں پہنے گی وہ سند یافتہ نہیں ہو سکے گی۔(صفحہ نمبر ۷۳)
۶)برف کاگھر حد نگاہ تک پھیلا ہوا تھا۔اس کی وسعت نظروں میں سمٹنے سے انکاری تھی۔سورج دیوتا کی کرنوں نے سفید و سرد گھر کے درودیوار پر سرخ چادر ڈال دی تھی۔ساری برفیلی چوٹیوں کے لب ورخسار پر لالی پھیل گئی تھی۔جیسے ہزاروں دلہنیں سرخ دوپٹوں میں بناو سنگار کیے بیٹھی،شرمیلی مسکراہٹ لیے دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ہر چوٹی شام کی دلہن تھی۔ہر ایک کا حسن دوسری سے الگ تھا۔ہم اس منظر کو دیکھنے میں محو تھے۔(صفحہ ۷۴)
۷)ہمالیہ کی قدرتی دیوار نے ۷ کروڑ سال قبل جنم لیا اور بلند ہوتے ہوتے آسمان کو چھو گئی۔آج بھی سستی سے اور مستی سے اندازاً سالانہ چھے سنٹی میڑ بلند ہو رہی ہے۔(صٖفحہ ۷۴)
۸)تقریباً ۸×۰۱کایہ کمرا ہمارے لیے ایک زندہ قبر تھی۔جس میں ہم آٹھ لوگ اپنے سامان سمیت صبح تک کے لیے دفن ہورہے تھے۔(صفحہ ۹۴)
۹)اس کی شفاف چاندنی اور اس میں سرد کوہسار۔سب خاموشیوں کاحسن اس چاندنی میں نہارہا تھا۔(صفحہ ۰۵)
مصنف نے جابہ جا اقبال کے خوب صورت اشعار بھی درج کیے ہیں۔چاندنی رات میں برف زاروں کی منظر کشی۔
اے چاند حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے۔
جیسے اشعار سفر نامہ کی تحریر کو چار چاند لگادیتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ مصنف کے شعور کی ساخت و پر داخت میں فطرت پسندی کے عناصر اقبال کی شاعری اور صبح کے وقت ان کے گھر سے نظر آنے والے برف پوش پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کی وجہ سے پل کر جوان ہوتے رہے ہوں۔جو اس سفرنامے کی روداد لکھتے وقت ایک انگڑائی کے ساتھ عود کر آئے ہوں۔(چاند کاذکر خصوصی توجہ کامستحق ہے)

سفرنامہ شہ سرخیوں سے مزین کیا گیا ہے۔جابجا قاری کو احساس دلانے والی شہ سرخیاں یہ بتارہی ہیں کہ اب کوئی نیامنظر بیان کیا جانے والا ہے۔بعض شہ سرخیاں تو اے۔حمید جیسے رومان نگارکی یاد دلاتی ہیں۔مثلاً
۱)بابو سر کے چائے خانے۔
۲) لولو سر کے خاموش سُر۔
۳)نانگاپربت (پہلامنظر)
۴)ممتاندی کی روانی۔
۵)مکتب کے گم شدہ پردوں سے اک ملاقات
۶)دیوسائی کاسفر،ہم سفر چاند کے ساتھ
۷)شیو سر جھیل،جہاں چاند اپناچہرہ دیکھتا ہے۔
۸)کالاپانی کے کالے پتھر اورگم شدہ کھیت۔

جاوید خان نے علاقے کی تاریخ پر بھی ہوم ورک مکمل کیا ہے۔چناں چہ کئی کتب کے حوالوں کے ساتھ کیسر کی دیومالائی تاریخ پر کچھ سطور کاحوالہ،ہیروڈوٹس کے حوالے،مائیکل پائزل کے سفری تجربوں کاذکر ان قارئین کے لیے مفید اور دلچسپ ہے جو سفر نامے کو ایک تاریخی دستاویز کے روپ میں دیکھنے پر زور دیتے ہیں۔کشمیر میں ایرانی رنگ حضرت شاہ ہمدان کے توسط سے آیا۔جاوید خان کے مطابق حضرت شاہ ہمدان تیمورلنگ (مشہوربادشاہ) کے زمانے میں آئے تھے۔

سفرنامہ نویس نے پھلوں، درختوں،پیداوار کے دوسرے عناصر اور علاقائی لوگوں کے رسم و رواج کے متعلق بھی معلومات جمع کرکے نہ صرف چابک دستی کاثبوت دیا ہے۔بلکہ دلچسپی بھی قائم رکھی ہے۔بعض جگہوں پر مکالمے بھی ملتے ہیں۔ان مکالموں میں مقامی باشندوں کے دیسی طرز کے الفاظ مزہ دوبالاکردیتے ہیں۔جیسے کھُوب صورت (خوب صورت)پھلاڈ (سیلاب،فلاڈ)وغیرہ۔مقامی جڑی بوٹیوں کے نام جیسے میسٹویوما، میسلون،شیلشیا،لانگڑی۔
کے ٹوپہاڑ،نانگاپربت (تینوں مناظر)ٰ قراقرم ہائی وے،ہنزہ،خنجراب وٖغیرہ جس نے نہیں دیکھے وہ یہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے چشم تصور سے دیکھتا چلا جائے گا۔کیوں کہ سفرنامہ نگار نے ان سب پر کچھ نہ کچھ لکھاہے۔خنجراب اس سفر کاآخری مقام ثابت ہوتاہے۔جہاں سے ہمارے سیاح واپسی کاقصد کرتے ہیں۔

سیارہ زمین پر انسان سفر کے نتیجے میں وارد ہوا۔ہبوط ِآدم ؑ ٓاصل میں پہلاسفر تھا۔اس وقت سے حضرت انسان سفرکی صعوبتیں کاٹ رہا ہے۔جاویدخان نے لکھنے کے فن کو اس سفری روداد کی خراد پرچڑھا کر جہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کالوہامنوایاہے وہاں آئندہ اس میدان میں اپنی ایک پہچان بنانے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔اس سفر نامے پر پروفیسر خالد اکبر خان،قمرخان نے بھی تبصرے لکھے ہیں۔میرا ایم فل (اردو) کے لیے مقالہ سفرناموں پر تھا۔چناں چہ سفرناموں کی ایک کثیر تعداد کوپڑھنے،ان پر تنقیدی آرا کامطالعہ کرنے اور تحقیقی مواد کو دیکھنے کاموقع ملا۔میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان درجنوں سفرناموں کی کھیپ میں سے کئی ایسے سفرنامے بھی دیکھے ہیں جو فن اور تیکنک کے اعتبار سے ”عظیم ہمالیہ کے حضور“ سے بہت پیچھے ہیں۔جہاں تک راقم کاتعلق ہے تو جاوید خان اپنا شاگر د رہا ہے۔ایک استاد کے لیے اس زیادہ خوشی اور کیاہوگی کہ شاگرد صاحب کتاب ہے۔

مناسب ہوگاکہ مسافران ِ ہمالیہ کے سفر کی روداد مختصراًقارئین (کالم پڑھنے والوں)کی نذر کی جائے۔ہمارے اس مختصر قافلے نے ۵اگست2107ء کو رخت سفر باندھا،دھیرکوٹ،مظفرآباد،برار کوٹ،گڑھی حبیب اللہ،بالاکوٹ،کیوائی وغیرہ سے گزر کر ناران،جل کھنڈ جیسے معروف وغیر معروف مقامات پر کہیں رکتے کہیں چائے پینے کے لے رکتے جھیل لولوسر جاپہنے۔اس نظارے کو اپنے لاشعور کاحصہ بناتے ہوئے بابوسر کے چھوٹے سے ہوٹل میں رات گذار کر جگلوٹ اور استور ہوتے ہوئے راما نگر دیکھا وہاں سے استور واپس آئے اور درّہ برزل کی ۰۰۵۳۱فٹ بلندی عبورکی۔(منی مرگ میں محبت کی ایک یادگار (ایک قبر) دیکھ کر مصنف نے داستان محبت کو سفر نامے کاحصہ بنایاہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

بالاآخر دیوسائی کاسفر شروع ہوتاہے جو تین ۷ اگست کو ہمارے سیاحوں نے دیوسائی کی خیمہ گاہ میں گاڑیاں کھڑی کیں۔سامان اتارا اوررات گذارنے کاقصدکیا۔خیمہ گاہ سے قریب جھیل شیوسر نے پھر مصنف (جاویدخان) کو اپنے طلسماتی حسن میں گرفتار کر لیا۔اورچاند ایک بار پھر اس رومان پرور حسن کو مہمیزدینے اپنے عکس سمیت آکھڑا ہوا۔چناں چہ چاند،چاندنی شیوسر کاپانی اور خاموشیاں مصنف کے ساتھ رات گئے جاگتے رہے۔جھیل شیوسر کے گول آبی پیالے کے حسن سے نمٹنے کے بعد اور اس کی دیومالائی کشش کو اپنے اندر سمونے اور اپنی آنکھوں میں بھر لینے کے بعد جب اس حیرت کدے سے نکلے تو مصنف اور ان کے ساتھیوں نے واپسی کی ٹھانی۔چناں چہ شام کو چلم چوکی پہنچے۔پھر استور کی ایک سرائے میں رات گذار کر وادی اردنگ جل کی طرف نکل گئے اورندیوں کے دودھیا پانیوں کی اٹھکیلیاں دیکھتے ہوئے،لہلہاتی فصلوں،ہمکتے پیڑوں پر لدے ہوئے پھلوں،کھیتوں کی مینڈھوں پر مست درختوں،کولوں میں آہستہ خرام پانیوں،چٹانوں،شکستہ سڑکوں،ترپال پر مبنی ہوٹلوں،تھکادینے والی چڑھائیوں اوراترائیوں کاتجربہ ومشاہدہ سمیٹے ہوئے قراقر م روڈ تک پہنچے۔اس تمام سفرمیں نانگاپربت کے تین مناظر کاذکر مصنف نے الگ الگ کیاہے۔اور بہ قول مستنصر حسین تارڑ ”شاہ گوری“ کی تعریف میں جی بھر کرشاعرانہ الفاظ کااستعمال کیاہے۔مضموں کی طوالت حائل نہ ہوتی تو چندپیرے ضرور شامل کیے جاتے۔مگر اصل لطف کتاب پڑھ کرہی آئے گا۔لہٰذاسفر ناموں سے شغف رکھنے والے ضرور اس خوب صورت سفرنامے کو پڑھنے کے لیے مشتاق ہوں گے۔جگلوٹ میں رات گذارکر مصنف اور ان کے ساتھی عطاآباد آئے۔جہاں ۰۱۰۲؁ء میں ایک پہاڑی دریاے ہنزہ میں گرنے سے جھیل بن گئی تھی۔گلگت اور ہنزہ کی سیر کے بعد قابلہ بلندیوں کو سر کرکے خنجراب پہنچاجوسطح سمندر سے ۰۲۴۵۱فٹ بلند ہے۔یہ مقام سفر کااختتام تھا۔جہاں سے واپسی ہونی تھی۔چناں چہ نلتر،گلگت سے ہوتے ہوئے ناران،بالاکوٹ،مظفرآباد پھر راولاکوٹ آکردم لیا۔کاش مصنف گاڑی کے سپیڈ ومیٹر پرآئئی ہوئی ریڈنگ نوٹ کرکے روانہ ہوتے تو واپس آکر دیکھتے اوریہ بتاسکتے کہ ان نوجوانوں نے کل کتنے کلومیٹر فاصلہ طے کیا۔اسی طرح سفرنامے میں ہر ایک تاریخ کاذکر اگر کیا جاتا تو بہتر تھا۔کہ فلاں تاریخ کو قافلہ کس مقام پر تھا۔واپس راولاکوٹ پہنچنے کی تاریخ بھی بتانی چاہیے تھی۔اب آپ پر لازم ہے کہ سفرنامہ حاصل کرکے اس سے لطف اٹھائیں اور مجھے رخصت بخشیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply